وزن کم کیجیے!

اب ذرا! خاموشی سے سوچیے۔ چوبیس گھنٹے میں آپ کتنی ورزش کرتے ہیں۔ اس لفظ سے ناراض نہ ہوں

بیجنگ شہر کافی بڑا ہے۔ بلکہ بہت ہی مہیب ہے۔ ان گنت لوگ‘ تیزی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ۔ لاتعداد گاڑیاں‘ سڑکوں پر حاوی نظر آتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے چین جانے کا اتفاق ہوا۔ گہری نظر سے مقامی لوگوں کو دیکھنے اور ان سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا۔ اس ملک کی ترقی تو خیرہ کن ہے ہی، مگر ایک اور عنصر‘ جو بہت کم بیان کیا جاتا ہے وہ یہ کہ وہاں بہت کم موٹا آدمی یا وزنی عورت دیکھنے کو ملی۔ لوگوں کی اکثریت‘ بہت معتدل وزن کی مالک تھی۔ معالج کی حیثیت سے مطلب تلاش کیا‘ تو یہ ‘ کہ ان لوگوں میں مخصوص بیماریوں کی شرح کافی کم ہے۔

خاص طور پر ’’شوگر‘‘ کی ‘ جسے انگریزی زبان میں Diabetes Mellitusکہا جاتا ہے۔ جو ایک مہلک ترین مرض ہے۔ اس نظارہ کے بالکل برعکس‘ نیویارک میں وزنی انسانوں کی تعداد بہت زیادہ نظر آتی ہے۔ وزن کے ساتھ منسلک امراض بھی بہت زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ انسان کا وزن وہ عنصر ہے جو بیماریوں کو نزدیک یا دور کرتا ہے۔

اپنے ملک میں صحت کے حالات دیکھیں‘ تو واقعی تشویش ہوتی ہے۔ صرف شوگر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان میں چونتیس فیصد (34) لوگ‘ اس مہلک بیماری کا شکار ہیں۔ یہ دنیا میں اس موذی مرض کی سب سے بڑی شرح ہے۔ چار کروڑ سے زیادہ افراد شوگر کے مریض ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر تیسرا شہری ‘ اس بیماری سے متاثر نظر آتا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ 1/3 مریضوں کو پوری زندگی یہ معلوم ہی نہیں پڑتا ‘ کہ یہ ظالم مرض انھیں لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اب تو صورت حال اتنی بگڑ چکی ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی ‘ اس کی زد میں آ چکے ہیں۔

شوگر کی بیماری کی متعدد وجوہات ہیں۔ جن میں جینز (Genes) کا تعلق بھی ہے۔ مگر سب سے قوی وجہ وزن کا بڑھنا اور ورزش کا نہ کرنا ہے۔ یہ وہ اسباب ہیں ‘ جو ہر انسان کے اپنے کنٹرول میں ہیں۔ مگر ان اہم ترین نکات پر ہمارے ہاں بہت کم ہی غور کیاجاتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے، متعدد لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ اس بیماری کے مریض ہیں اور وہ بالکل نارمل نظر آتے ہیں۔ مگر اندر ہی اندر سے یہ بیماری دیمک کی طرح ‘ انھیں کھا رہی ہوتی ہے۔ چند مزید عناصر کا ذکر کالم کے اختتامی حصہ میں ضرور کرنا چاہوں گا۔ سب سے پہلے وزن کی بابت گزارشات پیش کروں گا۔ آپ کا وزن کتنا ہونا چاہیے ۔

یہ معلوم کرنا حد درجہ آسان ہے۔ گوگل پر اپنا قد درج فرمایئے، اس کے مطابق وزن کی ترتیب نوٹ فرمائیے۔ چند لمحوں میں ‘ آپ کے سامنے عیاں ہو جائے گا کہ قد کے حساب سے وزن کتنا ہونا چاہیے۔ یہ بھی پتہ چل جائے گا‘ کہ آپ کا وزن‘ آئیڈیل ویٹ سے زیادہ ہے یا کم؟ یہ دونوں صورتیںقطعاً مناسب نہیں ہیں۔ مگر وزن کا زیادہ ہونا حد درجہ خطرناک بات ہے۔ سادہ لفظوں میں، یہ موت کی طرف انسان کا پہلا قدم ہے۔ شوگر کا مرض تو دور سے آپ کے وزن کے بڑھنے کاانتظار کر رہا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے انسان over Weightہوتا ہے۔ یہ بیماری خوشی سے بھنگڑے ڈالتی ہے، رقص کرتی ہے۔ بڑے اطمینان سے آپ کے پورے جسم کو قبضہ میں کر لیتی ہے۔ پھر خاموشی سے مقتل کی طرف روانہ کر دیتی ہے۔ پر رکیے!ٹھہریے۔کیا آپ اس مہلک مرض سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ جی ہاں۔ یہ بالکل ممکن ہے، صرف اور صرف آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر آپ کا وزن زیادہ ہے تو اسے کم کرنا ہے۔

