بے ہنگم پاکستانی ٹریفک: ایک المیہ
(فوٹو : فائل)
پاکستان کا ٹریفک نظام ہماری اجتماعی اخلاقیات اور معاشرتی نظم و ضبط کا آئینہ دار ہے۔ بدقسمتی سے، یہ آئینہ ہمارے سامنے ایک انتہائی پریشان کن اور المناک تصویر پیش کرتا ہے۔
ہمارے ہاں ٹریفک کا نظام نہ صرف انفرادی بے حسی اور لاپرواہی کا شکار ہے بلکہ اس میں منظم بدانتظامی اور قانون کی پاسداری کا شدید فقدان بھی واضح نظر آتا ہے۔
وطن عزیز میں ٹریفک قوانین کے جو آرڈیننس موجود ہیں ان میں سے قومی وہیکل آرڈیننس 2000، موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 اور موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 شامل ہیں۔ یہ آرڈیننس ملک میں ٹریفک کا نظام منظم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، ان میں موجود اکثر و بیشتر قوانین کو لاگو ہی نہیں کیا جاتا اور یہ صرف ان آرڈیننس کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
وطن عزیز کو آج ٹریفک مینجمنٹ جیسے بڑے مسئلے کا سامنا ہے جو بڑے شہروں میں رہنے والوں کو مسلسل پریشان کر رہا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کےلیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔
حکومتی اداروں کا خیال ہے کہ ای چالان اور بھاری جرمانوں کی بدولت شہریوں کو ٹریفک کے جان لیوا حادثات سے بچایا جاسکتا ہے جبکہ عوام حکومتی اداروں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ پہلے شہری انفرااسٹرکچر اس قابل بنایا جائے جس میں شہری اپنی منزل مقصود تک سکون اور کم وقت میں جاسکیں۔ خراب روڈ انفرااسٹرکچر صرف حاد ثات کا باعث نہیں بلکہ ملکی ترقی میں بھی بڑی رکاوٹ ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق تقریباً 15 فیصد اضافی ایندھن کراچی کے شہری ہر روز خراب سڑکوں کی وجہ سے استعمال کرتے ہیں، جس کی مالیت سالانہ اربوں روپے میں بنتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ تین سال کے دوران غربت کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ عالمی بینک کی حالیہ جاری رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024-25 میں غربت کی شرح 25.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ ایک ایسا ملک جہاں عوام دو وقت کی روٹی کےلیے پریشان ہوں وہاں بھاری جرمانے عائد کرنا غیر منصفانہ اور ناقابلِ برداشت ہے۔
اس بحران کے کئی گہرے اور پیچیدہ اسباب ہیں:
1. قوانین کی خلاف ورزی: سگنل توڑنا، غلط سائیڈ پر گاڑی چلانا، اوور ٹیکنگ، اور ہیلمٹ یا سیٹ بیلٹ کا استعمال نہ کرنا ایک عام بات ہے۔
2. لائسنس کا غیر معیاری نظام: ناقص ٹیسٹنگ کے باعث نااہل ڈرائیور بھی لائسنس حاصل کرلیتے ہیں، جو حادثات کا باعث بنتے ہیں۔
3. گاڑیوں کی ناقص حالت: بہت سی گاڑیاں، خاص طور پر پبلک ٹرانسپورٹ، مکینیکل طور پر ناقص ہوتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال نہیں ہوتی۔
4. ٹریفک قوانین کا نفاذ نہ ہونا: متعلقہ اداروں کی جانب سے سخت اور مسلسل نفاذ کی عدم موجودگی میں لوگ قوانین کو توڑنے پر جراتمند ہوتے ہیں۔
5. عوامی بے حسی: دوسرے شہریوں کے حقوق کا خیال نہ رکھنا اور صرف اپنی ذات تک محدود رہنا بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے۔
اس بے ہنگم ٹریفک کے نتائج انتہائی بھیانک اور دلدوز ہیں:
·1 جانی نقصان: روزانہ سیکڑوں حادثات میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ بے شمار خاندان اپنے چہیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
·2 معاشی نقصان: حادثات میں گاڑیوں کو پہنچنے والا نقصان، علاج کے اخراجات، اور پیداواری وقت کا ضیاع ملکی معیشت پر بوجھ ہے۔
·3 ذہنی دباؤ اور وقت کا ضیاع: (ٹریفک جام) میں گھنٹوں گزارنا نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ یہ شہریوں کے لیے ذہنی پریشانی اور تناو کا باعث بھی بنتا ہے۔
·4 شہری خوبصورتی کا فقدان: بے ترتیب اور گندی گاڑیوں، ہارن کے شور اور فضائی آلودگی سے شہر کی خوبصورتی متاثر ہوتی ہے۔
اس المیے سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے:
1. شہری ذمے داری: ہر شہری کو ٹریفک قوانین کی پابندی کو اپنی ذمے داری سمجھنا ہوگا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں جیسے ہیلمٹ پہننا، سیٹ بیلٹ باندھنا اور لائن میں چلنے کا عادی ہونا بہت فرق ڈال سکتا ہے۔
2. موثر نفاذِ قانون: ٹریفک پولیس کو جدید ٹیکنالوجی جیسے کیمرے اور اسمارٹ چیک پوسٹس کے ذریعے قوانین کا مؤثر طریقے سے نفاذ کرنا چاہیے۔ رشوت خوری کا خاتمہ نہایت ضروری ہے۔
3. عوامی آگاہی: میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے عوام میں ٹریفک قوانین کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے۔ اسے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
4. پبلک ٹرانسپورٹ میں اصلاحات: پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیورز کے لیے باقاعدہ تربیتی پروگرام ہوں اور گاڑیوں کی معیار کے مطابق باقاعدہ جانچ پڑتال ہو۔
5. بہتر انفرااسٹرکچر: شہروں میں جدید اور وسیع سڑکوں، فلائی اوورز، اور زیر زمین ریلوے یعنی میٹرو کی تعمیر سے ٹریفک کے بہاؤ کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کا ٹریفک درحقیقت ہماری اجتماعی اخلاقیات کا امتحان ہے۔ یہ محض گاڑیوں کے آمدورفت کا نظام نہیں بلکہ ہماری نظم و ضبط، قانون پرستی اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرنے کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔ اس بحران پر قابو پانا کوئی ناممکن کام نہیں، لیکن اس کے لیے عزم، دیانتداری اور مسلسل کوشش درکار ہے۔ جب ہم ٹریفک کے چھوٹے قوانین کو ماننا سیکھ لیں گے تو تبھی ہم بڑے معاشرتی اور قومی مسائل کو حل کر سکیں گے۔ ایک پرسکون اور محفوظ ٹریفک نظام ہی ایک ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے کی پہچان ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