تبدیلی کے لیے عورتوں کی جدوجہد

مہ ناز رحمن  منگل 26 اگست 2014

سماجی تبدیلی کے لیے عورتوں کی جدوجہد بنیادی طور پر وسائل،علم اور اختیارات کی طبقاتی جنگ ہے۔اس وقت عالمی آمدنی کا 38فی صد حصہ دنیا کے 2 فی صد امیر ترین افراد کے پاس ہے،جب کہ دنیا کے بیس فیصد غریب افرادکے حصے میں عالمی آمدنی کا صرف ایک فی صد حصہ آتا ہے۔سوویت یونین کے انہدام اور چین کی پالیسیوں میں تبدیلی کے بعدنسائی ثقافتی سیاست کی توجہ اب صنف GENDER,، نسل، جنسیت اور طبقے پر تو ہے لیکن اب وہ عورتوں پر ہونے والے مظا لم کے خلاف ہونے والی لڑائی کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ سے جوڑ نہیں پا رہیں۔

ہم ان مادی حقائق کو جھٹلا نہیں سکتے جو صنفGENDER,،نسل، جنسیت اور طبقے کا تعلق محنت سے جوڑتے ہیں۔مسئلہ وہی پرانا ہے کہ عورت کی محنت کو تسلیم نہیں کیا جاتا،عورت بچوں کی پرورش کرتی ہے، بیماروں اور ضعیفوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور گھر سے باہر کم اجرت پر کام بھی کرتی ہے اور یوں خود غریب رہ کر سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچاتی ہے،سماجی طور پر ضروری محنت عورت ہی کرتی ہے مگر اس کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ بلا معاوضہ ہوتی ہے۔

اس بات کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ صنف اور نسل سے قطع نظر غربت سرمایہ داری نظام کا لازمی حصہ ہے۔اور بچے اور مرد بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی استحصال پر رکھی گئی ہے۔سرمایہ دارصرف محنت کش کی ہی نہیں بلکہ کسانوں اور کسی حد تک چھوٹے دکانداروں اورخود مختار کاروباری افراد کی کمائی بھی کھاتے ہیں۔اس نظام میں لوگوں کے چند گروہ ہمیشہ مظالم اور زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔مظلوم طبقات کے خلاف سماجی، اقتصادی اور سیاسی امتیاز روا رکھا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر عورتوں اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والا سلوک۔یہی نہیں بلکہ سرمایہ دار عسکریت پسندی اور جنگوں سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔چاہے کتنے لوگوں کی جان چلی جائے، سرمایہ دار اپنے منافعے سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر مغربی سرمایہ داری جمہوریتوں کی دانشورانہ اور علمی ثقافت کے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو حالیہ وقتوں میں فیمنزم اور پوسٹ ماڈرن ازم دو طاقت ور تحریکوں کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔

ان کے برعکس مارکسی فیمنسٹس عورتوں پر مظالم اور سرمایہ داری کے درمیان رشتوں کوسامنے لاتی ہیں۔وہ سماجی قلب ماھیت کی سیاست میں یقین رکھتی ہیں جو آخر کار طبقات کا خاتمہ کرے گی۔ان کی رائے میں عورتوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے خاتمے کے لیے سرمایہ داری کی مخالفت ضروری ہے۔مغربی فیمنزم کے بر خلاف مارکسی اور سوشلسٹ فیمنزم سرمایہ داری کے خاتمے کو اپنا طویل المعیاد مقصد اور سماجی انصاف کی جنگ کا اہم حصہ قرار دیتی ہیں۔

فیمنزم کی سیاست کے بارے میں قدامت پرستانہ خیالات کے ساتھ مغربی عالمگیری سرمایہ داری پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔ اسلام جمہوریت پسند ہے اور سامراجیت کا مخالف ہے۔بعض اسکالر عورتوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اجماع کی پریکٹس کو از سر نو متعارف کرایا جائے۔گزشتہ دنوں عرب اسپرنگ کا بہت شہرہ رہا، مشہور اسکالر فاطمہ مرنیسی کا کہنا ہے کہ عورتوں کو مکمل حقوق دیے بغیرعرب اسپرنگ بے کار ہے۔

بائیں بازو کے نظریات میں یقین رکھنے والی عورتوں کی تنظیمیںعورت کے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے اینگلز کی تعلیمات کی پیروی کرتی ہیںجس کا کہنا تھا کہ نجی ملکیت کی بنیاد پر قائم ہونے والے اقتصادی نظام کی پہلی اینٹ عوررت کی محکومی کی شکل میں رکھی جاتی ہے۔ان عورتوں کا خیال ہے کہ نجی ملکیت کے ادارے کو ختم کر کے اور دنیا بھر میں ایک اشتراکی معاشرہ قائم کر کے ہی مرد کی بالا دستی اور عورت پر ہونے والے ظلم کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

