پی آئی اے کے عروج و زوال کی کہانی

کیا دنیا بھر کے مسافروں کو ’باکمال لوگ لاجواب سروس‘ دوبارہ مہیا کی جائے گی؟


حافظ خرم رشید December 27, 2025
فوٹو: فائل

مارچ 1960 میں جیٹ انجن والے بوئنگ 737 جہاز چلانے والی ایشیا کی پہلی اور بوئنگ 777-200 ایل آر جہاز حاصل کرنے اور چلانے والی دنیا کی پہلی ایئر لائن کے اعزازات حاصل کرنے والی پی آئی اے کے عروج کی کہانی سنیں تو یقین نہیں آتا کہ جس ایئرلائن نے دنیا کی نامور ائیرلائنز کی بنیاد رکھی آج تاریخی خسارے سے دوچار ہوکر فروخت ہوگئی ہے۔

برصغیر پاک و ہند کے معروف صحافی اور شاعر فیض احمد فیض نے پی آئی کو ’باکمال لوگ، لاجواب سروس کا سلوگن دے کر واضح کیا کہ یہ کوئی عام ایئرلائن نہیں بلکہ تاریخ رقم کرنے والی دنیا کی بہترین فضائی سروس ہے۔

10 مئی 1964 کو ماسکو کے راستے یورپ کے لیے پروازیں کرنے والی پہلی غیر روسی ایئر لائن بننے والی پی آئی اے نے چین ، فلپائن، صومالی ایئر لائنز، یمنیہ، چو سون مین ہینگ (جو آج ایئر کوریو کے نام سے جانی جاتی ہے) مالٹا اور ایمریٹس ایئرلائن کو تکنیکی اور انتظامی معاونت فراہم کرنے کے ساتھ طیارے بھی لیز پر دینا شروع کیے۔

پی آئی اے کی خدمات کے اعتراف میں مالٹا کے تعلیمی نصاب میں آج بھی پی آئی اے کے نام سے مضمون موجود ہے۔ پی آئی اے نے دنیا کی بہترین ایئرلائن مانی جانے والی ایمریٹس ائیرلائن کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا اور ایمریٹس ایئرلائن شروع کرنے کےلیے ایک جہاز تحفے میں دیا اور اس کی پہلی پرواز کراچی سے دبئی گئی تھی۔ ایمریٹس ایئرلائن کے ٹکٹ پر آج بھی فلائٹ نمبر ای کے سے شروع ہوتا ہے جس کا مطلب ای سے ایمرٹس اور کے سے کراچی۔

چین کی سرزمین کو سب سے پہلے چھونے والی یہ ایئرلائن 29 اپریل 1964 کو چین کے لیے پرواز کرنے والے کسی بھی غیر کمیونسٹ ملک کی پہلی ایئر لائن بنی۔ بلکہ چین کو دنیا سے ملانے والی ایئرلائن کا نام ہی پی آئی اے ہے۔ کیوں کہ جس شخص یا اشخاص کو چین جانا ہوتا تو وہ پہلے کراچی آتا اور پھر پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے چین جاتا۔

یہی وہ ایئر لائن ہے جس نے چینی صدر ماؤ زے تنگ کو ایک جہاز تحفے میں دیا اور وہ جہاز تادم آخر ماؤ زے تنگ کے زیر استعمال رہا اور آج بھی چینی میوزیم میں یادگار کے طور پر محفوظ ہے۔

شکاگو ایئرلائنز کی بیناد بھی پی آئی اے نے رکھی اور اسے نہ صرف پائلٹس اور ایئر ہوسٹسز سمیت پورا اسٹاف دیا بلکہ نئی انتظامیہ اور اس کے عملے کو تربیت بھی دی۔

پی آئی اے پائلٹس، کیپٹن عبداللہ بیگ اور کیپٹن غیور بیگ نے لندن سے کراچی کا سفر صرف گھنٹے 43 منٹ اور 55 سیکنڈ میں طے کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا، جو آج تک قائم ہے۔

پی آئی اے پہلی ایئر لائن تھی جس نے دورانِ پرواز مسافروں کی تفریح کےلیے فلمیں دکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔

