پی آئی اے کا قصہ تمام ہوا!

پی آئی اے کی نجکاری کے ساتھ پاکستان کے تابناک ماضی سے جڑا ایک اور ادارہ فروخت ہوگیا

فوٹو: فائل

قائداعظم کے حکم پر اصفہانی خاندان نے 1946 میں کلکتہ، کہ جسے اب کولکتہ کہتے ہیں، اورینٹ ایئر ویز کی بنیاد رکھی۔ یہ تقسیم ہند سے قبل ہندوستان کی پہلی اور واحد مسلم ملکیت ایئرلائن تھی اور مرزا احمد اصفہانی اس کے پہلے چیئرمین تھے۔ اورینٹ ایئر ویز کے آغاز کے دو ماہ بعد ہی پاکستان بھی معرض وجود میں آگیا۔

تقسیم کے فوراً بعد حکومت پاکستان نے اورینٹ ایئر ویز اور برٹش اوورسیز ایئرویز کارپوریشن  (بی او اے سی) سے کرایے پر طیارے حاصل کیے تاکہ دہلی اور کراچی کے درمیان ریلیف آپریشن شروع کیا جاسکے۔ اس دوران اورینٹ ایئر ویز نے بھی اپنا صدر دفتر کلکتہ سے کراچی منتقل کردیا۔ یہ نجی ادارہ اس نئے ملک اور برصغیر کی بڑھتی ہوئی فضائی سفر کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھا، چنانچہ 1955 میں حکومت پاکستان نے اورینٹ ایئر ویز کو ضم کرتے ہوئے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی بنیاد رکھی جو 23 دسمبر 2025 کو سرکاری ملکیت سے آزاد ہوگئی یا کردی گئی۔

قیام کے فوراً بعد ہی پی آئی اے اپنے عروج کی جانب گامزن ہوگئی تھی کیونکہ 1955 میں پی آئی اے نے لندن کےلیے اپنی پہلی پرواز براستہ قاہرہ اور روم کا آغاز کیا تھا۔ 1962 میں پی آئی اے نے تاریخی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے  لندن سے کراچی تک کا فاصلہ چھ گھنٹے تینتالیس منٹ میں طے کیا تھا۔ پی آئی اے کا ترقی کا سفر یونہی چلتا رہا، یہاں تک کہ جیکولین کینیڈی نے پی آئی اے کے ساتھ سفر کو Great People to Fly With قرار دیا۔

1985 میں امارات ایئرلائن کا آغاز بھی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ اسی لیے امارات ایئرلائن کا کال سائن ’’ای کے‘‘ یعنی امارات سے کراچی ہے۔ اس کے علاوہ پی آئی اے نے ایئر مالٹا، فلپائن ایئرلائن، صومالی ایئرلائن اور یمن ایئرلائن کے قیام یا آپریشن میں بھی کردار ادا کیا تھا۔ کچھ لوگ اس فہرست میں سنگاپور ایئرلائن، لیبین ایئرلائن اور سعودی ایئرلائن کو بھی ڈالتے ہیں۔

لامحالہ ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس کے بعد ایسا کیا ہوا کہ نہ لوگ گریٹ رہے؟ اور نہ ایئرلائن۔ وقت گزرتا رہا ایئرلائن تو پھر بھی چلتی رہی مگر منافع کے ساتھ اڑنا بھول گئی یا پھر منافع اڑ گیا۔

امارات ایئرلائن گزشتہ چالیس سال میں ایک مضبوط اور منافع بخش ادارے میں تبدیل ہوگئی ہے۔ امارات ایئرلائن جب بھی جہازوں کے آرڈر دیتی ہے وہ ریکارڈ ہوتا ہے اور اخبار کی سرخیوں میں آتا ہے۔ پی آئی اے کا ذکر بھی سرخیوں میں آتا ہے اور ایسا آتا ہے کہ ہر پاکستانی کا چہرہ سرخ ہوجائے۔ میں نے کسی ناول میں ایک جملہ پڑھا تھا کہاں یہ ابھی یاد نہیں آرہا کہ ’’اس کے بعد میں آوارہ ہوگئی‘‘۔ اگر یہ جملہ پی آئی اے کے سفر پر لکھا جائے تو کچھ یوں ہوگا کہ ’’اس کے بعد پی آئی اے سیاسی ہوگئی یا سیاست کا شکار کردی گئی‘‘۔

