حادثہ ایک دم نہیں ہوتا (آخری حصہ)

رئیس فاطمہ  جمعرات 4 ستمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

انسانوں کی زندگی میں رونما ہونے والے حادثے اور سانحے امربیل کی طرح ہوتے ہیں ۔ اگر وقت پر اس کا تدارک نہ کیا جائے تو انسان سے غلطیوں پہ غلطیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ زندگی ریت کی طرح مٹھی میں سے نکلتی چلی جاتی ہے ۔ اور جب مٹھی کے خالی ہونے کا پتا چلتا ہے ۔

اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ ہماری اپنی غلطیوں کی ریت نہ جانے کہاں کہاں بکھر جاتی ہے ۔ گزشتہ کالم میں 21 اگست کو رونما ہونے والے بھیانک سانحے کی پرورش کی بنیاد اسی دن پڑگئی تھی ۔ جب میری محسن اور دوست زینب (فرضی نام) کی زندگی کو بھی اسی احساس برتری نے گہنا دیا، جس کی اسیر اس کی والدہ بھی تھیں ۔ زینب کی والدہ دہلی کے ایک معزز اور تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ انھوں نے دہلی کے ایک کانونٹ میں تعلیم پائی تھی، لیکن والدین نے محض نسبی شرافت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا رشتہ ایک ہیڈکلرک سے کردیا، جو برٹش انڈیا کے دفتر میں سرکاری ملازم تھے ۔

زینب کی والدہ اور والد شکل و صورت اور خاندانی نجابت میں تو کسی طرح بھی ایک دوسرے سے کم نہ تھے ۔ لیکن دونوں میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو سکی ۔ والد احساس کمتری کا شکار اور والدہ کبر و نخوت کا پیکر ۔ نتیجہ؟ تین بچوں کے بعد دونوں میں طلاق ہوگئی ۔ زینب نے باپ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی ۔ چھوٹی بیٹی اور بیٹا ماں کے چہیتے تھے اس لیے وہ لے گئیں ۔ ماں نے پھر کبھی پلٹ کر زینب کی خبر نہ لی کیونکہ اس کی نظر میں ماں کا فیصلہ غلط تھا ۔ چھوٹی بہن کی شادی ایک پی۔ایچ۔ڈی ڈاکٹر سے ہوئی اور وہ کینیڈا چلی گئی (آج بھی وہیں ہیں) بھائی بھی پاکستان سے باہر چلے گئے ۔ آبائی مکان بھائی کے نام تھا جس کی پاور آف اٹارنی بھائی کے بچوں کے نام ہی ہے ۔ جب کہ اس کی پوری قیمت زینب کے شوہر اپنی زندگی میں ہی ادا کرچکے تھے ۔ لیکن مکان نہ ان کے نام ہوا، نہ زینب کے نہ ہی بچیوں کے ۔

زینب ایک پرکشش اور خوبصورت لڑکی تھی، لیکن ماں باپ کے جھگڑوں نے اس کی شخصیت کو مسخ کردیا تھا ۔ بمشکل کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کی اجازت دی تھی ۔ وہ برقعے میں یونیورسٹی جاتی تھی ۔ اس دوران اس کے لیے دو رشتے ایک کلاس فیلو کے ذریعے آئے ۔ کیونکہ زینب کے لیے دیے رہنے والے محتاط رویے کی وجہ سے کسی لڑکے کی ہمت نہ تھی کہ اس سے دل کی بات کرلے ۔ بس یہاں زینب سے تقدیر نے ایک غلطی کروا دی ۔

وہ ڈر گئی اور اپنی سہیلی کو بالکل منع کردیا کہ یہ بات یہیں ختم کردو ورنہ اس کے جلاد ابا میاں اس کی کھال تو ادھیڑیں گے ہی گھر بھی بٹھا لیں گے ۔ اس لڑکے نے دوبارہ والدین کے ذریعے بات کی ۔ مگر زینب خوفزدہ ہوکر گھر بیٹھ گئی ۔ زینب ان عورتوں میں سے نہیں تھی جو شوہر کو سب سے پہلے اس کے والدین سے جدا کرتی ہیں ۔اور پھر یوں ہوا کہ باپ نے کسی جگہ رشتے کے لیے ہاں کردی ۔ وہ چپ چاپ دلہن بن گئی ۔ لیکن وہ جیتے جی مرگئی ۔ جب اس پر یہ انکشاف ہوا کہ باپ نے شاید بیوی کی زیادتیوں کا بدلہ بیٹی سے لیا ہے ۔ بڑی لمبی کہانی ہے ۔

لیکن اسے مختصر کرتے ہوئے یہ بتانا چاہوں گی کہ ایک بند گھر میں زینب کی بیٹیاں کیوں اور کس طرح رہنے پہ مجبور ہوئیں ۔ زینب کے شوہر نے بیوی کی خوشنودی کی خاطر پرائیویٹ گریجویشن بھی کرلیا۔ پہلی بیٹی کی پیدائش تک وہ زینب کے ساتھ رہے ۔ انھوں نے اسی مذکورہ گھر کو سسر سے خرید کر اس میں ایک مونٹیسوری اسکول کھلوا دیا ۔ جسے زینب نے اپنی قابلیت، محنت اور اپنی وفادار ٹیچرز کے تعاون سے پانچویں جماعت تک بڑھا لیا اور فیس کم رکھی ۔ پھر آٹھ سال بعد دوسری بیٹی پیدا ہوئی تو میاں گھر چھوڑ کر اپنے بھائیوں کے پاس چلے گئے کیونکہ وہ بیٹے کی تمنا کر رہے تھے ۔