عالمی سطح پر پی آئی اے کی انجینئرنگ کی مہارت اور تکنیکی صلاحیتوں کا اعتراف کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 2000 میں بوئنگ، ایئربس اور جنرل الیکٹرک نے اپنے طیاروں کے پرزے پی آئی اے سے تیار کرانے کا آرڈرز دیا۔

2005 میں پی آئی اے (آئی او ایس اے ) (IATA آپریشنل سیفٹی آڈٹ) میں کوالیفائی کرنے والی خطے کی پہلی ایئر لائن تھی۔ لیکن یکم جولائی 2020 میں اسی ایئر لائن پر یورپی فضائی حدود میں پرواز کرنے پر اس لیے پابندی عائد کردی گئی کہ پی آئی آے، قابل اطلاق بین الاقوامی معیارات کے مطابق اپنے آپریٹرز اور طیاروں کی تصدیق اور نگرانی کرنے کے قابل نہیں اور اس کے بیشتر پائلٹس جعلی لائسنز پر بھرتی کئے گئے ہیں۔

1987 تک ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والی پی آئی اے ایسے زوال کا شکار ہوئی کہ ایک جانب اس پر یورپ سفر کرنے پر پابندی لگی تو دوسری جانب مالی خسارہ اس حد تک بڑھ گیا کہ اسے فروخت کرنا ملک و قوم کے سر سے بوجھ اتارنا کہا جانے لگا۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے وزارت عظمیٰ کے منصب کے دوران ایک تاریخی جملہ کہا کہ اگر پی آئی اے کو ایک روپے میں بھی فروخت کردیا جائے تو یہ خسارے کا سودا نہ ہوگا۔

حالیہ رپورٹس اور وفاقی وزرا کی پریس بریفنگ میں جو اعداد و شمار سامنے آئے ان کے مطابق پی آئی اے روزانہ کی بنیاد پر 15 سے 24 کروڑ اور سالانہ 700 ارب روپے سے زائد کے خسارے میں جارہی تھی، شاہد خاقان عباسی کا جملہ اس لیے بھی درست تھا کہ جو ادارہ ایک روپیہ بھی کما نہ سکے اور اسے چلانے کےلیے ملکی خزانے کا سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہو اس کا فروخت ہوجانا ہی بہتر ہے۔

دیر آید درست آید کے مصداق پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ اگر پہلے ہوجاتا تو شاید ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان نہ ہوتا۔ پاکستان کا شمار ان گنے چنے بلکہ اکا دکا ممالک میں ہوتا ہے جو قومی ایئرلائن کو اپنے زیر سرپرستی زبردستی چلا رہا تھا بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ خسارے کے باوجود گھسیٹ رہا تھا۔

دنیا کے بیشتر بلکہ تمام ہی ممالک کی قومی ائیر لائنز ان کے سرمایہ کاروں کے زیر انتظام چل رہی ہیں۔ ہمارے روایتی حریف بھارت نے بھی تھک ہار کر 2023 میں اپنی ایئر انڈیا ٹاٹا گروپ کو 16000 کروڑ میں فروخت کردی تھی، گو کہ اس ایئرلائن کی بنیاد ہی ٹاٹا گروپ نے رکھی تھی اور بعد میں بھارتی حکومت نے اسے سرکاری تحویل میں لے لیا تھا۔ تاہم ٹاٹا گروپ نے ایئر انڈیا خرید کر اسے دنیا کی سب سے بڑی ایئر لائن بنانے کے عزم کا اعادہ کیا اور 470 طیاروں کا آرڈر دے کر واقعی ایک عالمی ریکارڈ قائم کردیا یے۔

پی آئی اے کو خریدنے اور کراچی سے تعلق رکھنے والے عارف حبیب بھی پاکستان کے مایہ ناز بزنس مین ہیں اور اسٹاک ایکسچینج میں انہیں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ ہم ان سے امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر پی آئی اے ایک بار پھر وہی مقام واپس دلائیں گے جو ماضی میں اسے حاصل تھا اور دنیا بھر کے مسافروں کو ’باکمال لوگ لاجواب سروس‘ مہیا کی جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تحریر کردہ
حافظ خرم رشید
مصنف کی آراء اور قارئین کے تبصرے ضروری نہیں کہ ایکسپریس ٹریبیون کے خیالات اور پالیسیوں کی نمائندگی کریں۔

مقبول خبریں