معاشرے میں پنپتا تشدد کا رجحان

دنیا کی بقا کا ایک بنیادی اصول ہے’’ کچھ لو اور کچھ دو ‘‘ یعنی حقوق اور فرائض



گزشتہ کچھ دہائیوں سے معاشرے میں عدم برداشت غصہ اور پرتشدد رد عمل کا رجحان زور پکڑ رہا ہے، آئے دن ایسی خبریں سننا ہمارا معمول ہے کہ فلاں نے فلاں کو کسی معمولی تنازعے پر قتل کردیا یا محض موبائل نہ دینے پر راہزنوں نے جان لے لی یا میاں بیوی کے جھگڑے پر دونوں میں سے کسی ایک نے دوسرے کو مار دیا یا خودکشی کر لی۔

انتہا تو یہ ہے کہ اب ماں جیسا رشتہ جس کی آغوش سب سے بڑا تحفظ سمجھی جاتی تھی، اب وہ بھی اولاد کو بڑی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں اکثریت اسلام جیسا متوازن اور مکمل دین اپنائے ہوئے ہو، جو دین رحم دلی، صبر، برداشت اور درگزر پر جنت کی وعید دیتا ہو وہ معاشرہ اس قدر متشدد کیوں ہوتا جا رہا ہے؟

دنیا کی بقا کا ایک بنیادی اصول ہے’’ کچھ لو اور کچھ دو ‘‘ یعنی حقوق اور فرائض۔ دین بھی اسی اصول پر بات کرتا ہے کہ آپ سے آپ کے فرائض کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔

اب کسی بھی زاویے سے دیکھ لیں ہر متوازن اور مطمئن معاشرہ اسی اصول پر کاربند ہے اور جب ہی ترقی کر رہا ہے اگر وہاں کی حکومتوں کی بات کی جائے تو ایک جانب وہ عوام کو سہولیات دے رہی ہیں تو دوسری جانب ان سے پورا ٹیکس بھی وصول کر رہی ہیں، ہر جرم پر سزا بھی دے رہی ہیں اور بے گناہوں کو ہرجانہ بھی ادا کر رہی ہیں، وہاں انسان تو انسان جانوروں تک کو پورے حقوق حاصل ہیں۔

جرم اور تشدد وہاں بھی ہے لیکن اس کی شرح بہت کم ہے، اس کے برعکس اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو اوپر سے لے کر نیچے تک ایک بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ ہمیں اپنے حقوق کا تو بہت پتہ ہے لیکن فرائض پورا کرنے کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہے۔

قرآن کہتا ہے ’’ اے ایمان والو ! تم وہ کہتے کیوں ہو، جوکرتے نہیں ہو‘‘ اور حدیث یہ کہتی ہے کہ ’’ جو اپنے لیے پسند کرو، وہی دوسرے کے لیے پسند کرو‘‘ مگر ہمارا تخلیق کیا ہوا دینی نظریہ صرف اسلامی حلیہ بنانے سے شروع ہوکر چار شادیوں پر ختم ہوتا ہے، باقی اسلامی معاشرہ درحقیقت کیا ہوتا ہے؟ اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

اب اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، اس کا جائزہ لیتے ہیں، فرد واحد کا کردار عموماً اس وقت شروع ہوتا ہے، جب وہ بالغ ہوکر اپنی ذمے داریاں اٹھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔

معاشرے کے ساتھ اس کا کردار اسی وقت سامنے آتا ہے، جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے، اب ہم اس نوجوان کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں جو ابھی ابھی اپنی تعلیم مکمل کر کے روزگار کی تلاش میں نکلا ہے۔

یاد رہے یہاں ان بچوں اور جوانوں کا ذکر نہیں ہے، جو بغیرکسی تعلیم کے ڈگری کے بہت کم عمری میں ہی روزی روٹی کے لیے کوئی بھی پیشہ اپنا لیتے ہیں، تو ہمارا یہ پڑھا لکھا جوان جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی ڈگری کے حساب سے تو اس ملک میں نوکریاں ہی نہیں ہیں اور جو ہیں بھی ان کے حصول کے لیے بھی میرٹ سے زیادہ سفارش یا پیسے کی ضرورت ہے۔

بیوروکریسی اور اعلیٰ حکومتی عہدوں پر کام کرنے کا تو سوال ہی نہیں ہے، کیونکہ وہاں تو نسل در نسل ان عہدوں پر بیٹھے خاندانوں کی اجارہ داری ہے اور اگر کہیں بھولے بھٹکے سے میرٹ پرکوئی جوان کوئی عہدہ لے بھی بیٹھے تو ہمارے کرپشن زدہ نظام میں اس کا چلنا بہت مشکل ہے تا وقت یہ کہ وہ بھی اس نظام کو پوری طرح اپنا لے اور سیاہ و سفید کی تمیزکیے، بغیر بس اپنا فائدہ سوچے۔

