اصلی اور نقلی جلسے؟

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 10 اکتوبر 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

کوئی مانے یا نہ مانے یہ حقیقت ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کی تحریک نے پورے پاکستان میں ایک طبقاتی ہلچل مچا دی ہے۔ عام آدمی خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ اب یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ ان کے ساتھ 67 سالوں سے جو زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ جومعاشی ناانصافیاں ہو رہی ہیں وہ تقدیر کا لکھا نہیں بلکہ برسر اقتدار طبقات کا وہ ظلم ہے جس سے چھٹکارا پانا ان کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔

یہ ایک ایسی فکری تبدیلی ہے جس کا کریڈٹ عمران خان اور طاہر القادری کو ہی جاتا ہے۔ ہماری سیاسی ایلیٹ دھرنوں اور جلسوں کا مذاق اڑا کر ان پر طرح طرح کے الزامات لگا کر اس تحریک کی حقیقت اور اس کے مضمرات کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ ان دھرنوں اور سیلابی جلسوں کے خطرناک مضمرات کا نہ صرف ادراک رکھتی ہے بلکہ اس کے سنگین نتائج سے سخت بدحواس بھی ہے اور اس بدحواسی میں ان خطرات سے بچنے کی جو کوششیں کر رہی ہے، ان میں سے ایک جوابی جعلی جلسوں کی کوشش ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اب تک وڈیرہ شاہی نظام موجود ہی نہیں بلکہ مستحکم بھی ہے جو 67 سال سے سیاسی جلسے جلوسوں کو نہ صرف ہجوم فراہم کر رہا ہے بلکہ انتخابات میں ان کی کامیابی کا ضامن بھی بنا ہوا ہے اس سہولت کے علاوہ اس اشرافیہ کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ ریاستی مشینری پر اس کا قبضہ ہے۔ اور وہ مخالفین کی طاقت اور تحریکوں کو دبانے کے لیے ریاستی مشینری کا بھرپور استعمال بھی کر رہی ہے حالانکہ سیاسی ضرورتوں کے تحت ریاستی مشینری کا جمہوری نظام میں بھی استعمال غیر اخلاقی کہلاتا ہے۔ اس سہولت کے ساتھ حکومتی اشرافیہ کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ حکومت کا خزانہ اس کے ہاتھوں میں ہے اور خود یہ اشرافیہ 67 سالوں سے قومی دولت کی لوٹ مار سے اربوں نہیں کھربوں روپوں کی مالک بنی ہوئی ہے۔ اسے آزادی سے استعمال کر رہی ہے۔

یہ وہ وسائل یہ وہ سہولتیں ہیں جو حکومت اور اس کے طبقاتی اتحادیوں کو جوابی پُرہجوم جلسے منعقد کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں غالباً ان ہی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جوابی جلسے کرنے کی تیاریاں جاری ہیں جن کا واحد مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ عوام اس کرپٹ اشرافیہ کے ساتھ ہیں لیکن عوام ماضی میں بھی دیکھتے رہے ہیں اور اب بھی دیکھ رہے ہیں کہ وڈیرہ شاہی کے جبر اور دولت کے بے بہا استعمال سے جو جعلی اور دیہاڑی دار جلسے جلوس کیے جاتے ہیں نہ ان میں جوش و جذبہ ہوتا ہے نہ ان کے سامنے کوئی مقصد ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کی سہولت اور معقول اجرت کے ساتھ جو ’’سیلابی‘‘ جلسے منعقد کیے جاتے ہیں ان کی حیثیت جلوس جنازہ سے زیادہ نہیں ہوتی کہ جلوس جنازہ خواہ کتنے ہی میل لمبا ہو اس میں ماتمی فضا ہی برقرار رہتی ہے کسی مقصد کسی مثبت تبدیلی کی خواہش کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔

14 اگست کے بعد صورتحال اس قدر گمبھیر ہو گئی ہے کہ اب کسی بڑی اور عوامی مفادات کے مطابق تبدیلی کے بغیر اس صورتحال پر کسی ذریعے سے بھی قابو نہیں پایا جاسکتا۔ حکومتی اشرافیہ کو ہمیشہ یہ خدشہ رہا ہے کہ اس کے ظلم کے خلاف کسی وقت بھی عوام سڑکوں پر آ سکتے ہیں اس ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے سیاسی اشرافیہ نے آئین کے تحت ایسے اختیارات اپنے ہاتھوں میں جمع کر رکھے ہیں جن کا استعمال کر کے عوامی بغاوتوں کو کچلا نہ سہی روکنے کی کوشش بہرحال کی جا سکتی ہے۔