سوچ وہی دقیانوسی ۔ لہٰذا اب وہ کبھی کبھار ہی کراچی آتے ۔ بڑی بیٹی اپنی سالگرہ کا کیک کاٹنے کے لیے باپ کا انتظار کرتے کرتے تھک جاتی اور روتی ہوئی کمرے میں جاکر بند ہوجاتی ۔ زینب بے چاری مہمانوں کی تواضح بھی کرتی جاتی اور روتی بھی جاتی ۔ اسی طرح چھوٹی بیٹی کے ساتھ ہوتا ۔ لیکن وہ خود باپ سے خفا رہنے لگی تھی کیونکہ وہ جان گئی تھی کہ اس کے ابو کو بیٹا چاہیے تھا۔ اور پھر ایک دن زینب کے میاں جاپان چلے گئے ۔ وہاں خوب کمایا اور بھائی بھتیجوں کے علاوہ زینب کو بھی بھیجا ۔

ایک دن اس نے مجھے روتے ہوئے بتایا کہ اس کے شوہر جاپان میں بہت بیمار ہیں ۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے شوہر کا بھتیجا مجھے بتا چکا تھا کہ ان کا انتقال ہوچکا ہے ۔ دو تین دن بعد ایک تابوت آیا اور سب کچھ ختم ہوگیا ۔ اس کے سارے سسرال والے وہاں موجود تھے ۔ ہر شخص بچیوں اور زینب کے لیے فکرمند تھا ۔ ایک ہفتے بعد میں نے اسے سمجھایا کہ وہ سسرال والوں کی محبت کا جواب محبت سے نہ سہی مگر مصلحت سے تو دے کہ اب وہی ہیں قانونی اور خونی وارث ۔ سبھی نے اسے سمجھایا کہ وہ خود ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کی مریضہ ہے۔ میکے والے اپنے فائدے اٹھاکر چمپت ہوئے ۔

ایک دن وہ دوپہر میں ہمارے گھر آئی۔ اس نے پہلی بار مجھ سے دونوں بیٹیوں کے سفاک رویے کی شکایت کی اور کہنے لگی یہ بیٹیاںمجھے مار کے سکھ کا سانس لیں گی ۔ مختصر یہ کہ جب میں نے اس کے گھر جاکر دونوں لڑکیوں سے بات کی تو وہ بولیں ۔ آنٹی ! یہ بالکل سچ ہے کہ ہمیں امی سے بالکل محبت نہیں ۔ لیکن اس کی ذمے دار وہ خود ہیں ۔ آپ ہی بتائیے ہم نے ہوش سنبھالتے ہی یہ دیکھا کہ ماموں، ممانی ان کے بچے آتے ہیں تو امی بڑے بڑے دسترخوان سجا دیتی ہیں لیکن جب ہمارے تایا کے بیٹے، چچا، چچی یا ان کے بچے آتے ہیں تو امی انھیں منہ بھی نہیں لگاتیں ۔

ہم نے امی کو ہمیشہ انھیں برا بھلا کہتے ہی سنا۔ اب مطلب پڑا تو کہتی ہیں تایا چچا کا ادب کرو ۔ اب ان کے بھائی بھابی کہاں گئے جو ہمارا نہایت قیمتی زیور بھی بہانے سے ہڑپ کرگئے ۔ اور ہمارا مکان بھی ہمارا نہیں یہ کہہ کر دونوں لڑکیاں رونے لگیں ۔

اور پھر ایک دن زینب بھی دونوں بیٹیوں کو تنہا چھوڑ کر چلی گئی ۔ سوئم کے اگلے دن جب ہم وہاں پہنچے تو ایک ہولناک سناٹے نے خیرمقدم کیا ۔ بڑی بیٹی نے گیٹ کھول کر اندر بلایا تو وہاں دونوں بہنوں کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔ اور ان کے چہروں پہ کوئی ملال بھی نہ تھا ۔ اس سوال کے جواب میں کہ لوگ کہاں گئے ۔ تو وہ بولی ’’بھگا دیا ہم نے ۔ ہم نہ کسی کو یہاں رہنے دیں گے اور نہ کسی کے ساتھ جائیں گے ۔

یہ سب ہماری جائیداد پہ قبضہ کرنے کی کوششیں ہیں‘‘ یہ کہہ کر دونوں بہنوں نے اندر جاکر دروازہ بند کرلیا اور ہم اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے ۔ گھر آکر میں نے ان کی کزن کو فون کیا تو انھوں نے نہایت تکلیف دہ انکشاف کیے جن کا ذکر ممکن نہیں ۔ لیکن انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بڑی کے لیے خاندان ہی میں رشتہ موجود ہے ۔ چالیسویں کے بعد نکاح کردینے کا ارادہ تھا ۔ چھوٹی ابھی پڑھ رہی ہے وقت آنے پر اس کا بھی بندوبست ہوجائے گا ۔ لیکن دونوں لڑکیاں کسی کی شکل دیکھنے کی روادار نہیں ہیں ۔

دونوں بہنوں نے گزشتہ تین سال سے کوئی رابطہ نہ کیا تھا اور نہ وہ چاہتی تھیں کہ کوئی اور ان کے گھر جائے ۔ محلے والے دونوں بہنوں کے لیے کھانا دے جاتے تھے تو کھا لیتی تھیں ورنہ کئی کئی دن بھوکی پڑی رہتی تھیں کاش کوئی رپورٹر یا فیچر رائٹر اس کی کھوج لگائے کہ ایسے ہولناک سانحے نے کیونکر جنم لیا؟

نفرتوں کے بیج دیمک بن کر کئی نسلوں کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