عراق کے ساتھ تجارتی روابط

تحقیق و تربیت سے اور تجارتی شعبوں کو مزید ترقی دے کر باہمی تجارت کو کئی گنا بڑھایا جاسکتا ہے

کسی زمانے میں بغداد دنیا کا سب سے بڑا ترقی یافتہ جدید ترین شہر تھا۔ عباسی دور حکومت میں اس شہر کی مساجد، مدرسے، خانقاہیں علم و حکمت اور روحانیت کی خوشبو سے مہکتے تھے۔ دنیا کے ہر گوشے سے لوگ یہاں آ کر بس رہے تھے۔ عراق کے اس ترقی یافتہ شہر کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ شہر کے بازار، چمکتے ہوئے سونے کے سکے، مسالوں کی مہک، انسانوں کے دلوں میں امید اور خواب بکھیرتی تھی جب بغداد کی گلیوں اور بازاروں میں دنیا کے مختلف علاقوں سے تاجر آ کر فروکش ہوتے۔ انھی میں برصغیر پاک و ہند کے تجارتی قافلے بھی نمایاں ہوتے تھے۔

اس خطے کا رہنے والا ہر تاجر، ہر طالب علم، ہر استاد، خانقاہ کا ہر مجاور، شہر شہر بغداد سے بخوبی واقف تھا۔ اور جب ایسے قافلے بغداد روانہ ہونے کے لیے پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ٹھہرتے تو قصہ گو الف لیلیٰ کی داستان، بغداد کی طلسم ہوش ربا کی داستانیں سناتے اور پھر سننے والے بہت جلد ان خوابوں میں کھو جاتے۔ عراق کے مسلمان اور پاکستان کے مسلمان ایک ہی رشتے میں جڑے ہوئے ہیں اور یہ قدیم تجارتی تعلقات میں بندھے ہوئے تھے۔ لاہور سے ہو یا ملتان سے یا پشاور سے جو بھی تجارتی قافلے عراق کا رخت سفر باندھتے ،ان کے ذہنوں میں صرف منافع ہی نہیں خوشحالی، ترقی کے خواب بھی سجے ہوتے تھے۔ آج اسی خوشحالی، ترقی، بھائی چارے میں اضافے، نئے تجارتی راستے کھولنے کے لیے پاکستان نے پہل کر دی ہے۔

گزشتہ دنوں صدر پاکستان آصف علی زرداری کی عراق کے صدر، نگران وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان دفاع، زراعت، غذائی تحفظ، اور دیگر کئی شعبوں میں تعاون بڑھانے کی بات ہوئی۔ تاریخی منظر نامے کو محسوس کریں تو بغداد اور پشاور کے درمیان تجارتی قافلے ہمیشہ ریڑھ کی ہڈی رہے ہیں۔ برصغیر کے مختلف علاقوں سے جب تجارتی قافلے پشاور پہنچتے اور یہاں سے بڑے قافلوں کی صورت میں تبدیل ہوتے جس میں اپنے سامان کے ساتھ تاجر بھی ہوتے اور بغداد کے مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لیے جانے والے طالب علم بھی ہوتے۔ راہ سلوک کے منازل طے کرنے کے خواہش مند مریدین بھی شامل ہوتے اور یہ قافلہ جب پشاور کے قصہ خوانی بازار میں آ کر ٹھہرتا تو قصہ گو اپنی آواز میں اتنا جادو بھر دیتا کہ الف لیلیٰ کے شہزادے اور کوہ قاف کی پریاں حقیقت میں دور سے ان کو دکھائی دیتیں۔ اسی طرح آج بھی پاکستان اور عراق کے تعلقات کی گہرائی صدیوں سے پروان چڑھ رہی تھی کہ اس موقع پر صدر پاکستان آگے بڑھے اور انھوں نے عراق کے شہر بغداد میں جا کر اقتصادی اور ثقافتی رشتوں اور بھرپور باہمی تجارت کی بحالی کے لیے عراق کی حکومت کے ساتھ مل کر وہ بنیاد رکھ کر آئے ہیں جن کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو برادر ملکوں کی طرف سے اپنے عوام کے لیے خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری اور عراق کی حکومت نے یہ واضح کیا کہ مشترکہ سرمایہ کاری، تکنیکی تبادلہ اور جدید تحقیق دونوں ملکوں کے تجارتی توازن کو مضبوط کرسکتے ہیں۔ اس طرح کے تعاون سے نہ صرف موجودہ اقتصادی رشتے مستحکم ہوں گے بلکہ مستقبل میں نئی صنعتیں، زرعی منصوبے اور دفاعی منصوبے بھی وجود میں آئیں گے۔

صدر پاکستان آصف علی زرداری اور عراق کے صدر، نگران وزیر اعظم اور عراقی وزرا کی ملاقات محض رسمی تعارف نہیں تھی بلکہ دو اسلامی ملکوں کے درمیان ثقافتی، تجارتی، دفاعی تعلقات کی بحالی اور ان میں مضبوطی لانے کے عمل کا آغاز تھا۔ مزید یہ کہ دونوں ممالک آئی ٹی ٹیکنالوجی، زرعی منصوبوں، غذائی تحفظ کے منصوبوں اور دیگر شعبوں میں مشترکہ کام، تحقیق و تربیت سے اور تجارتی شعبوں کو مزید ترقی دے کر باہمی تجارت کو کئی گنا بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح عراق کی مارکیٹ میں پاکستانی اشیا و مصنوعات کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ اس وقت باہمی تجارت کی صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے 20 بڑے ممالک جن کو پاکستان بڑی مقدار میں اپنی مصنوعات بھیجتا ہے ان 20 ملکوں کی فہرست میں عراق شامل نہیں ہے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عراق میں کیا ڈیمانڈ ہے، وہاں کے شہری کس قسم کی مصنوعات کی طلب رکھتے ہیں اور پاکستان جوکہ پہلے کم مقدار میں کچھ اشیا برآمد کر رہا ہے ان کی تعداد کیسے بڑھائی جائے، حکومت صدر پاکستان کے اس دورے اور عراقی حکومت کے پاکستان کے لیے مخلصانہ اور برادرانہ جذبے کی قدر کرتے ہوئے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھائے اور پاکستان کے لیے زیادہ سے زیادہ تجارتی مواقع تلاش کرے۔ پہلے تو زمینی تجارت ہوا کرتی تھی اب کراچی سے بصرہ بحری تجارت کو مزید فروغ دیا جاسکتا ہے۔ دونوں ملک مل کر اس طرح باہمی تجارت کو ہی فروغ نہیں دیں گے بلکہ تجارت کے ساتھ ہمارے ان کے ساتھ قدیم ثقافتی، روحانی، تاریخی رشتے بھی ہیں ان کو بھی مضبوط سے مضبوط تر کریں گے جوکہ صدیوں پرانی تجارتی، علمی، روحانی تعلقات کی یاد دلاتے رہیں گے جوکہ صدیوں سے قافلوں کی صورت میں آج بھی زندہ ہے۔

Load Next Story