سیلاب اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ناکامی

تنویر قیصر شاہد  منگل 16 ستمبر 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

غربت و عسرت، تنگدستی، حکمرانوں کی زیادتیوں اور بے روزگاری کے مارے پاکستانی عوام کو سیلاب نے مزید مار دیا ہے۔ پنجاب میں، اور وہ بھی دیہاتی پنجاب میں منہ زور سیلابی ریلوں نے ناقابلِ تلافی جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔ مقامی بارشی پانی اور بھارتی آبی جارحیت مل کر ہمیں تاراج نہ کرتے اگر ہمارے حکمران پہلے سے کوئی منصوبہ بندی کرچکے ہوتے۔ انھیں مگر اپنے مفادات سمیٹنے ہی سے فرصت نہیں۔ حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچے کھچے عوام، جنھیں بجلی کے ہوشربا بلوں اور مہنگے ترین پٹرول نے پہلے ہی ہراساں کر رکھا ہے، سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے سیلاب زدگان بھائیوں کی دستگیری کریں۔

انھوں نے غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے بھی ایسی ہی اپیل کی ہے۔ عوام کی اکثریت اس اپیل پر حیران ہے۔ وہ ششدر ہیں کہ جو حکمران لاہور اور پنڈی میں صرف دو سڑکوں پر پچاس پچاس ارب روپے خرچ کرنے کا جگرا رکھتے ہیں، وہ کسی جرأت سے ایسی اپیل کرسکتے ہیں؟ اپنی سیاسی مشہوری کے لیے اربوں کھربوں ہمہ وقت موجود مگر مصیبت اور دکھوں کے مارے عوام کے لیے۔۔۔؟  عوام تو اب بھی بے چارے، تنگدست اور تہی دست ہونے کے باوجود، اپنے سیلاب زدگان بھائیوں کی دامے درمے اعانت کر رہے ہیں لیکن وہ پریشان ہیں کہ ہم حکومت کے فنڈز میں محنت سے کمائے گئے روپے جمع کراتے ہیں لیکن وہ غائب کردیے جاتے ہیں۔

کوئی ان کا حساب کتاب دینے کو تیار نہیں۔ مثال کے طور پر ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ سرکاری مہم میں عوام نے اپنے وطن کی محبت میں کروڑوں اربوں روپے جمع کروائے تھے لیکن وہ ایسے غائب کیے گئے کہ آج تک ان کا سراغ نہیں ملا۔ حکمرانوں نے اعتماد و اعتبار کو زبردست ٹھیس پہنچائی۔ ملک کے چیف ایگزیکٹو صاحب بھی سیلابی تباہی کی ان گھڑیوں میں کہہ رہے ہیں کہ امداد کے لیے ہمارے پاس وسائل محدود ہیں۔ افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ زیادہ رنج کی بات یہ ہے کہ اس وقت جب کہ پنجاب کا اکثریتی علاقہ ہلاکت خیز سیلابی لہروں کی زد میں ہے اور اپنے پیچھے ہر جگہ بربادی کی لاتعداد داستانیں رقم کرگیاہے، مقتدر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اقتدار کے ایوانوں سے باہر رہنے والی اکثر سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کے رہنما و پیشوا سیلاب کے مارے ہوؤں کی مدد کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔

پیپلز پارٹی کو اس کی نالائقیوں اور نااہلیوں کے سبب مئی 2013ء کے انتخابات میں پنجاب نے بری طرح مسترد کردیا تھا۔ اب سنہری موقع تھا کہ غریبوں کی پارٹی کا دعویٰ رکھنے والی یہ جماعت اور اس کے لیڈر اپنے آرام دہ گھروں سے نکلتے اور ہر جگہ پہنچ کر سیلاب زدگان کی داد رسی کرتے۔ یوں وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال اور عوام کے دلوں میں گھر کر سکتے تھے لیکن یہ موقع دانستہ گنوا دیا گیا۔ آنے والے انتخابات میں یقینا پیپلز پارٹی کو اس کا جواب دینا پڑے گا۔

مقتدر جماعت، مسلم لیگ ن، کے منتخب نمایندے بھی اپنے اپنے متاثرہ حلقوں میں اپنی موجودگی کا احساس نہ دلا سکے۔ صوبائی حکومت کے سینئر حکمران سیلاب زدگان کی اعانت کرتے ہوئے جس طرح دکھائے گئے ہیں، ان میں کئی جگہ اقدامات کا بھانڈا  ٹی وی چینلوں نے پھوڑ دیا ہے۔ اس افسوسناک پیش منظر میں قادری و عمران کا ایجنڈا غربت کے مارے عوام کے لیے پُرکشش کیوں نہ ہو؟ ان کے اس اعلان میں عوام کو امید کی کرنیں کیوں نظر نہ آئیں جس میں صاف الفاظ میں کہا جارہا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان یہ طبقہ اشرافیہ ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور حصول میں تو یکجا اور یک آواز ہوجاتا ہے لیکن دکھوں اور مسائل کے مارے عوام کے لیے ان کے پاس روپیہ ہے نہ وقت۔

