کشمیری پنڈتوں کا ترک وطن

کلدیپ نائر  جمعـء 12 ستمبر 2014

پنجابی ہندوؤں کی طرح کشمیری پنڈتوں کا بھی کوئی وطن نہیں رہا جہاں وہ واپس لوٹ کر جا سکیں۔ دونوں واپس جانا چاہتے ہیں لیکن انھیں جس عسکریت پسندی نے نکالا وہ اب بھی بہت مضبوط ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ مقامی آبادی کو بنیاد پرستوں نے مسموم کر دیا ہے۔

بعض پنڈت جو واپس چلے گئے ہیں وہ خوش نہیں ہیں۔ انھوں نے دیکھا سیکولرازم کی فضا کم و بیش ماضی کی یاد بن چکی ہے۔ جن علاقوں میں ان کے آباؤ اجداد ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے وہ اب ان کے لیے یکسر اجنبی بن گئے ہیں۔ مذہبی تعصب نے برادریوں کے درمیان دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔ پنڈتوں کو اپنے گھر بار اس وقت چھوڑنا پڑے جب نوے کی دہائی کے وسط میں کشمیر پر عسکریت پسندی کا حملہ ہوا۔ اگرچہ اب اس کے آثار انحطاط پذیر ہیں لیکن مجموعی صورت حال ابھی تک معمول پر نہیں آئی۔

یہ درست ہے کہ زیادہ تر پنڈت جموں شہر میں یا اس کے ارد گرد رہ رہے ہیں۔ لیکن یہ پناہ گزینوں کے کیمپ ہیں‘ گھر نہیں ہیں۔ جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر فاروق عبداللہ اس معاملے کو انتظامی طور پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں حالانکہ یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے جو  بی جے پی کے مضبوط لیڈر ہیں‘ عمر فاروق سے پنڈتوں کے لیے زمین مانگ کر اس معاملے کو سیاسی رنگ دیدیا ہے۔ آخر راج ناتھ یہ تقاضا کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ وہ کشمیری پنڈتوں کے ’’کاز‘‘ کی خدمت نہیں کر رہے جو باہر کے لوگ نہیں ہیں۔ وہ کشمیری ثقافت کا لازمی حصہ ہیں۔ اپنے مصائب پر ان کا احتجاج قابل فہم ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وزیر داخلہ ان کے مسائل پر اپنی سیاست چمکانا شروع کر دیں۔

یہ کوئی ہندو مسلم مسئلے کا سوال نہیں ہے اور نہ ہی اسے ایسا بنانا چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جس سے کشمیری پنڈت واپس جا سکیں۔ ان کی زیادہ تر پراپرٹی محفوظ ہے اور ان کی جن املاک پر دوسرے لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے وہ ان سے واپس لی جائیں۔ مجھے حریت پسند لیڈر سید علی گیلانی کی بات یاد آتی ہے جس میں انھوں نے بڑا زور دے کر کہا تھا کہ یہ ہندو مسلم سوال نہیں ہے۔ اس وقت تک سید گیلانی انتہا پسندی کے شکار نہیں ہوئے تھے۔ ممکن ہے انھوں نے اپنے نظریات تبدیل نہ کیے ہوں لیکن ان کی خاموشی ان کے دل کی بات بتا رہی ہے۔ انھیں اپنے سابقہ نظریے کو پھر استوار کرنا چاہیے: کشمیری پنڈت کشمیری ثقافت کا حصہ ہیں اور انھیں عمومی ہندو مسلم سوال سے منسلک نہیں کیا جانا چاہیے۔

سید گیلانی نے تو بلکہ مجھے بتایا تھا کہ انھوں نے قبل ازیں غلط کہا تھا کہ کشمیری پنڈتوں کے سوال کو کشمیر کے مجموعی تنازعہ کے تناظر میں حل کرنا چاہیے۔ راجناتھ سنگھ نے غیر ضروری طور پر ان لوگوں کو اپنی بات کہنے کا موقع فراہم کر دیا ہے جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ کشمیر تقسیم برصغیر کا نا مکمل کام ہے۔ وہ اس ریاست کو بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور وہ کہیں نہ کہیں پاکستان میں بھی یہ کوشش کر رہے ہونگے کہ کشمیر کو بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرایا جائے جیسے کہ پاک بھارت تقسیم ہوئی تھی۔ عمر فاروق کی طرف سے پنڈتوں کو زمین الاٹ کرنے کی بات بھی اس معاملے کو فرقہ ورانہ رنگ دینے کی کوشش کے مترادف ہے۔

بعض انتہا پسندوں نے کشمیری پنڈتوں کے لیے علیحدہ علاقہ اور سیکیورٹی کا مطالبہ کیا ہے۔ فی الوقت ان میں سے 30,000 مبینہ طور پر کشمیر میں ہیں جب کہ ان کی مجموعی تعداد 4لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ جب تک شیخ عبداللہ کشمیر کے معاملات پر حاوی تھے تو انھوں نے کبھی بھی سیاست میں مذہب کو مداخلت کی اجازت نہیں دی۔ وہ کہتے تھے کہ انھوں نے اس وجہ سے ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالفت کی ہے کیونکہ کشمیر ایک سیکولر ریاست ہے اور وہ ایک اسلامی ملک کے ساتھ شامل نہیں ہونا چاہتے تھے کیونکہ ان کو فرقہ واریت کے بجائے اجتماعیت پسند تھی۔

