غزل اس نے چھیڑی

امجد اسلام امجد  ہفتہ 11 اکتوبر 2014
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

یکم سے آٹھ اکتوبر تک میرا قیام دہلی میں رہا۔ گزشتہ کالم میں اس سفر کی غائت بیان کر چکا ہوں کہ 7 اکتوبر کو غزل کی مشہور صاحب طرز اور عہد ساز مغنیہ بیگم اختر کا سو سالہ یوم پیدائش تھا۔ ان کی وفات (اکتوبر 1974ء) کے بعد سے اب تک ان کی شاگردہ پدم شری پروفیسر ریتا گنگولی (جو خود بھی ایک بین الاقوامی سطح کی گائیکہ ہیں) گزشتہ چالیس برس سے ہر سال ان کے جنم دن پر ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کرتی ہیں ۔

جس میں بیگم اختر اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور گاہے گاہے غیر معمولی کارکردگی کی بنا پر گائیکوں اور شاعروں کو ایوارڈ بھی پیش کیے جاتے ہیں عام طور پر ان ایوارڈ یافتگان کا تعلق بھارت سے ہی ہوتا ہے لیکن مجھ سے پہلے یہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے تین شاعروں اور دو مغنیوں (فیض احمد فیض۔ احمد فراز۔ قتیل شفائی۔ عابدہ پروین اور ٹینا ثانی) کو بھی دیا جا چکا ہے۔ اس ایوارڈ کا نام BAAG ایوارڈ ہے جو Begum Akhtar Acadamy of Ghazal کا مخفف ہے اور اسے پیش کرنے والے ادارے کا نام کلادھرمی Kaladharmi ہے۔

ایئرپورٹ پر میزبانوں کے نمائندے کے ساتھ برادرم عازم کوہلی بھی موجود تھے۔ طے یہی پایا تھا کہ میں چار دن ان کی طرف رکوں گا اور پانچ اکتوبر کو انڈیا انٹرنیشنل سینٹرمیں منتقل ہو جاؤں گا۔ سو ایسا ہی کیا گیا عازم کوہلی میرے بھائیوں جیسے عزیز دوست ہیں اور اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے عمدہ شاعر ہیں۔ وہ ایک کامیاب اور معروف صنعت کار ہیں مگر جب تک میں بھارت میں رہتا ہوں وہ بیشتر وقت میرے ساتھ گزارتے ہیں۔ یوں ہم ممبئی، بنگلور، حیدر آباد، آگرہ اور اودھے پور کے سفر بھی ایک ساتھ کر چکے ہیں۔

برادرم شرد دت کا تعلق دُور درشن سے رہا ہے۔بطور اسٹیشن ڈائریکٹر ریٹائر ہونے کے بعد اب وہ ایک اہم پرائیویٹ چینل P7 کے افسر اعلیٰ ہیں۔ اپنی منصبی ذمے داریوں کے تحت کئی بار پاکستان آ چکے ہیں۔ 2 اکتوبر کی شام عازم کوہلی کے گھر واقع پنجابی باغ میں ان سے ملاقات ہوئی تو باتوں کا سلسلہ زلفِ یار کی طرح دراز ہوتا چلا گیا۔ شرد کا اصل میدان ڈاکیومینٹری فلم پروڈکشن ہے وہ بلا مبالغہ سیکڑوں کی تعداد میں ڈاکیومینٹریز بنا چکے ہیں لیکن ان کا تخصیصی شعبہ انڈین فلم اور میوزک ہی ہے جس سے متعلق بنائی گئی ان کی ڈاکیومینٹریز کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہو چکی ہے۔