مناسب اور مستحسن ہوتا اگر پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کی قیادت بھی سیلاب زدگان کے پاس ذاتی طور پر پہنچتی مگر دھرنے اور انقلابی احتجاجات ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئے۔ جناب عمران خان تو پھر بھی اس زنجیر سے نجات حاصل کرکے آبی طوفان کے ماروں کے پاس پہنچے لیکن ڈاکٹر طاہر القادری بدستور اپنے کنٹینر میں جمے رہے۔ ان کے پاس فنڈز کی کمی ہے نہ کارکنوں کی لیکن انھوں نے اس جانب توجہ دینے سے گریز کیا۔ یہ عدم توجہی یقینا ان کے انقلابی نعروں اور انقلابی پروگرام پر منفی اثرات مرتب کر گئی ہے۔ اس سانحے سے ڈاکٹر طاہرالقادری کا اغماض یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ وہ اور ان کی جماعت سیاسی ہے نہ سیاسی تقاضوں سے باخبر۔ مولانا فضل الرحمن بڑھ بڑھ کر کپتان اور خیبر پی کے میں ان کی حکومت پر سیلاب کے حوالے سے طنز تو کررہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ مولانا صاحب اور ان کی جماعت نے اس سلسلے میں کیا فلاحی اقدامات کیے ہیں؟

تو کیا ملک بھر کی مذہبی جماعتوں کا یہی رویہ رہا؟ ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے ہاں کچھ ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو تعصبات  سے بالا تر رہ کر سیلاب زدگان کی جی جان سے خدمت کر رہی ہیں۔ اس کے لیے وہ دن کی گرمی اور حبس کی پروا کررہی ہیں نہ رات کی تاریکیاں ان کے آڑے آرہی ہیں۔ اللہ کے ان بندوں میں ’’جماعت الدعوۃ‘‘ بھی شامل ہے۔ اس کے کارکنان اپنے مخصوص حلیے میں دور ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔ پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب کی زیر قیادت سیلاب متاثرین کی امداد و اعانت شب و روز جاری ہے۔ وہ ریسکیو بھی کررہے ہیں، شیلٹرز کا بندوبست بھی اور خوردونوش کا سامان بھی ضرورت مندوں تک پہنچا رہے ہیں۔

انسانیت کی خدمات میں جُتے اللہ کے ان بندوں میں ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ کے وابستگان بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ربع صدی سے الخدمت والے سیلاب میں گھرے، زلزلہ متاثرین اور قحط کے مارے ہوؤں کی مقدور بھر کوششیں کرتے آرہے ہیں۔ آجکل سیلاب میں گھرے اور مصیبت زدگان کی جس برق رفتاری سے یہ فلاحی ادارہ خدمات انجام دے رہا ہے، اس کا اجر صرف خدا کے پاس ہے۔ رواں برس مارچ میں تھر پار کر میں قحط نے ہلاکت خیز پر پھیلائے تو الخدمت والے اعانت کے لیے سرعت سے وہاں پہنچے اور خوراک کے 28ٹرک پہنچا کر بھوکوں کی دستگیری کی۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

جون 2014ء کے وسط میں شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف شروع کیے گئے ملٹری آپریشن کے کارن آٹھ لاکھ کے قریب آئی ڈی پیز کا بحران سامنے آیا تو ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ وہ این جی او تھی جو فوج کے تعاون سے سب سے پہلے ان کو مالی و طبی امداد فراہم کرنے پہنچی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے۔ یقیناً اعانت و خدمت کے اس بے لوث پروگرام پر لاکھوں کروڑوں روپے کے اخراجات اٹھ رہے ہیں جسے خدا کے بندے، بتوسط الخدمت فاؤنڈیشن، پورا کررہے ہیں۔

یہ رقم کتنی ہوگی، اس کا ایک ہلکا سا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ الخدمت نے آجکل سیلاب زدگان کے لیے ستّر سے زائد جو ریلیف کیمپ لگائے ہوئے ہیں، ان میں روزانہ پانچ ہزار افراد کو پکا پکایا کھانا فراہم کیا جارہا ہے۔ تقریباً ڈھائی ہزار افراد ــ’’ــالخدمت‘‘ کے پرچم تلے بغیر کسی معاوضے کے مصیبت کے ماروں کی دستگیری پر مامور ہیں۔ ان کی دوست تنظیم ’’پیما‘‘ کے ڈاکٹر سیلاب کے وبائی امراض سے متاثر ہونے والوں کے علاج میں مصروف ہیں۔ ایسے افراد اور ایسی تنظیموں کے لیے خدا کی بارگاہِ عظیم میں ہمارے ہاتھ کیوں نہ اٹھیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