عوامی اشتعال جب سڑکوں پر آتا ہے تو اسے روکنے اور کچلنے کی کوشش ریاستی مشینری کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔ عوامی بغاوت کے بعد فوج ایک ایسی طاقت ہے جس سے حکومتوں کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے جہاں بہت سارے آئینی اختیارات حکمرانوں نے اپنے ہاتھوں میں مرتکز کر رکھے ہیں وہیں اس ادارے میں مرضی اور مفاد کے مطابق رد و بدل کرنے کا اختیار بھی اپنے پاس رکھا ہے اور اس اختیار کو استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

لیکن ماضی میں بھی یہ اختیارات ریت کا ڈھیر ثابت ہوتے رہے ہیں حال میں بھی ریت کے ڈھیر ثابت ہوں گے اور مستقبل میں بھی ریت کے ڈھیر ہی ثابت ہوں گے۔ کسی جمہوری معاشرے میں ریاست کے تمام ادارے جمہوری حکومتوں کے ماتحت ہی ہوتے ہیں۔ جس کی مثال ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی دی جا سکتی ہے جہاں67 سال سے فوج سمیت تمام ادارے منتخب حکومتوںکے تابع ہیں لیکن ہمارے ملک میں آئینی پابندیوں کے باوجود چار بار آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوج اقتدار پر قابض ہوئی اور المیہ یہ ہے کہ آئین کی سربلندی کے دعوے دار سیاستدان ہر فوجی حکومت میں شامل ہی نہیں رہے بلکہ ان کے استحکام کا ذریعہ بھی بنتے رہے اور معزز عدلیہ آئین کی اس پامالی کو آئینی جواز فراہم کرتی رہی۔

آج ایک بار پھر عوام کے دلوں اور ذہنوں میں اس ظلم کے نظام کے خلاف لاوا پکتا دکھائی دے رہا ہے جس کا مشاہدہ ہم کراچی، لاہور اور میانوالی، ملتان کے جلسوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں اور ملک کے مختلف شہروں میں آنے والے دنوں میں دیکھ سکیں گے۔ ان جلسوں میں نہ عمران خان نے ٹرانسپورٹ فراہم کی تھی نہ کھانے کا اہتمام کیا تھا نہ دیہاڑی دی تھی یہ رضاکارانہ شرکت تھی جس کی وجہ حکومت کی طرف سے مسلسل ہونے والی ناانصافیاں اور آگ کی طرح پھیلتی ہوئی کرپشن ہے، ان جلسوں جلوسوں اور دھرنے والوں کے سامنے ایک اعلیٰ مقصد ہے اور وہ ہے اس ظلم و استحصال کے نظام کو بدلنا۔

کیا وڈیرہ شاہی جبر اور بے بہا دولت کے سہارے لاکھوں پتھر کے انسانوں میں وہ جوش و جذبہ پیدا کر سکتی ہے جو عمران خان کے جلسوں اور قادری کے دھرنوں کے شرکا میں دیکھا جا سکتا ہے؟ کیا ان جعلی جلسوں کے ہاری نظام کو بدلنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟ جس نے 18 کروڑ عوام کو زندہ درگور کر رکھا ہے؟ہو سکتا ہے حکمران اتحاد ریاستی طاقت اور اپنے بے بہا وسائل کے ذریعے اس طوفان کو روکنے میں کامیاب ہو جائے اور وقتی طور پر بپھرے ہوئے عوام خاموش ہو جائیں یا تحریکوں کی قیادت کرنے والے پسپا ہو جائیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جہاں ظلم ہو گا وہاں مزاحمت ہو گی۔ اگر حکومتیں ظلم کو ختم کیے بغیر ناانصافیوں کو ختم کیے بغیر محض ریاستی طاقت اور آئینی اختیارات کے ذریعے عوام کو بے بس کرنا چاہیں گی تو یہ ایک ایسی ہی حماقت ہو گی جیسے پرندے ریت میں گردن چھپا کر شکاریوں سے بچنے کی حماقت کرتے ہیں۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ تمام لٹیرے طبقات اپنی لوٹ مار کے نظام کو بچانے کے لیے متحد ہو گئے ہیں اور عوامی جلسوں عوامی نفرتوں کا جواب کرائے کے عوام سے دینا چاہتے ہیں لیکن یہ سادہ لوح لوگ اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ اصلی جلسوں کے ذریعے عوامی طاقت کے جو مظاہرے کیے جاتے ہیں وہ نقلی جلسوں کے ذریعے نہیں کیے جا سکتے نہ میڈیا پر  بے جان جوابی حملوں سے ان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہماری اشرافیہ اس حقیقت کو سمجھ لے تو ہو سکتا ہے عوامی غیظ و غضب سے بچاؤ کی کوئی صورت نکل آئے لیکن اگر اشرافیہ طاقت اور جعلی جلسوں کے ذریعے اپنے بچاؤ کی کوشش کرے گی تو پھر آگے لاوا ہی لاوا ہو گا۔ جو سب کچھ جلا کر راکھ کردے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