سید تنویر سبطین نقوی … خالق کا برگزیدہ بندہ
منزل بسم اللہ کہتی ہو، رستہ عزت برکت دے
راہِ وفا کے ہمسفروں کو مولا عزت برکت دے
اس شعر کو پڑھتے ہوئے اس بات کا گماں ہوتا ہے کہ یہ کسی عام شخص کا نہیں ہو سکتا بلکہ ایک ایسے شخص کے قلم سے عطا ہوا ہے جو وقت کا ولی اور زمانے کی نظر میں فقیر ہوں۔
میری مراد مخدوم سید تنویر سبطین ؒ شاہ نقوی جو ایک صوفی، درویش منش شخصیت کے حامل تھے۔ اُن کی ساری زندگی مخلوق کی خدمت اور اپنے خالق کے ذکر میں گزری اور کبھی بھی اپنے خالق سے شکوہ نہیں کیا بلکہ فقیر ہوتے ہوئے اپنے خالق کی نعمتوں کا شکر ادا کیا اور کہا کہ ’’ وہ جو میرے لیے ہیں وہ جن کے لیے میں ہوں میرا رب ان کے مسائل پر ان کے وسائل کو غالب رکھے۔‘‘
مخدوم سید تنویر سبطین ؒ کا یہ فرمان ہمیں اپنی فکر چھوڑ کر دوسروں کی فکر کرنے کی تلقین دیتا ہے۔ میں نے ایک دفعہ کسی فقیر سے سوال کیا کہ کیا فقیر مانگنے والے کو کہتے ہیں؟
میرے اس سوال کا جواب کچھ یوں ملا کہ ’’ بیٹا فقیر دنیا سے کیا مانگے گا؟ جس نے خود دنیا کو ٹھکرا دیا ہو، فقیر تو اللہ کو اپنا محبوب سمجھتا ہے اور زندگی بھر اُس کی راہ میں خود کو وقف کر دیتا ہے۔‘‘
میرے سوال کا جواب دینے کے بعد وہ فقیر چلا گیا اور پھر کبھی میرے پاس نہیں آیا مگر اُس کا جواب میرے علم میں اضافہ کرگیا۔ سید تنویر سبطینؒ نقوی ایک بے مثل شاعر تھے انھوں نے اپنے شعری مجموعے کا نام ’’ میں ابھی زندہ ہوں ‘‘ رکھا جس کے انتساب میں کچھ یوں لکھتے ہیں کہ ’’ اُن لطافتوں کے نام جو کثافتوں کا لبادہ اوڑھ کر ظہور پذیر ہوتی ہیں۔‘‘
کتاب کے سرورق کی انفرادیت یہ ہے کہ اسے مصنف کی تصویر سے مزین کیا گیا ہے۔ کتاب میں حمد، نعت، منقبت، مرثیہ، نوحہ، قطعات اور غزلیات پر مشتمل ہیں۔
کتاب کے دیباچے میں ان کے فرزندِ ارجمند گدی نشیں سید انصر سبطین نقوی لکھتے ہیںکہ ’’ ان کی شاعری اور شعری ذوق کے متعلق ادب شناس اور زیرک لوگ ہی بہتر جانیں۔
تاہم میں نے دیکھا کہ وہ شاعری کو داد و ستائش کے بجائے اظہارِ کیفیاتِ باطنی کا ذریعہ قرار دیتے۔ ان کیفیات کے لیے وہ جن الفاظ کا چناؤ کرتے وہ الفاظ ان کی کیفیات کو سینے پر نشانِ حیدر کی طرح سجا کر تمکناتے محسوس ہوتے۔
داد و ستائش سے اجتناب تھا کہ ان کی زندگی میں ان کا کوئی بھی شعری مجموعہ منظرِ عام پر نہ آسکا۔‘‘ وہ فقرو ولایت کو بھی شاعری سے الگ نہ جانتے تھے ان کا ایک خیال ملاحظہ کیجیے:
شاعر بھی ہو ولی بھی نہ ہو، کیسے مان لوں
اقدار کیا بدل گئے دنیائے فن کے لوگ
’’ میں ابھی زندہ ہوں‘‘ کے علاوہ ان کی تصانیف میں ’’ حکومت فقیر دی‘‘ اور فقیری اقوال پر مشتمل تنویر السبطین، ضیا السبطین و دیگر شامل ہیں۔ مجھ خاکسار کے مقدر میں ان کی زیارت نہیں تھی۔
