خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے علاقہ بویا میںبھارتی پراکسی تنظیم فتنہ الخوارج گلبہادر گروپ کے دہشت گردوں نے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے گزشتہ روز پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے کیمپ پر حملہ کیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق دہشت گردوں نے سیکیورٹی حصار توڑنے کی کوشش کی، جسے فوج نے ناکام بنا دیا۔ ناکامی کے بعد دہشت گردوں نے بارودی مواد سے بھری گاڑی کو بیرونی دیوار سے ٹکرا دیا، جس سے دیوار گر گئی اور قریبی شہری انفرااسٹرکچر، بشمول ایک مسجد، کو شدید نقصان پہنچا۔
سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے چاروں دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا، تاہم شدید فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 4 جوان شہید ہو گئے۔
افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کا یہ کوئی پہلا اور آخری حملہ نہیں ہے، یہ دہشت گرد خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مسلسل دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں۔
افغانستان کی حکومت کو بھی پہلی بار تنبیہ ہیں کی گئی، ماضی میں بھی کئی دفعہ پاکستان افغانستان کی طالبان حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر چکا ہے۔
یہی نہیں بلکہ ہمسایہ ممالک بھی افغانستان کی حکومت سے احتجاج کر چکے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گرد گروہ استعمال کر رہے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین سے تاجکستان میں بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں چینی باشندے مارے گئے تھے۔ ازبکستان اور ترکمانستان بھی اس صورت حال سے تنگ ہیں۔ افغانستان میں موجود فتنۃ الخوارج کے مختلف گروہ مختلف ناموں سے دوسرے ملکوں میں جا کر دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں۔
ڈنمارک کی جانب سے بھی گزشتہ دنوں اس کی تصدیق کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں بھی طالبان حکومت کے ان دعوؤں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ افغانستان میں کوئی دہشت گرد گروہ موجود نہیں ہے۔
گزشتہ روز پاکستان کے ضلع وزیرستان کے علاقے بویا میں ہونے والی واردات ایک بار پھر اس امر کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ دہشت گرد افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں سے آ کر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
وزیرستان میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسز کے کیمپ کا سیکیورٹی حصار توڑنے کی کوشش کی۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کر کے دہشت گردوں کی اس کارروائی کو ناکام بنا دیا۔ دہشت گردوں نے جب دیکھا کہ وہ کیمپ کے اندر نہیں جا سکتے تو انھوں نے بارود سے بھری ہوئی گاڑی کیمپ کی بیرونی حفاظتی دیوار سے ٹکرا دی۔
اس وجہ سے ایک زبردست دھماکا ہوا۔ دھماکے کی شدت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف کیمپ کی انتہائی مضبوط دیوار منہدم ہو گئی بلکہ قریبی شہری آبادی کو شدید نقصان پہنچا۔
متعدد عمارتیں متاثر ہوئیں، خواتین اور بچوں سمیت 15 مقامی شہری شدید زخمی ہو گئے۔ پاک فوج کے جوانوں نے فائرنگ کے تبادلے میں چاروں دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا۔ اس شدید جھڑپ کے دوران وطن کے چار بہادر سپوتوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔
فوجی کیمپ پر خوارج گلبہادر گروپ کے دہشت گرد حملے کے بعدکابل کو باضابطہ سفارتی تنبیہ کی گئی ہے‘ پاکستان نے افغانستان کی طالبان حکومت کو ڈیمارش جاری کیا ہے‘ دفتر خارجہ نے اسلام آباد میں افغانستان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو وزارتِ خارجہ میں طلب کرکے افغان طالبان حکومت کو پاکستان کے شدید تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔
وزارتِ خارجہ نے افغان طالبان رجیم کو دوٹوک الفاظ میں آگاہ کیا کہ پاکستان افغان سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی کے خلاف تمام ضروری اقدامات اٹھائے گا۔
صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے سیکیورٹی فورسز کے کیمپ پر حملہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے حملے میں شہید ہونے والے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
دفترخارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق یہی معاونت ان گروہوں کو پاک افغان سرحد اور ملحقہ علاقوں میں پاکستانی فوج اور شہری آبادی کے خلاف دہشت گرد حملے کرنے کے قابل بنا رہی ہے۔
پاکستان نے افغان سرزمین سے ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث عناصر اور سہولت کاروں کے خلاف مکمل تحقیقات اور فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