پی آئی اے کی تباہی کی ذمے دار حکومت رہی ہیں۔ تمام حکومتوں نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے کیا، سویلین اور کیا غیر سویلین حکومتیں سب اس کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔

سب سے پہلے حکومتوں نے اس کو اپنے بھانجے، بھتیجے، دیگر رشتے داروں اور اپنے قریبی جاننے والوں کےلیے روزگار کا ذریعہ یا وسیلہ بنایا۔ سیاسی بنیادوں پر کتنے اہل امیدوار آئے ہوں گے، وہ میں آپ کی صوابدید پر چھوڑتا ہوں۔ اس کا فیصلہ پی آئی اے کی معاشی نتائج کو دیکھ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔ آپ یقین مانئے کہ اگر کچھ لوگوں کو گھر پر بٹھا کر تنخواہ دی جاتی تو پی آئی اے کا کم نقصان ہوتا بلکہ اگر اس میں کلیدی عہدے کے لوگوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو شاید منافع کے خدشے کا بھی اظہار کیا جاسکتا ہے۔ یہ خیال رہے کہ ابھی تک کرپشن اور کمیشن کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ’’عجب کرپشن کی غضب کہانیاں‘‘ ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ اس سے زیادہ مجھے لکھنا چاہیے اور نہ ہی میں اس کا متحمل ہوسکتا ہوں۔

پی آئی اے کا ایک بہت خوبصورت اشتہار اخبارات اور میگزین میں چھپتا تھا کہ جس میں مختلف اقسام کے پرندے ہوتے تھے، جو مختلف ایئرلائن کی نمائندگی کرتے تھے اور پی آئی اے اس اشتہار میں یہ بتاتی تھی کہ ان کے اڑنے میں پی آئی اے کا کردار رہا ہے۔ ایک معلومات کے تحت 1955 میں اس وقت تیس یا پینتیس ایسی ایئرلائنز تھی جنھیں قومی ایئرلائن کہا جاسکتا تھا اور پی آئی اے ان میں سے ایک تھی۔  جو سفر 1955 میں سرکاری ملکیت میں آنے کے بعد شروع ہوا تھا، آج سرکاری ملکیت میں نکلنے سے اس سفر کا اختتام ہوا اور اب پاکستان کا شمار ان پچیس سے کم ممالک میں ہوگا کہ جن کے پاس اپنی قومی ایئرلائن نہیں ہے۔ 

جب تک پی آئی اے اڑان بھر رہی تھی پاکستان بھی ترقی کررہا تھا۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ پی آئی اے کی نج کاری کے ساتھ پاکستان کے تابناک ماضی سے جڑا ایک اور ادارہ فروخت ہوگیا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستانیوں کو دنیا کے بیشتر ممالک میں آمد پر ویزا ملا کرتا تھا۔ آج ہمارا پاسپورٹ کہاں کھڑا ہے یہ ملک کے بچے بچے کو پتہ ہے اور اس کی وجوہات سمجھنے کےلیے بھی کوئی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ طیران گاہیں اور موٹر وے پہلے سے گروی رکھے ہوئے ہیں۔ اگر یہ کہیے کہ ملک ٹکڑوں میں بکنا شروع ہوگیا تو شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا، لیکن ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ 

ہمیں آج یہ بتایا جاتا ہے کہ سرکار کا کام نہیں کہ وہ کاروبار کریں۔ بالکل ٹھیک، لیکن جناب حقیقت یہ ہے کہ کاروبار کرنے کا فیصلہ بھی سرکار کا تھا اور آج کاروبار نہ کرنے کا فیصلہ بھی سرکار کا ہے۔ عوام نے کل بھی زندہ باد کے نعرے لگائے تھے اور آج بھی زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں اور آنے والے کل کو جب کوئی اور فیصلہ کیا جائے گا تو عوام اس وقت بھی زندہ باد کا ہی نعرہ لگا رہے ہوں گے۔ ویسے اب وقت بدل گیا اور اب کاروبار بلاواسطہ نہیں بلکہ بالواسطہ کیا جاتا ہے۔ اس ایک جملے میں اداروں کی نج کاری کی ادھوری نہیں بلکہ پوری کہانی ہے، اگر کوئی سمجھنا چاہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Load Next Story