البتہ ان کے چاروں صاحبزادوں میں سید انصر سبطین نقوی، سید علی شہباز نقوی، سید بریر عباس نقوی ، سید نقی مہدی نقوی ہیں۔ سید انصر سبطین نقوی ان کے بڑے صاحبزداے ہیں، جنھیں آپ نے اپنی زندگی میں ہی دستار بندی کرتے ہوئے اپنا گدی نشین منتخب کیا۔
انصر صاحب اپنے والد کی طرح خود بھی ایک فقیر منش آدمی ہے۔ ان کی گفتگو کا لہجہ بہت شیریں ہے، جب کہ ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر سید بریر عباس بہت اچھے شاعر ہیں، جنھوں نے حال ہی میں اسلامو فوبیہ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ان سے اکثر ملاقات اُستادِ مکرم جان کاشمیری کے ہمراہ ہوتی رہتی ہے۔سید تنویر سبطین نقویؒ کا یہ شعری مجموعہ ’’ میں ابھی زندہ ہوں‘‘ میں سارے کا سارا کلام صوفیانہ رنگ پیش کرتا ہے۔
ان کی تصوف پر اتنی گہری نظر تھی کہ آدمی حیران رہ جاتا وہ جب محفل میں لوگوں سے خطاب کرتے تو بعض اوقات اتنی باریک بینی سے سوال کی گریں کھولتے کہ ان پر غور و فکر کرنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔
تجھ کو چاہوں تو ترے پاؤں پہ سجدہ کردوں
خود کو چاہوں تو ترے سامنے پوجا جاؤں
وہ اپنے کلام میں اپنے رب اور اُس کے محبوب سبحانی کی ذاتِ کریمہ کو پکارتے ہوئے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ میں جسم ہوں فانی ہوں گا
میں ترے چہرے کا آئینہ ہوں باقی ہوں گا
مختلف چہرے سجاتا ہوں کہ پہچان نہ ہو
میرے سو روپ ہیں ہر روپ میں مَیں ہی ہوں گا
سید تنویر سبطین نقویؒ 7 نومبر 1949بمطابق ماہِ محرم الحرام 1369 بروز پیر کو عرشِ بریں سے فرشِ خاک پر جلوہ آفریں ہوئے۔ علومِ شرقیہ میں امامت اجداد کا ورثہ اور لسانیات میں کمال ان کے خاندان کا طرئہ ِ امتیاز تھا۔
حکیمانہ طرزِ فکر وتکلّم آباء کا وطیرہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں شعر گوئی کا شرف 9 سال کی عمر میں عطا ہوا۔ آپ پھیپھڑوں کے کینسر کے تشخیص کے باعث 14 دسمبر 2010 بروز منگل بمطابق 7 محرم الحرام کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
یہ بات سچ ہے کہ جب تک کسی بھی شخص کا کلام کسی بھی حالت میں موجود ہے، تب تک وہ شخص اس دنیا میں باقی رہے گا۔
میں ابھی زندہ ہوں سبطین بتا دو ان کو
میرے افکار بھی جینے کی اجازت چاہیں
سید تنویر سبطین نقویؒ ایک محبت پرور، درویش صفت اور اعلیٰ صفات کے مالک تھے۔ جو ہزاروں لوگوں سے پیار کرنیوالوں میں شمعِ محفل کی طرح رہے کیونکہ اللہ کے برگزیدہ بندے کبھی مرا نہیں کرتے۔
آخر میں جان کاشمیری کا غم کے دریا میں ڈوبا ہوا ایک قطع جسے انھوں نے اپنے مرشد اپنے رفیق کی یاد میں ان کی وفا کی خبر سن کر فی البدیہہ کہا تھا۔
سکوتِ حشرکا عالم دل و نظر پر ہے
فراق رُت میں بیاں دل کا حال کس سے کریں
سوال یہ تو نہیں ہے سوال ختم ہوئے
سوال یہ ہے کریں تو سوال کس سے کریں