شرد جی کا اصرار تھا کہ میں ان کے چینل کے لیے بھی ایک انٹرویو ریکارڈ کراؤں جو ان کے پروگرام ’’خاص ملاقات‘‘ میں ٹیلی کاسٹ ہو گا۔ اس انٹرویو اور غالب اکیڈمی کی تقریب کا مختصر احوال میں گزشتہ کالم میں لکھ چکا ہوں۔ البتہ دُور درشن والے انٹرویو کا ذکر شاید رہ گیا تھا۔ ان کی ٹیم 3 اکتوبر کو عازم کے گھر پر آئی جس کے ڈائریکٹر کا زور انٹرویو کے Content پر کم اور آؤٹ ڈور شوٹنگ اور Silent Shots پر زیادہ تھا۔

5 اکتوبر کی دوپہر ریتا گنگولی نے عازم کوہلی کے گھر سے مجھے ساتھ لیا جہاں لنچ پر عازم کے سالے سابق بھارتی لیفٹ آرم لیگ اسپنر منندر سنگھ، میتا بھابی کی ایک اسکول کے زمانے کی دوست (جو اب گوا میں رہتی ہے اور اسکول کے دنوں کے بعد آج پہلی بار تقریباً 45 سال کے وقفے کے بعد دونوں مل رہی تھیں) اور عازم کے ہونے والے داماد (یعنی سمرت بیٹی کے مستقبل قریب کے جیون ساتھی) شامل تھے۔ دونوں سے خوب ملاقات رہی۔

انڈیا انٹرنیشنل سینٹراپنی اصل میں ہمارے لاہور جم خانہ کلب جیسا ایک اعلیٰ درجے کا کلب ہے۔میں اس عمارت میں دو بار پہلے بھی ٹھہر چکا ہوں۔ انڈین Habitat Centre اور اسلامک سینٹرکی عمارات بھی اسی کے نواح میں واقع ہیں۔ سو اس علاقے کو ایک کلچرل سینٹربھی کہا جا سکتا ہے۔ اتفاق سے ہمارے پروگرام میں بقیہ دو عمارات بھی شامل تھیں کہ تقریب Habitat Centre کے Auditorium      Stein میں اور ڈنر اسلامک سینٹرمیں تھا۔

عید کی نماز کے لیے 6 اکتوبر کی صبح عزیزی کفائت دہلوی حسب وعدہ وقت پر پہنچ گئے۔ مسجد قریب ہی تھی اور خاصی بڑی بھی تھی لیکن نمازیوں کی خوش حالی کا تناسب 10% سے زیادہ نہیں تھا گداگروں اور فقیروں کی تعداد پر اس لیے تبصرہ نہیں کروں گا کہ ہمارے ہاں بھی عیدین پر بہت سے غریب نشئی اور بے روزگار لوگ بھی اس بھیڑ میں شامل ہو جاتے ہیں کلب میں کھانے پینے کے لیے بار، کافی ہاؤس اور ڈائننگ ہال تینوں کے لیے علیحدہ علیحدہ جگہیں مختص ہیں پانچ اکتوبر کو رات کے کھانے کے لیے ریتا گنگولی اپنے ایک عزیز کے ساتھ تشریف لائیں اور فون کر کے بتایا کہ وہ بار روم میں میرا انتظار کر رہی ہیں جب میں نے انھیں بتایا کہ میں اس ’’شوق‘‘ سے محروم ہوں تو وہ بہت حیران ہوئیں معلوم ہوا کہ ان کے یہاں شراب کے بغیر ’’شاعر‘‘ کا تصور ہی مکمل نہیں ہوتا۔

