کراچی بڑی تباہی سے بچ گیا؛ کمسن لڑکی کو بی ایل اے کے خودکش منصوبے سے بچالیاگیا
2013 میں 800خواتین نے حالات سے تنگ آکر خودکشی کی جبکہ869 کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ انسانی حقوق کی رپورٹ ۔ فوٹو: فائل
کمسن لڑکی کو بی ایل اے دہشت گردوں کے خودکش منصوبے سے بچا لیا گیا جب کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کم عمر بلوچ بچیوں کو خودکش حملہ آور بنانے کے انسانیت سوز اور گھناؤنے فعل میں بھی ملوث ہے۔
وزیرداخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے تہلکہ خیز پریس کانفرنس کی، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی آزاد خان، ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو پریس کانفرنس میں موجود تھے۔
پریس کانفرنس میں خودکش حملہ آور بنانے کا ٹارگٹ بنائی گئی بلوچ بچی اور والدہ کی گفتگو بھی شناخت مخفی رکھ کر میڈیا کے سامنے جاری کردی گئی۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشتگردوں کے مکروہ عزائم کیسےناکام بنائے، ہوشربا تفصیلات سامنے آگئیں۔
وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے کہا کہ یہ میرے پیچھے جو بچی دیکھ رہے ہیں یہ بلوچستان سے ہیں، ان کی مختلف لوگوں زہن سازی کی اور ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا، بچی ایک عام سے اسکول میں زیر تعلیم ہے، بچی کے والد کا انتقال ہوچکا ہے، اج بھی پوری فیملی حکومت پاکستان سے پینشن لے رہی ہے، بچی کا ایک بھائی پولیس اور ایک سول ادارے میں ہے۔
وزیر داخلہ سندھ نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت اور مؤثر کارروائی سے کراچی ایک بڑی تباہی سے محفوظ رہا، دہشت گردوں کا نیا نشانہ ہمارے بچے ہیں، اور سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، متاثرہ بچی کی شناخت مکمل طور پر خفیہ رکھی جا رہی ہے، ریاست اس کی عزت، تحفظ اور مستقبل کی ضامن ہے۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ نے کہا کہ کالعدم دہشت گرد نیٹ ورک کی سنگین سازش ناکام بنا دی گئی، کم عمر بلوچ بچی کو خودکش حملہ آور کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، 25 دسمبر کی شب ایک انتہائی حساس انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران کم عمر بچی کو بحفاظت تحویل میں لیا گیا۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ نے کہا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور انتہا پسند مواد کے ذریعے معصوم ذہن کو بتدریج زہر آلود کیا گیا، بچی والدہ سے چھپ کر موبائل استعمال کرتی رہی، دہشت گرد ہینڈلرز نے اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ پاکستان مخالف اور غیر ملکی پشت پناہی یافتہ مواد کے ذریعے ذہن سازی کی گئی، ایک ہینڈلر نے ہمدردی اور مدد کے بہانے رابطہ کیا اور بعد ازاں خودکش حملے پر اکسانا شروع کیا، بچی کو کراچی بھیجا گیا، گھر والوں کو جھوٹ بول کر روانگی اختیار کی گئی، پولیس ناکوں پر چیکنگ کے باعث ہینڈلر مطلوبہ مقام تک نہ پہنچ سکا اور سازش بے نقاب ہو گئی۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ کے مطابق ڈی بریفنگ کے دوران بچی نے نیٹ ورک اور طریقہ واردات کی مکمل تفصیلات فراہم کیں، کم عمری کے باعث خاندان کو فوری طور پر طلب کیا گیا، والدہ اور بہن بھائی کراچی پہنچے، بچی کو مکمل تحفظ اور عزت کے ساتھ خاندان کے حوالے کیا گیا، تفتیش کا عمل جاری ہے۔
متاثرہ بچی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد سامنے آیا، پھر وہی مواد بار بار دکھایا جانے لگا، رابطہ بڑھا، لنکس اور تقاریر بھیجی گئیں، اور آہستہ آہستہ وہی سب کچھ سچ لگنے لگا، جب رابطہ کار کو معلوم ہوا کہ میرے والد نہیں ہیں تو اس نے ہمدردی کے نام پر مجھے مزید پھنسایا، واٹس ایپ گروپس میں BLA کی کارروائیوں کو بہادری بنا کر پیش کیا گیا، جو سراسر دھوکا تھا۔
متاثرہ بچی نے کہا کہ میری پڑھائی متاثر ہونے لگی اور ذہن میں یہ بات ڈالی گئی کہ جان دینا ہی سب سے بڑا مقصد ہے، میں نے گھر سے نکلنے کے لیے بہانہ بنایا، آج سمجھ آیا کہ میں کس تباہی کی طرف جا رہی تھی، ناکے پر پوچھ گچھ ہوئی تو میں شدید گھبرا گئی، میں بلوچ ہوں، ہماری روایات عورت کی عزت سکھاتی ہیں، عورتوں اور بچیوں کو قربان کرنا بلوچیت نہیں۔
بچی کی والدہ نے کہا کہ عوامی مفاد میں ہم نے بیان دینے کا فیصلہ کیا تاکہ کوئی اور بچی اس جال میں نہ پھنسے، ریاست نے ماں کی طرح میری بچی کی جان بھی بچائی اور اس کی عزت بھی مکمل طور پر محفوظ رکھی۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نفرت اور دہشت گرد مواد کے خلاف سخت چیکس لگائیں، اکاؤنٹس بند کریں اور الگورتھمز درست کریں، زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت سہولت کاروں اور نیٹ ورکس کو قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا، والدین بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں، ایک موبائل پورے خاندان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ کے مطابق سی ٹی آپریشنز بلا تعطل جاری رہیں گے، دہشت گردی کے خلاف ریاستی عزم غیر متزلزل ہے۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی آزاد خان نے کہا کہ اس بچی کا بلوچستان سے تعلق ہے اور عام سے اسکول میں زیر تعلیم ہے، یہ بچی بھی عام بچوں کی طرح موبائل استعمال کرتی ہے،بچی سے بی ایل اے کے ہیلڈر نے رابطہ کیا اور ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا گیا، اس کو یہ کہا گیا کہ آپ سے ایک بڑا کام لینا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بچی کو ایک خاتون نے وہاں سے لیا اور پھر اس کی مزید زہن سازی کی گئی، چیکنگ کے دوران بچی ہمیں ملی پھر جب اس کو تھانے لے جایا گیا تو بچی سے تمام چیزیں بتائیں، اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ بچی پر کوئی کریمنل کیس نہیں بنایا جائے، اس لیے بچی کی شناخت بھی ظاہر نہیں کی جارہی ہے۔