حتیٰ کہ تحریک آزادی کے دوران بھی شیخ عبداللہ نے مسلم لیگ کے بجائے کانگریس کا ساتھ دیا جب کہ مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کر رہی تھی۔ نئی دہلی حکومت مضبوط مرکز کی حامی تھی جس پر شیخ عبداللہ نے کڑی تنقید کی اور اس کی قیمت بھی انھیں ادا کرنی پڑی۔ انھیں جنوبی ہند میں کوڈائی کنال (Kodai kanal) کی جیل میں بارہ سال زیر حراست رہنا پڑا۔ شیخ عبداللہ اس وقت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے ساتھ رہے تا کہ وہ اپنی غلطی کا احساس کر سکیں کیونکہ شیخ عبداللہ نے مطالبہ کیا تھا کہ مرکز کے پاس صرف تین محکمے امور خارجہ‘ دفاع اور مواصلات رہنے چاہئیں جس کا کہ تقسیم کے موقع پر ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ شیخ عبداللہ کا مشہور بیان ہے کہ کشمیری عوام بھارتی گندم نہیں کھائیں گے تا کہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ انھوں نے بھارتی یونین سے اپنی خود مختاری کا سودا کر لیا ہے۔ شیخ عبداللہ کا سیکولر ازم پر اعتقاد بہت گہرا تھا اگرچہ انھیں اس بات پر تعجب ہوتا تھا کہ کیا بھارت طویل مدت تک اجتماعیت کے معاشرے والا رہ سکے گا۔

وزیر اعلیٰ عمر فاروق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں بھی یہی خدشہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی مسلمان دشمن ہیں تاہم جب وزیر اعظم سیلاب کی تباہ کاریوں کا فضائی جائزہ لے رہے تھے تو عمر فاروق کو ان کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر ایک صحت مند تاثر پیدا ہوا۔ مودی نے سیلاب متاثرین کے لیے ایک ہزار کروڑ روپے کے خصوصی ریلیف فنڈ کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ قومی تباہی ہے اور یوں انھوں نے بھارت کے آئین کی شق 370 کو بالائے طاق رکھ دیا جس کے تحت کشمیر کو خصوصی ریاست کی حیثیت حاصل ہے۔

ممکن ہے اس سے مودی پر مسلم دشمنی کا الزام بھی دھل جائے (کشمیر کی آبادی میں %80 مسلمان ہیں) مودی نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لیے امداد کی پیش کش کی ہے جس کو سراہا جانا چاہیے۔ یہ دونوں کے منجمد تعلقات کی برف پگھلنے کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان نے بھی اسی تاثر کا اظہار کیا ہے۔ دونوں وزرائے اعظم نے احساس کر لیا ہے کہ مصیبت کا کوئی مذہب یا سیاست نہیں ہوتی۔

بھارت کا پاکستان سے بات نہ کرنا قابل فہم ہے کیونکہ پاکستان 2008ء میں ممبئی پر حملہ کرنیوالے عسکریت پسندوں کے خلاف مقدمہ چلانے میں تاخیر کیے جا رہا ہے۔ یہ مقدمہ پاکستان کی نیت کے بارے میں ’’لٹمس ٹیسٹ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے کہ آیا وہ ممبئی حملہ کے ذمے داروں کو سزا دینا بھی چاہتا ہے یا نہیں کیونکہ ان پر ابھی تک کوئی چارج بھی نہیں لگایا گیا۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ نئی دہلی حکومت نے انھیں کافی شواہد فراہم نہیں کیے جن کی بنا پر عدالتیں ان پر فرد جرم عاید کر سکیں۔

خواہ کشمیری یہ احساس کریں یا نہ کریں کہ انھوں نے انتہائی تربیت یافتہ لوگوں کی خدمات کو کھو دیا ہے۔ پنڈت اب بھارت کے دوسرے علاقوں میں چلے گئے ہیں جہاں انھیں اپنے اعلیٰ کوائف کی بنا پر روز گار بھی مل گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب وہ واپس نہیں جانا چاہیں گے خواہ ریاست کی طرف سے انھیں ویسی ہی ملازمتوں کی پیش کش ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں نوجوانوں کی وہ ’’کریم‘‘ ضایع کر دی گئی ہے جو تکنیکی اعتبار سے بہت قابل ہے اور جو ریاست کی اقتصادی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود سری نگر کو کوشش کرنی چاہیے کہ  پنڈت واپس آ جائیں۔ اس سے ریاست کو ایک سیکولر چہرہ مل جائے گا جو کئی عشروں تک ریاست کا امتیازی نشان رہا ہے۔ اگر اس معاملے میں کوششیں نہ کی گئیں تو کشمیری باقی ملک سے بیگانہ ہو جائیں گے جہاں وہ کامیابی سے روزگار کما رہے ہیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