تقریب کا عنوان ’’جمالِ بیگم اختر‘‘ رکھا گیا تھا اور یہ دو دنوں پر مشتمل تھی 6 نومبر کو مرکزی پروگرام ایوارڈ کی تقسیم اور شام غزل پر مشتمل تھا پنکھج ادہاس کو لائف ٹائم اچیومنٹ اور مجھے 2014ء کا خصوصی ایوارڈ دیا گیا ایوارڈ دینے کے لیے مہمان خصوصی کلچر کے مرکزی منسٹر آف اسٹیٹ شری پد نائیک (جن کا تعلق غالباً گوا سے ہے) کو مدعو کیا گیا تھا ان کا لباس انتہائی سادہ اور طبیعت اس سے بھی سادہ تھی۔ انھوں نے دونوں ایوارڈ یافتگان کو پھول شیلڈز اور ایوارڈز کے چیک پیش کرنے کے ساتھ ساتھ شالیں بھی پہنائیں یا اوڑھائیں اور ایسی سادگی اور عاجزی کے ساتھ اپنی تقریر پڑھی کہ میری نظروں میں وطن عزیز کے کئی ایسے اکابرین اور حکومتی عہدیداروں کے چہرے گھوم گئے جن کی گردنوں کے سریے اور آنکھوں اور باڈی لینگویج میں چنگھاڑتے ہوئے تکبر کے تصور نے میرا سر شرم سے جھکا دیا۔

پروگرام کے دوسرے حصے میں پنکھج ادہاس، انوپ جلوٹا، پناز مسانی، چندن داس، ریتا گنگولی اور طلعت عزیز نے دو دو غزلیں پیش کیں سب کے سب وہاں کے نامور اور مانے ہوئے گلوکار ہیں۔ لیکن ذاتی طور پر مجھے سب سے زیادہ لطف چندن داس کو سننے میں آیا بعد میں ملاقاتوں پر میں نے بطور انسان بھی ان کو بہت اچھا پایا وہ خود تو اردو رسم الخط آسانی سے نہیں پڑھ سکتے مگر ان کی بیگم اردو صرف جانتی ہی نہیں بلکہ بہت خوش ذوق بھی ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کی منتخب کردہ غزلیں بھی شاعری کے اعتبار سے بہت بہتر تھیں۔ تقریب کے بعد مہمانوں کے لیے اسلامک سینٹرمیں کھانے کا انتظام تھا۔ معلوم ہوا کہ کھانا دہلی کے مشہور کریم ہوٹل سے منگوایا گیا ہے۔

سو بغیر کسی جھجھک کے کھایا اور خوب لطف اندوز ہوئے۔ یہ بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ صبح کے وقت مشہور صحافی اور شاعرہ عزیزہ وسیم راشد کا ڈرائیور شیرخرمہ دے گیا تھا جس نے گھر کی سویّوں کی یاد تازہ کر دی۔ برادرم نند کشور وکرم بھی اس وقت ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ چنانچہ دونوں نے مل کر اس سے انصاف کیا۔ واضح رہے کہ نند کشور وکرم کو گزشتہ برس مجلس فروغ اردو دوحہ قطر کا بین الاقوامی ایوارڈ بھی مل چکا ہے اور ان سے پہلی ملاقات بھی وہیں ہوئی تھی۔کامنا پرساد کا نام ادبی حلقوں میں بہت معروف ہے کہ وہ ہر سال اپریل کے پہلے ہفتے میں جشن بہار مشاعروں کا اہتمام کرتی ہیں۔

جن میں پاکستان سے بھی شاعروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ان سے ملاقات تو تھی لیکن میں کئی بار ان کی دعوت ملنے کے باوجود ان مشاعروں میں شریک نہ ہو سکا کہ ہر بار میں پہلے سے کہیں کمٹڈ تھا۔ عازم کوہلی کی معرفت ان سے رابطہ ہوا تو کہنے لگیں کہ میں سات اکتوبر کو آپ سے ملنے انڈیا انٹرنیشنل سینٹرآؤں گی وہ طے کردہ وقت پر پہنچ گئیں۔ مقام ملاقات ’’کافی ہاؤس‘‘ ٹھہرا ان سے تقریباً ایک گھنٹہ ادب کی مجموعی صورتحال اور مشاعروں پر گفتگو رہی اور وہ یہ وعدہ لے کر اٹھیں کہ اس بار میں ضرور ان کے مشاعروں میں شرکت کروں گا۔