یہ کام‘ شروع شروع میں تھوڑا سا مشکل نظر آتا ہے۔ مگر اگر پرکھا جائے تو حد درجہ آسان ہے۔اس کی چابی آپ کے ذہن میں چھپی ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ اگر آپ فیصلہ کر لیں کہ وزن کم کرنا ہے‘ تو یقین فرمائیے یہ حد درجہ سہل بن جاتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ بالآخر کیا کرنا چاہیے۔ صرف ایک جملے کا جواب ہے۔ ’’کھانا کم کھائیں‘‘بلکہ یہ بھی اہم ہے ’’کہ کونسی چیز کھائیں اور کس سے دوری اختیار کریں‘‘۔ یہ مرحلہ اتنا مشکل نہیں‘ جتنا بتایا جاتاہے۔ کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنا موبائل فون کھولیے ‘ گوگل پر جائیے اور اس میں وہ تمام معلومات حاصل کریں‘ جو غذا کے اجزاء کے متعلق ہیں۔ یہ عمل ‘ پندرہ بیس منٹ سے ہرگز ہرگز زیادہ نہیں ہے۔ چلیے‘ اسے مزید سہل کر دیتا ہوں۔ Carbohydrates یا نشاستہ کی مقدار کو بھرپور طریقے سے کنٹرول کیجیے۔ اگر وزن بہت زیادہ ہے ‘ تو دو تین ہفتوں کے لیے روٹی کی مقدار نہ ہونے کے برابر کر دیں۔ چاول اور چینی کو اپنی غذا میں سے منہا کیجیے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جناب یہ کیسا ناقص مشورہ ہے۔

حضور! سبزیوں پر منتقل ہو جائیں۔ تمام سبزیاں نہیں صرف چند مخصوص سبزیاں۔ جن میں نشاستہ کم ہے۔ عام سی سلاد کھائیں ۔کسی تردد کی ضرورت نہیں۔ گاجر‘ مولیاں ‘گوبھی‘ بھنڈی‘ پالک اور اس طرح کی عام سی سبزیاں کھانا کوئی مشکل کام نہیں ۔ آلو سے پرہیز کریں۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہمارا کھانا بنانے کا عمومی طریقہ حد درجہ ناقص ہے۔ ہم گھی اور تیل کا خوفناک حد تک غیر ضروری استعمال کرتے ہیں۔ ہر کھانے کے اوپر گھی کی ایک تہہ‘ تیرتی ہوئی نظر آتی ہے جو دراصل موت کی گھنٹی ہے۔ کھانوں کو بہت سادہ کر دیجیے۔ ابلی ہوئی اشیاء کا استعمال حد درجہ اہم ہے۔ وہ پھل کھائیں جن میں میٹھا بہت کم ہے۔

امرود حد درجہ سستا پھل ہے۔ اسے اپنی ڈائٹ کا حصہ بنائیں ۔ کوئی مہنگا حل نہیں بتا رہا۔ دالیں استعمال کریں، ان کو بالکل تڑکا نہ لگانے دیں۔ سادہ باتیں کر رہا ہوں۔ عناصر تو بہت ہیں۔ مگر میری یہ تحریر ہراس آدمی کے لیے ہے جو میڈیکل سائنس کی شدھ بدھ سے بالکل واقف نہیں ۔ پھلوں میں گرما‘ خربوزہ‘ تربوز حد درجہ مناسب ہیں۔کہہ کیا رہا ہوں۔ کھانے ضرور کھائیں۔ مگر متبادل غذا پر منتقل ہو جائیں۔ جب زیادہ بھوک ستائے تو کوئی فروٹ کھا لیں۔پیٹ بھی بھر جائے گا۔ساتھ ساتھ بھوک کو کنٹرول کرنا سیکھئے۔