دوسری طرف ایک عام نوجوان لڑکے یا لڑکی کو جب ہزار جتن کے بعد جاب ملتی ہے تو وہاں بھی کوئی کم دباؤ نہیں ہوتا۔ کسی بھی چھوٹے بڑے ادارے میں بیٹھا ہر وہ شخص جس کے پاس ذرا سا بھی اختیار ہے اپنی من مانی کرنے پر تلا ہے۔ ’’

بڑے عہدے کے ساتھ بڑی ذمے داری آتی ہے‘‘ اس کا تو دور دور تک پتہ نہیں، البتہ بڑے عہدے کے ساتھ گردنوں میں سریا ضرور آجاتا ہے اور شہنشاہ اکبر کی طرح اپنے پسندیدہ درباریوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

عموماً اداروں میں جو لوگ محنتی، فرض شناس اور سب سے بڑھ کر خوف خدا رکھنے والے ہوتے ہیں ان کو ڈرپوک و بے وقوف سمجھ کر سب سے زیادہ کام انھی پر لادا جاتا ہے اور جب تعریف و ترقی دینے کا وقت آتا ہے تو اپنے چہیتوں کو آگے کردیا جاتا ہے۔

صرف یہی نہیں، ان کی کاہلی اور آئے دن کی چھٹیوں پر بھی پردہ ڈالا جاتا ہے، ایسا ظاہرکیا جاتا ہے کہ جیسے وہی سب سے زیادہ ادارے کے لیے کام کر رہے ہیں، یہ ناانصافی جھیلتے مرد یا خواتین جب اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر،گھنٹوں ٹریفک جام ان کے صبرکا الگ امتحان لیتا ہے۔ 

ذرا سی بارش اگر ہوجائے تو گھنٹوں کا ٹریفک جام مزید اذیت ناک ہو جاتا ہے یہ پل صراط روز پار کر کے جب یہ سب اپنے گھروں کو پہنچتے ہیں تو وہاں پانی، بجلی، گیس ندارد ہوتی ہے اب اگر روزمرہ کے کام نپٹانے ہیں تو ٹینکر مافیا، پھر ایل پی جی مافیا سے گیس پانی کا انتظام کرو اور لاکھوں کا سولر سسٹم لگوا کر بجلی لے کر آؤ مگر حکومت کو پورے ٹیکسز دیتے رہو تاکہ ان کی عیاشیاں چلتی رہیں۔

اب ان سارے مسائل سے نبرد آزما شخص فریاد لے کر جائے بھی تو کہاں جائے مملکت خداداد کا حال سب کے ہی سامنے ہے تو نتیجتاً یہ غصہ، یہ بے بسی یہ پریشانی کا لاوہ جو اندر ہی اندر پکتا رہتا ہے وہ پھر کہیں بھی کسی بھی معمولی بات پر پھٹ پڑتا ہے اور عموما خود سے کمزور شخص پر ہی پھٹتا ہے۔

پھر چاہے شوہر بیوی پہ تشدد کرے، چاہے سڑک پہ لوگ ایک دوسرے کا سر پھاڑ دیں، چاہے بچوں کو قتل کر دیں بے روزگاری اور غربت سے تنگ آ کر اپنے ہی خاندان کو دو پیسے کمانے کے لیے کسی کے بھی حوالے کر دیں کچھ بھی بعید نہیں۔

اس پوری بحث کا لب لباب یہی ہے کہ معاشرہ فرد سے مل کر تشکیل پاتا ہے اور جب معاشرے میں ہر فرد بنیادی سہولیات سے محروم ہو، قابلیت کے بجائے سفارش چلتی ہو، زندگی سکون کے بجائے صرف ایک جہد مسلسل ہو تو انسان پھر وہی لوٹائے گا جو اس کو مل رہا ہے ایک ایسا شخص جو مسلسل ناانصافی، محرومی اور دباؤ جھیل رہا ہے اس انسان سے یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ سکون اور انصاف کا بول بالا کرے۔

کلی طور پر نہیں تو کم از کم 80 فیصد یہ ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ ملک میں انصاف اور بنیادی سہولتوں کا موجود ہونا یقینی بنائیں ساتھ ساتھ بے روزگار لوگوں کے لیے کوئی ماہانہ وظیفہ مقرر کریں تاکہ وہ غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنی اولاد یا اپنے گھر والوں کو قتل نہ کریں اگر حسب روایت حکومت کے کانوں پہ جوں نہ رینگی تو بہت جلد یہ متشدد رویہ خانہ جنگی کی وہی صورتحال پیش کرے گا جو ابھی ہم سوڈان میں دیکھ رہے ہیں اور اس سے پہلے کئی ممالک میں دیکھ چکے ہیں اور یقینا اس کا نتیجہ صرف اور صرف مکمل تباہی اور بربادی ہے۔

مقبول خبریں