کھوٹے سکے کھرے نہیں ہوتے

جبار جعفر  پير 13 اکتوبر 2014

بنی نوع انسان کو صرف خونی رشتوں سے ہی نہیں بلکہ مادر وطن اور مادری زبان سے بھی جذباتی لگاؤ ہوتا ہے چنانچہ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا اتنا ہی احترام کیا جائے جتنا دوسروں سے اپنے مادر وطن اور مادری زبان کے احترام کی توقع رکھتے ہیں۔

الطاف حسین نے ملک کے لیے انتظامی بنیاد پر 20 صوبے بنانے کی تجویز دی ہے جس پر تنقید و تبصرہ، بحث و مباحثہ جاری ہے۔ ایک گروپ ایسا بھی ہے جس کو دھرتی ماں کے تقسیم ہونے کا خدشہ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دھرتی ماں کا جغرافیہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا مثلاً صوبہ سندھ صدیوں پہلے جہاں تھا جیسا تھا آج بھی وہیں ہے۔ صحرا کی جگہ صحرا، دریا کی جگہ دریا، سمندر کی جگہ سمندر وغیرہ البتہ تاریخ بدلتی رہتی ہے۔ اکبر اعظم کے زمانے میں سندھ ملتان کے ساتھ تھا۔ 1843 میں چارلس نیپیئر نے سندھ فتح کیا تو اس کا الحاق بمبئی کے ساتھ ہوا۔

پاکستان قائم ہوا تو سندھ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ بن گیا جس کا سب سے بڑا شہر کراچی (انتظامی بنیاد سندھ سے علیحدہ ہوکر) پاکستان کا دارالحکومت بن گیا۔ ایوب دور میں پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا کراچی واپس سندھ شامل ہو گیا۔ جب ون یونٹ قائم ہوا تو سارے صوبے ختم ہوگئے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان رہ گئے۔ سندھ مغربی پاکستان میں مدغم ہوگیا۔ یحییٰ خان نے 1970 میں ون یونٹ ختم کیا تو صوبہ سندھ دوبارہ بحال ہوگیا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی دھرتی ماں کا جغرافیہ نہیں بدلتا۔ یہ جہاں ہے جیسی ہے، وہیں قائم و دائم رہتی ہے۔

بھارت نے آزادی کے فوراً بعد پہلا کام یہ کیا کہ جاگیرداری نظام کا خاتمہ کردیا جو تعلیم، ترقی اور تبدیلی کا دائمی دشمن ہوتا ہے۔ اس کے بعد بھارت میں گجراتی بولنے والوں اور بمبئی کے مراٹھی بولنے والوں کے درمیان بدترین لسانی فسادات ہوئے۔ بھارت کے سارے سیاسی رہنماؤں نے پارٹی پالیٹکس سے بالاتر ہوکر صرف ملک اور قوم کے مفاد میں اٹھارہ صوبے لسانی بنیاد پر قائم کردیے۔ وہ دن اور آج کا دن دوبارہ لسانی فسادات نہیں ہوئے۔ سب کے سب اپنے اپنے صوبوں کی تعمیر و ترقی میں جٹ گئے۔

اس کے بعد لگے ہاتھوں انتظامی بنیاد پر بڑے صوبوں کو دس صوبوں میں تقسیم کردیا مثلاً بھارتی پنجاب کو انتظامی بنیاد پر مزید تین صوبوں میں تقسیم کیا گیا یعنی تین مکمل صوبائی حکومتیں مقامی پنجابی اسپیکنگ موزوں منتخب افراد سے تشکیل پائیں۔ بھارت میں اتنی بڑی تبدیلیاں اس لیے بلا روک ٹوک عمل میں آئیں کہ انھوں نے سب سے پہلے تعلیم، ترقی اور تبدیلی کے دشمن جاگیرداری نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جب کہ پاکستان میں ہوا کا رخ دیکھ کر سارے جاگیردار اور وڈیرے اپنی آبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے گفٹ پیک بغل میں دبا کر مسلم لیگ میں گھس گئے اور بالادستی حاصل کرلی جن کے متعلق قائداعظم نے فرمایا تھا ’’مجھے معلوم ہے کہ میری جیب میں کھوٹے سکے بھی ہیں‘‘ آج کل بھارت میں ایک نیا صوبہ (لسانی بنیاد پر) تلنگانہ قائم ہونے جا رہا ہے۔

پاکستان میں اشرافیہ نے آئین ساز اسمبلی میں نئے صوبوں کو دھرتی ماں کی تقسیم کا جواز بتا کر منع نہیں کیا بلکہ اس کے قیام کو ناممکن بنادیا۔ شرط یہ عاید کردی کہ پہلے صوبائی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے اس کے حق میں قرارداد پاس کرے، اس کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ بھی۔ موجودہ قانون ساز اسمبلیوں پر ماضی کی آئین ساز اسمبلی کے بزرگواروں کی نئی نسل کا قبضہ ہے جو خود کتنا آئین کا احترام کرتے ہیں چند دن پہلے سپریم کورٹ کے (مورخہ 14 اکتوبر) کے دیے گئے ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے، جو کامیاب جمہوریت کے چھ سال کی بپتا ہے۔ ’’صوبائی حکومتیں آئین کی خلاف ورزی پر معافی مانگیں۔ جان بوجھ کر (بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے تعلق سے قانون سازی میں تاخیر کر رہی ہیں 15 نومبر کو بلدیاتی انتخابات کیسے ہوں گے؟‘‘

حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک پاکستان پر Status Quo کے پجاریوں اور لارا لپا جمہوریت کے کھلاڑیوں کا قبضہ ہے مقامی حکومتوں کا بلدیاتی نظام اور انتظامی بنیاد پر 20 نئے صوبوں کا قیام ناممکن ہے کیونکہ قانون ساز اسمبلیوں میں جاگیرداروں اور وڈیروں کی وہ چہل پہل اور گہما گہمی ہے لگتا ہے ملک کی 98 فیصد آبادی جاگیرداروں اور وڈیروں پر مشتمل ہے اور جو دو فیصد غربا و مساکین تھے کب کے فاقوں کے مارے مرگئے یا خودکشی کر لی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ کرپشن مآب VVIP’s پاکستان میں بلدیاتی نظام چلنے دینگے؟ جس میں ٹھیکے بے شمار، ٹھیکے داروں کی بھرمار اور لاوارث ترقیاتی فنڈز کی قانونی لوٹ مار آسان ہو؟

جہاں تک انتظامی بنیاد پر 20 صوبوں کے قیام کا سوال ہے تو تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ چار لسانی صوبوں پر قائم پاکستان کے 20 صوبے تو دور کی بات 5 صوبے نہیں بن سکتے کیونکہ تاریخ گواہ ہے پاکستان کے 5صوبے تھے چار رہ گئے۔ 56 فیصد آبادی رکھنے والے صوبے مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ کو مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے تسلیم ہی نہیں کیا۔ ان کو دیوار سے لگا دیا۔ صوبہ ملک (بنگلہ دیش) بن گیا۔ دھرتی ماں کے ٹکڑے ہو گئے یعنی (مشرقی پاکستان) پاکستان کے دائرے آئین اور قانون سے باہر ہوگیا صرف اس لیے کہ بنگالی جگتو فرنٹ کے بینر تلے انتخابات میں حصہ لے کر جوں ہی 1951 میں اقتدار میں آئے سب سے پہلے زرعی اصلاحات کے ذریعے حقیقی معنوں میں جاگیرداری نظام کو ختم کردیا۔ وہ اکثریت میں تھے اور مغربی پاکستان کی اشرافیہ خطرے میں۔

بڑے لوگ اس لیے بڑے ہوتے ہیں کہ چاہے ان کے پاس قارون کا خزانہ ہو لیکن وہ ایسا کام ہرگز نہیں کرتے جس میں دو پیسے کا نقصان ہو، ہر کام منصوبہ بندی کے تحت کرتے ہیں جس میں خاندانی منصوبہ بندی کو اولیت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس پاکستان کے چار صوبوں پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے بھی ’’بچوں کی‘‘ قلت ہے چنانچہ چند حکمران خاندان باری باری دبئی، برطانیہ، امریکا سے پاکستان پر حکومت کرنے آتے ہیں اور مال بناکر لوٹ جاتے ہیں کبھی الیکشن سے پہلے پتا لگتا ہے کہ شہزادہ ابھی سرکاری طور پر بالغ نہیں ہوا۔ دو سال باقی ہیں۔ بیچارے باپ کی شامت آجاتی ہے۔

ملک کے اندر چیف ایگزیکٹو کا عہدہ بھی سنبھالے اور ملک سے باہر دوروں کے بہانے بیرون ملک پھیلے ہوئے گلشن کے کاروبار کی دیکھ بھال بھی کرے۔ بعض بچوں کو بیرون ملک تعلیم کے دوران مغربی معاشرے کی ہوا لگ جاتی ہے وہ کسی کام کا نہیں رہتے۔ مال غنیمت کو رشوت اور کک بیک کو بھتہ سمجھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ بھلا جس خاندان میں ایسی نالائق اولاد ہو وہاں ہٰذا من فضل ربی کا کیا کام؟

قصہ مختصر۔ اس نظام کو چلانے کے لیے 20 شہزادے وزرائے اعلیٰ کے لیے، اس کے ساتھ ساتھ دیگر وزرا کے قلمدان و بے قلمدان، سٹی ناظمین وغیرہ کے لیے کھیپ کی کھیپ چاچے مامے، بھائی بھتیجے، خلیرے پھپھیرے، کچھ تیرے کچھ میرے، ایرے غیرے، نتھو خیرے کہاں سے آئیں گے؟ افسوس! صد افسوس! پولٹری فارم ٹیکنالوجی بھی ابھی ایڈوانس نہیں ہوئی۔ آخر اس ملک کا ہوگا کیا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