جموں کشمیر کے احباب خالد حسین اور ڈاکٹر لیاقت جعفری سے فون اور ای میل پر مسلسل رابطہ رہتا ہے اور وہ ہمیشہ بہت محبت سے اصرار کرتے ہیں کہ میں ان کے پاس آؤں لیکن بوجوہ اب تک ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ دو برس قبل میرا ویزا لیٹ ہو گیا اور اس بار کشمیر میں ایسا سیلاب آیا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی کہ ہوٹلوں اور گھروں کی دو دو منزلیں پوری کی پوری پانی میں ڈوب گئیں اور یوں وہ پروگرام ایک بار پھر مؤخر ہو گیا جس میں مجھے اور گلزار صاحب کو خصوصی شرکت کرنا تھی۔ ان کا پیغام ملا کہ وہ سات کی صبح ملنے کے لیے آئیں گے اور اسی دن رات کو ٹرین سے لوٹ جائیں گے ابھی کامنا بی بی کو الوداع کہہ کر کمرے میں لوٹا ہی تھا کہ دونوں دوست پہنچ گئے اور ایسی محفل جمی کہ پانچ گھنٹے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔

خالد بھائی سے تو پاکستان میں دو تنی بار کی ملاقات تھی مگر لیاقت جعفری سے یہ بالمشافہ بات چیت کا پہلا موقع تھا۔ دونوں حضرات غیر معمولی ذہین اور پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتوں کے بھی حامل ہیں۔ خالد حسین اردو اور پنجابی کے مستند ادیب ہیں اور لیاقت نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر۔ سو ان سے مل کر دل بہت ہی راضی ہوا۔ وہ ہمارے ساتھ ہی جلسہ گاہ تک آئے لیکن ساڑھے آٹھ بجے اٹھ گئے کیونکہ انھیں سوا دس کی ٹرین جس اسٹیشن سے پکڑنا تھی وہ کم از کم وہاں سے ایک گھٹے کی دوری پر تھا۔

دوسرے دن کے پروگرام کا آغاز بھی بیگم اختر کے بارے ہی بنائی گئی ڈاکیومینٹری فلم سے ہوا اس کے بعد انوپما نامی ایک نوجوان مغنیہ نے بیگم اختر کی گائی ہوئی دو تین غزلیں سنائیں اور خوب جم کر اپنی اچھی آواز کا جادو جگایا۔

شعری نشست کی نظامت عارف مرزا کے سپرد تھی۔ انھوں نے صرف پانچ شاعروں یعنی راجیش ریڈی، مدن موہن دانش، منظر بھوپالی، ش کاف نظام اور صاحب صدر یعنی مجھے بھگتانے میں بھی ہر شاعر سے زیادہ وقت لیا۔ 8 اکتوبر روانگی کا دن تھا۔ عازم کوہلی اور وسیم راشد دس بجے کے لگ بھگ پہنچ گئے۔ بارہ بجے منتظمین کی گاڑی پہنچ گئی جسے واپس بھجوا دیا گیا کہ عزم کوہلی اپنا استحقاق چھوڑنے پر کسی صورت تیار نہیں تھے۔

وسیم راشد نے خاص صحافیوں والا کام کیا اور ٹیلی فون کیمرے اور ریکارڈر پر ایک عدد نیم سیاسی قسم کا انٹرویو بھی کر ڈالا۔ میں بیرون وطن اور بالخصوص بھارت میں بوجوہ سیاسی نوعیت کے انٹرویوز سے احتراز کرتا ہوں لیکن وسیم اتنی اچھی اور پر خلوص خاتون ہے کہ میں انکار نہیں کر سکا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس مختصر سی گفتگو میں جہاں تک ہو سکا میں نے ان مغالطوں کو دور کرنے کی کوشش کی جو بھارتی میڈیا کی یکطرفہ پراپیگنڈہ مہم کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کے دل و دماغ میں راہ پا چکے ہیں اور جن کی وجہ سے بہت سی غلط فہمیاں مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