اب ذرا! خاموشی سے سوچیے۔ چوبیس گھنٹے میں آپ کتنی ورزش کرتے ہیں۔ اس لفظ سے ناراض نہ ہوں۔ دن میں ایک گھنٹہ پیدل چلیے ۔کبھی تیز اور کبھی آہستہ ۔پسینہ نکالیے۔ گھر کے نزدیک کوئی باغ ہے تو اس سے استفادہ کیجیے۔ گھڑی کے اعتبار سے پورے ساٹھ منٹ مکمل کیجیے۔ اگر کوئی گراؤنڈ نہیںہے تو گھر میں پیدل چلیے۔ سیڑھیاں بار بار چڑھیے۔ اپنی چھت پر واک کیجیے۔ خواتین کا بہرحال مسئلہ موجود ہے۔ گزارش کروں گا کہ خواتین پوری کوشش فرمائیں ۔ جہاں وقت اور موقع ملے ایک گھنٹہ پیدل ضرور چلیں۔ اپنے شوہر یا کسی بھی اہل خانہ کو ساتھ لے کر گھر سے باہر نکلیں۔

اپنے خاندان کو پیدل چلنے کا عادی بنائیں۔ کسی بھی خاتون کا ‘ اپنے اہل خانہ پر یہ احسان عظیم ہو گا۔ اگر کوئی پیدل نہیں چلنا چاہتا تو کوئی حرج نہیں۔ آپ کو جو ورزش پسند ہے ضرور کیجیے ۔بہت تھوڑے عرصے میں‘ غذا پر کنٹرول اور ورزش سے وزن کم ہونا شروع ہو جائے گا۔ کسی قسم کی کوئی جلدی نہ کریں۔ وزن کو ہرگز ہرگز ‘ تیزی سے کم نہ کیجیے۔ بالکل آہستہ آہستہ یہ عمل ہونے دیجیے ۔ایک ہفتہ میں اگر ایک پاؤنڈ وزن کم ہوتا ہے تو بالکل ٹھیک ہے۔ یعنی ایک ماہ میں چار پاؤنڈ اور ایک برس میں 48پاؤنڈ وزن کم ہو جائے گا۔ جو بھی آپ کا وزن جلد کم کروائے گا اسے صرف ایک بات کہیے کہ جنتی سرعت سے وزن کم ہوگا اتنی ہی تیزی سے واپس آئے گا۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ وزن کم کرنا آسان ہے۔ مگر اسے برقرار رکھنا کافی مشکل ہے۔ اس کا حل آسان سا ہے۔ غذا پر مکمل کنٹرول اور ورزش ‘ زندگی کا جزو بن جانا چاہیے۔

میری بات غور سے سنیئے فاسٹ فوڈ سے مکمل پرہیز کریں۔ امریکی سائنسی جرائد کی تحقیق کے مطابق‘ فاسٹ فوڈ ‘ بیماریاں پھیلانے کا سب سے آسان راستہ ہے، اس طرح کی اشیا ہر عمر کے انسان کے لیے زہر قاتل ہیں۔ بچوںکو بھی ان سے دور رکھیے۔ بیکری آئٹمز کو گھر کا راستہ نہ دکھایے۔ حد درجہ دیدہ زیب نظر آنے والی مٹھائیوں سے دور رہیے ۔ کسی فاسٹ فوڈ کی چین پررکیئے، دیکھیے کہ لوگ اپنے بچوں اور اہل خانہ کو بڑی محبت سے کھانا کھلا رہے ہونگے۔

جانے بغیر ! سمجھے بغیر! کہ یہ سب کچھ وہ عناصر ہیں جن سے ہر عمر میں نقصان در نقصان ہیں۔ اگر کسی دن بدپرہیزی ہو جائے تو ورزش زیادہ کیجیے۔ معاملہ بہتر ہونے کا امکان ہے۔ مسکرایے مت؟ سادہ غذا کی طرف آئیے۔ اگر روٹی کھانے کو بہت دل چاہ رہا ہے تو چوکر کا آٹا استعمال کریں۔ دیسی چیزوں پر زور دیں۔ چینی کی جگہ دیسی گڑ استعمال کریں۔ اگر گوشت کھانا ضروری سمجھتے ہیں تو دیسی گوشت استعمال کریں۔ ڈبوں میں منجمد گوشت آپ کے لیے حد درجہ خطرناک ہے۔ ا یک نقطہ یاد رکھیے صرف اور صرف سادہ غذا استعمال فرمائیے۔

شوگر ایک مہلک مرض ہے۔ اس سے ضرور بچنا چاہیے ۔ اور اگر اس کے مریض ہیں تو بالکل فکر نہ کیجیے۔ مناسب ورزش ا ور سادہ غذا سے یہ مرض آپ کو نقصان نہیں پہنچا پائے گا۔ اپنے جسم کے خود مالک بنیے۔ خوش خوراکی بلکہ طمع سے دور بھاگیے۔ پھر دیکھیے بہتر زندگی کیسے دوڑ کر آپ کے نزدیک آتی ہے!

Load Next Story