بوس ہو تو ایسا! فیکٹری ملازمین کیلیے 67 ارب روپے سے زائد کا بونس

فیکٹری مالک گراہم واکر کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں ملازمین انہیں بتاتے رہیں کہ اس رقم نے ان کی زندگیوں پر کیا اثر ڈالا

امریکا میں ایک فیکٹری  کے مالک نے اپنے ملازمین کے لیے 67 ارب روپے (450 ملین ڈالر) سے زائد رقم کا بونس مختص کردیا۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق ریاست لوئیزیانا میں ایک فیکٹری کے 540 ملازمین کو اس وقت حیران کن خوشی ملی جب کمپنی کی فروخت کے بعد انہیں مجموعی طور پر 240 ملین ڈالر (67 ارب پاکستانی روپے سے زائد) رقم پر مشتمل کرسمس بونس دیے گئے۔

فائبربونڈ نامی فیکٹری کے چیف ایگزیکٹو گراہم واکر نے کمپنی کو 1.7 ارب ڈالر میں فروخت کرنے سے قبل خریداروں کے سامنے شرط رکھی کہ فروخت کی رقم کا 15 فیصد لازمی طور پر ملازمین کے لیے مختص کیا جائے گا۔ واکر کے مطابق یہ شرط ناقابلِ مذاکرات تھی کیونکہ ملازمین کے پاس کمپنی کے شیئرز نہیں تھے اور وہ اس کے بغیر کمپنی چھوڑ سکتے تھے۔

دوسری جانب حیران کن طور پر پاور مینجمنٹ کمپنی ایٹن نے واکر کی شرائط مان لیں اور جون میں فائبربونڈ کے 540 مستقل ملازمین کو بونس کی ادائیگیاں شروع ہوئیں، جن کی اوسط رقم 4 لاکھ 43 ہزار ڈالر تھی، جو آئندہ 5 برس میں دی جائے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے ملازمین کو اس سے بھی زیادہ رقم ملی۔

جب ملازمین کو لفافوں میں بونس کی تفصیلات دی گئیں تو کئی افراد جذبات پر قابو نہ رکھ سکے ا ور کچھ نے اسے مذاق سمجھا۔ فیکٹری میں 1995 سے کام کرنے والی 51 سالہ لیزیا کی(جنہوں نے کیریئر کا آغاز 5.35 ڈالر فی گھنٹہ اجرت سے کیا تھا) نے خط کھولتے ہی رونا شروع کر دیا۔

کمپنی کے بزنس ڈیولپمنٹ ایگزیکٹو ہیکٹر مورینو کے مطابق ملازمین شدید حیرت میں تھے اور ان میں سے اکثر یہ پوچھتے رہے کہ ’’اس میں شرط کیا ہے؟‘‘

لیزیا کی نے بتایا کہ بونس کی رقم سے انہوں نے اپنا رہن ادا کیا اور اپنی کپڑوں کی دکان بھی کھول لی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے وہ تنخواہ سے تنخواہ تک گزارا کرتی تھیں، مگر اب زندگی بدل چکی ہے۔ ہیکٹر مورینو نے اپنی رقم سے اپنے پورے خاندان کو میکسیکو کے شہر کینکون کی سیر کرائی۔

اسی طرح دیگر ملازمین نے کریڈٹ کارڈز کے قرض اتارے، گاڑیاں خریدیں، بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کیے یا ریٹائرمنٹ کے لیے بچت کی۔ 67 سالہ اسسٹنٹ مینیجر ہونگ بلیک ویل نے ملنے والی رقم سے ریٹائرمنٹ لے لی، شوہر کے لیے گاڑی خریدی اور باقی رقم محفوظ کر لی۔

مقامی میڈیا کے مطابق ان خطیر بونسز سے 12 ہزار آبادی والے قصبے منڈن کی معیشت کو بھی فائدہ ہوا۔ میئر نک کاکس کے مطابق شہر میں خرچ ہونے والی بڑی رقم کے باعث خاصی گہماگہمی ہے۔ گراہم واکر نے کہا کہ وہ قصبے کے لیے کچھ اچھا کرنا چاہتے تھے، جہاں برسوں سے نوکریاں اور کاروبار ختم ہو رہے تھے۔

یاد رہے کہ فائبربونڈ کی بنیاد 1982 میں واکر کے والد کلاڈ واکر نے رکھی تھی۔ کمپنی نے 1990 کی دہائی میں ترقی کی، مگر 1998 میں فیکٹری جلنے کے بعد اور پھر 2000 کی دہائی کے اوائل میں شدید مشکلات کا سامنا کیا۔ اس دوران ملازمین کی تعداد 900 سے کم ہو کر 320 رہ گئی، تاہم واکر خاندان نے مشکل حالات میں بھی ملازمین کو تنخواہیں ادا کیں۔

بعد ازاں گراہم واکر نے سی ای او بننے کے بعد کمپنی کو سنبھالا اور نئی حکمتِ عملی کے تحت کاروبار کو آگے بڑھایا۔ ڈیٹا سینٹرز کے لیے ماڈیولر پاور انکلوژرز بنانے کی جانب 150 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، جس کا فائدہ کووِڈ وبا کے دوران بڑھتی ہوئی طلب سے ہوا۔ اس کے نتیجے میں 5 سال میں فروخت میں 400 فیصد اضافہ ہوا اور بالآخر کمپنی کی فروخت کا معاہدہ طے پایا۔

گراہم واکر کا کہنا ہے کہ وہ اب صرف یہ چاہتے ہیں کہ ملازمین انہیں بتاتے رہیں کہ اس رقم نے ان کی زندگیوں پر کیا اثر ڈالا۔

Load Next Story