غزہ جنگ کے بعد پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی روزگار سے محروم، ٹریڈ یونین کا انکشاف
فوٹو: العربیہ
فلسطینی جنرل فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز نے کہا ہے کہ اکتوبر 2023 میں اسرائیلی جنگ کے آغاز کے بعد مغربی کنارے اور غزہ میں پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔
یونین کے مطابق فلسطینی کارکنوں کو منظم محاصرے، بندشوں اور اسرائیلی فوج کی روزانہ کی چھاپہ مار کارروائیوں کا سامنا ہے۔
جاری بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی پالیسیاں فلسطینی مزدوروں کے خلاف دوہرا جرم ہیں جو ان کے کام کرنے اور باعزت زندگی گزارنے کے فطری حق کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔
فیڈریشن کے مطابق دو سال سے زائد عرصے پر محیط مسلسل اسرائیلی جارحیت کے باعث پانچ لاکھ سے زیادہ فلسطینی کارکنوں کا ذریعہ معاش ختم ہوچکا ہے.
جبکہ بے روزگاری کی شرح مغربی کنارے میں 50 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے اور غزہ میں یہ شرح 84 فیصد سے بھی زیادہ ہوچکی ہے، جو ایک خطرناک سطح ہے۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ فلسطینی کارکنوں کو کام کی جگہوں تک رسائی نہ ملنے اور مقامی پیداواری شعبوں، خصوصاً زراعت، تعمیرات اور سروسز کی تباہی کے باعث مجموعی طور پر 9 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ٹریڈ یونین کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک 44 فلسطینی کارکن شہید، سینکڑوں زخمی اور 34 ہزار سے زائد کو اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا ہے۔
فیڈریشن نے اسرائیلی حکومت کو ان بھاری مالی نقصانات اور درجنوں فلسطینی کارکنوں کی ہلاکت کا مکمل ذمہ دار قرار دیا، جو فوجی چوکیوں پر یا غیر قانونی آبادکاروں کے حملوں میں اس وقت مارے گئے جب وہ اپنے اہلِ خانہ کے لیے روزی کمانے کی کوشش کر رہے تھے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ تمام اقدامات بین الاقوامی لیبر کنونشنز اور جنیوا کنونشنز کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
دوسری جانب اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار 700 سے زائد فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔
اسی عرصے کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور غیر قانونی آبادکاروں کے حملوں میں کم از کم 1,097 فلسطینی جان سے گئے جبکہ تقریباً 11 ہزار افراد زخمی ہوئے۔