مسلح افواج کو اگرملک بچانے کیلئے کڑوے اورناپسندیدہ اقدامات بھی لینے پڑیں تو لے لیں الطاف حسین
مسلح افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اورپاک فوج کا کیا قصور ہے جو ان کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کی گئی،قائد ایم کیو ایم فوٹو: فائل
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہاہے کہ حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کے فلور پر مسلح افواج کی ساکھ مجروح کی گئی ہے جب کہ مسلح افواج کو چاہیے کہ وہ آئین میں رہتے ہوئے اپنی رٹ بحال کرے اور اگر ملک بچانے کے لئے اسے کڑوے اور ناپسندیدہ اقدامات بھی لینے پڑیں تولے لیں کیونکہ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے اور ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے ۔
الطاف حسین نے کہاکہ پاکستان کا ہرذی شعور اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ ملک گزشتہ کئی روز سے انتہائی نازک ترین صورتحال سے دوچار ہے، فکرمند اورپریشان ہے اور دعا گوبھی ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ملک کو قائم ودائم رکھے ۔ انہوں نے کہاکہ 1971میں پاکستان میں مارشل لا کی حکومت تھی اور بدقسمتی سے مغربی پاکستان سے جیتنے والی جماعت کے لیڈروں نے سابقہ مشرقی پاکستان کی جماعت کو حاصل عوامی مینڈیٹ تسلیم نہ کرتے ہوئے یہ کہاکہ ''اُدھر تم ، ادھرہم '' یعنی آپ وہاں حکومت کریں اور ہم یہاں حکومت کریں، یہ رویہ اتنا آگے بڑھا کہ ملک ہی تقسیم ہوگیا اور یہاں کی حکومت کی بات آئی اور نہ وہاں کی ۔ ملک میں جاگیرداروں ، وڈیروں ، سرمایہ داروں اور فوجی جرنیلوں کے مشترکہ مفادات کے تحت اقتدار آتے جاتے رہے لیکن اس کے نتائج سے کسی نے بھی سبق نہیں سیکھاکہ اقتدار کے اس کھیل میں ملک کی معاشی صوتحال کتنی آگے بڑھی، ملک میں کیاکیا ترقیاتی کام ہوئے اور عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کتنے اسکول، کالج اوراسپتال قائم کیے گئے ۔
موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے رہنماؤں سے ملاقات کاتذکرہ کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہاکہ اس ملاقات کے حوالے سے آج قومی اسمبلی کے فلور پر تردید کی گئی کہ یہ ملاقات حکومت کی ایما پر نہیں بلکہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی درخواست پر کی گئی، ڈاکٹرطاہرالقادری اور عمران خان نے حکومتی مؤقف کوجھوٹ قراردیا جس سے عوام میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ کون سچ بول رہا ہے، لیکن چند گھنٹوں بعد آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز جاری کرکے یہ ابہام دورکردیا کہ حکومت کی جانب سے مسلح افواج کے سربراہ کو کہاگیا تھا کہ وہ مصالحانہ کردارادا کریں، حکومت نے سار االزام دونوں جماعتوں پر ڈال کر فوج کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے اور اگر وزیراعظم کی جگہ میں ہوتا تو آئی ایس پی آر کے بیان کے بعد رضاکارانہ طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتا۔
الطاف حسین نے کہاکہ مسلح افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اورپاک فوج کا کیا قصور ہے جو ان کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کی گئی، مسلح افواج سرحدوں کا دفاع کررہی ہے ، شمالی وزیرستان میں تاریخ کی بدترین جنگ لڑرہی ہے اور قدرتی آفات سے بھی نمٹ رہی ہے ۔ ان حالات میں بھارت کی جانب سے سرحدوں پر اشتعال انگیزی کی جارہی ہے اور سیالکوٹ سیکٹر میں حملے کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں فوجی مارشل لا اور اسٹیبلشمنٹ کے سخت خلاف تھا اور ہوں ، حق پرستی کی جدوجہد کے دوران میں نے ہرقسم کے مظالم کا سامنا کیا لیکن اپنے ظرف وضمیر، مشن ومقصد اور اپنے شہیدوں کے لہوکا سودا نہیں کیا،ایم کیوایم ایک جمہوریت پسند جماعت ہے، میں مارشل لا کا سب سے بڑامخالف ہوں ، میں سمجھتا ہوں کہ ملک وقوم کودرپیش موجودہ سیاسی بحران میں مسلح افواج کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے پاکستان کی بقاء وسلامتی اور عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے اپناکردار ادا کرے ۔
ایم کیوایم کے قائد نے آئینی وقانونی ماہرین کو چیلنج دیتے ہوئے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 6 کا اطلاق غیرجمہوری طریقہ سے کیاجارہا ہے ، اس آرٹیکل کے تحت سابق صدرجنرل(ر) پرویزمشرف پر مقدمہ چلایاجارہا ہے جبکہ وہ ہوائی جہاز میں سفرکررہے تھے اور جنہوں نے زمین پر ایکشن کیا وہ آرٹیکل 6 کی شقوں سے محفوظ بنادیئے گئے ہیں۔