اس وقت دنیا کی اکثریت سرمایہ داری کے پیدا کردہ بحران میں گھری ہوئی ہے۔سرمایہ داری نظام کی انحطاط پذیر فطرت کی بدولت خود سرمایہ دار ممالک بھی اس بحران سے بچ نہیںسکتے۔تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اورسرمایہ دار محنت کشوں کی پشت پر سوار ہو کے ان بحرانوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کوششوں کا سب سے برا اثر عورتوں پر پڑتا ہے۔امریکا اور دیگر سماجی ممالک کی نیو لبرلسٹ پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں عورتوں کی اجرتیں کم ہوئی ہیں۔

1868ء میں کارل مارکس نے کہا تھا کہ جو کوئی تاریخ کے بارے میں ذرا سا بھی علم رکھتا ہے اسے معلوم ہے کہ عورتوں کی پر جوش شراکت کے بغیر کوئی بڑا سماجی انقلاب نہیں آ سکتا ۔ مارکس کا کہنا تھا کہ سماجی ترقی کا اندازہ عورتوں کے سماجی مقام سے لگایا جا سکتا ہے ۔ عورتوں کو اپنے حقوق کی لڑائی کو محنت کش طبقے کی بڑی جدوجہد کے ساتھ جوڑنا چاہیے۔

سرمایہ دارانہ نظام اپنی موجودہ شکل میں جس طرح عورتوں کے حقوق کی تحریک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اس کے خلاف سب سے زور دار احتجاج نینسی فریزر نے کیا ہے،وہ ایک فیمنسٹ مفکر ہیں،وہ اس فیمنسٹ مکتب کا حصہ ہیںجو انصاف کے تصور کے بارے میں زیادہ فکر مند رہتی ہیں، خاص طور پر وسائل کی تقسیم، مختلف گروہوں کی محنت کو تسلیم کرنا،اور (لسانی)نمایندگی۔ان کی رائے میں مارکسی نظریے کا تعلق وسائل کی تقسیم سے ہے۔

انھوں نے مارکس کی سرمایہ کی تعریف کو از سر نو یوں دریافت کیا ہے:یہ ایک سماجی تعلق ہے ذرایع پیداوار رکھنے والوں اور ان لوگوں کے درمیان جو صرف اپنی محنت کی صلاحیت کو بیچ کے ان ذرایع پیداوار تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ نینسی فلسفے اور سیاسیات کی پروفیسر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ غربت اور عالمگیریت کے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے صنفی مساوات کے فروغ کی بین الا قوامی کوششیں کی جارہی ہیں۔

نسائی حقوق کی تحریک عورتوں کے مقام کو تسلیم کرانے کی کوشش میںکچھ نا مطلوب نتائج بھی حاصل کرچکی ہے، فلاحی ریاست پران کی تنقید نیو لبرل ازم کے حق میں گئی یعنی اس نظام کے حق میں جو غریبوں کو غریب تر کر رہا ہے، اور اب نینسی فریزر نے سوال اٹھایا ہے کہ فیمنسٹس اپنی تحریک کے انقلابی وعدے کو دوبارہ کیسے حاصل کر سکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب صرف عورتوں پر نہیں بلکہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو غریبوں کا خون چوسنے والے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے۔

ملائیشیا کے ڈاکٹر حسنین کی رائے میں نسائی حقوق کی تحریک ایک سماجی(سیاسی)تحریک ہے جب کہ مارکسزم ایک اقتصادی اورسماجی نظام ہے جس کا مقصد بہتر سماجی زندگی کا حصول ہے ۔نسائی حقوق کی تحریک زیادہ توجہ عورتوں اور ان کے حقوق اور ان کی تکالیف پر دیتی ہے اوریہ دعویٰ کرتی ہے کہ دنیا، معاشرے اور ہر متعلقہ مسئلہ جیسے اختیار،کاروبار، شادی وغیرہ کی بنیاد پدرسری ہے۔

یہ پدر سری دنیا مرد کی خوشی اور فائدے کے لیے بنائی گئی ہے جس میں عورتوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں ہیں۔مارکسیت کو معاشرے کے اقتصادی نظام کی فکر رہتی ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ بالائی طبقات اپنے اقتدار اور فوائد کے لیے متوسط اور نچلے طبقات کا استحصال کرتے ہیں۔مارکسیت کا خیال ہے کہ محنت کش طبقہ انقلاب لا کے لا طبقاتی معاشرہ قائم کرے گا جو اشتراکیت ہو گی۔

سوویت یونین اور چین کے انقلابات کے بعد بھی لاطبقاتی معاشرہ قائم نہ ہو سکااور آج دنیا پر نیو لبرل ازم کی حکمرانی ہے جو سرمایہ داری کی نئی اور زیادہ بری شکل ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ دنیا ایک بڑے اقتصادی بحران کا بھی شکار ہے اورآج پھر ہمیں انقلابی تبدیلیوں اور عوام دوست اصلاحات کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