افغان طالبان حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے سرگرم تمام دہشت گرد گروہوں، بشمول ان کی قیادت، کے خلاف فوری، ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات کرے اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکے۔
افغانستان کی عبوری حکومت شدید عالمی دباؤ میں ہے لیکن اس کے باوجود وہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن نہیں کر رہی۔
افغانستان کے ارباب اختیار اپنی اس ناکامی کو تسلیم بھی نہیں کر رہے اور چونکہ چنانچہ کی گردان کر کے الزام دوسروں پر عائد کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان کا بیانیہ اقوام عالم تسلیم نہیں کر رہا۔
طالبان نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے میں بہت سی شرائط رکھی گئی تھیں۔ ان میں ایک شرط یہ تھی کہ طالبان افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد وہاں موجود دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کریں گے۔
دوسری شرط یہ تھی کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ افغانستان کی سرزمین کو کوئی دہشت گرد گروہ دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ وہ خواتین کو آزادانہ طور پر کاروبار اور تعلیم کا حق دیں گے۔
افغانستان میں موجود تمام نسلی اور لسانی گروہوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے حکومت میں نمایندگی دیں گے۔ افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان ان میں سے کسی ایک شرط پر بھی پورا نہیں اتر سکے۔
افغانستان میں موجودہ عبوری حکومت میں تاجک، ازبک، ہزارہ، مینگول، پامیری، گرجرز اور دیگر گروہوں کی نمایندگی اول تو موجود نہیں ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
افغانستان میں داعش خراسان صوبہ، القاعدہ، ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹرز آرگنائزیشن جیسے گلبہادر گروپ وغیرہ افغانستان میں آزادانہ طور پر موجود ہیں بلکہ انھیں حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہے۔
ان کے تربیتی کیمپ آزادانہ طور پر چل رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی اور گلبہادر گروپ کے لوگ وہاں کاروبار کر رہے ہیں اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کو آپریٹ کرتے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ وسط ایشیا میں وارداتیں کرنے والی مختلف تنظیموں کے لوگ بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت ان گروپوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہی؟
اس کا ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ افغان طالبان اور ان تنظیموں کا نظریاتی تعلق ہے، ان کا تنظیمی اشتراک بھی موجود ہے۔ یوں یہ سب ایک ہی ہیں، بس ناموں کا فرق ہے۔ وہ دنیا کو دکھانے کے لیے مختلف قسم کے پروپیگنڈا ٹولز استعمال کرتے ہیں۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کی حکومت ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف سرے سے کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتی۔ اس کا دوسرا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ افغانستان کے اقتدار پر جو گروپ قابض ہے، اس میں اتنی قوت ہی نہیں ہے کہ وہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کر سکے۔
افغانستان کی حکومت کے اندر بھی اختلافات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ یہ بھی اطلاعات آتی ہیں کہ حکومت میں شامل طاقت ور گروپ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دیتے جب کہ ماڈریٹ گروپ کی طاقت کمزور ہے۔
اس قسم کی پیچیدہ صورت حال کا حتمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ افغانستان کی حکومت ایک کمزور اور مفلوج حکومت ہے۔ طالبان کے جس دھڑے کو ماڈریٹ کہا جاتا ہے، اس کی قوت نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ صورت حال خاصی پیچیدہ بھی ہے اور تشویش ناک بھی ہے۔ افغانستان کے اندر مزاحمتی گروپ بھی موجود ہیں لیکن جبر اتنا زیادہ ہے کہ وہ کچھ کر نہیں پا رہے ہیں۔
افغانستان کی یہ پیچیدہ صورت حال ہمسایہ ممالک کے لیے باعث تشویش ہے۔ گزشتہ دنوں تہران میں بھی ایک اجلاس ہوا تھا، اس میں طالبان حکومت کو بھی بلایا گیا تھا لیکن وہ شامل نہیں ہوئی۔
یوں دیکھا جائے تو معاملات دن بہ دن بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ اقوام عالم کا موڈ بھی مختلف نظر آ رہا ہے۔ افغان طالبان کی حکومت کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کر رہی۔
دوسری طرف دہشت گرد گروہ دوسرے ملکوں میں جا کر مسلسل کارروائیاں کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال کتنی دیر تک چلے گی؟ یہ سوال سب کے لیے جواب کا طالب ہے۔ بہرحال پاکستان کو اپنے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ تو کرنا پڑے گا!