خونِ خاک نشیناں (1)

اوریا مقبول جان  جمعـء 24 اکتوبر 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

بلوچستان میں پنجابیوں سے نفرت کا بیج کس نے بویا، کس کی سیاست نے اسے پالا پوسا اور پروان چڑھایا۔ کون لوگ تھے جنہوں نے وہاں بسنے والے لاکھوں لوگوں کے دلوں میں یہ تصور پختہ کیا کہ اس مملکتِ خداداد پاکستان میں صرف پنجابی ہی ایسی قوم ہے جو تمہارے وسائل کو لوٹ رہی ہے اور تمہارے علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔1980ء کے آغاز میں جب میں بلوچستان یونیورسٹی میں ایک استاد کی حیثیت سے وہاں پہنچا تو یہ نفرت درو دیوار سے عیاں تھی۔

کوئٹہ شہر چونکہ محمود خان اچکزئی صاحب کی پختونخواہ پارٹی کے کارکنوں کے نزدیکیِ علاقوں میں سے تھا، اس لیے شہر کی ہر دیوار پر ان کی پارٹی کی طرف سے ’’پنجابی استعمار‘‘ کے خلاف بڑے بڑے نعرے درج تھے۔ افغانستان میں روس کی افواج کو داخل ہوئے ابھی صرف چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ اسی لیے وہاں سے افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بہت کم تھا۔ ابھی صرف کچھ بڑے بڑے دولتمند افغان کوئٹہ میں آ کر آباد ہوئے تھے۔ بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں گھومتے ہوئے مجھے کبھی کسی دیوار پر ’’پنجابی استعمار‘‘ کے خلاف نعرے نظر نہیں آئے تھے۔ البتہ لوگ جب بھی گفتگو کرتے وہ پنجابی کے خلاف ایک عداوت کا اظہار ضرور کرتے۔

لیکن بروہی علاقے میں یہ عداوت اور نفرت بہت واضح تھی۔ میں اکثر سوچتا کہ بلوچ علاقے جن میں  نصیر آباد، مری، بگٹی، سبی، مکران اور لس بیلہ اور گوادر جیسے شہر موجود ہیں وہاں لوگوں میں اسقدر پنجابیوں سے نفرت نہیں پائی جاتی، جب کہ اکثر دیہی پشتون علاقوں میں بھی پنجابی سکون کے ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔ پھر کوئٹہ اور چند بروہی علاقوں میں نفرت شدید کیوں ہے۔ یہ نفرت بھی زیادہ تر سیاستدانوں کی تلخ گفتگو میں ملتی یا پھر یونیورسٹی اور کالج کے طلبہ کی حد تک جو اپنے آپ کو بلوچستان کی آزادی کا ہراول دستہ سمجھتے تھے۔ روزمرہ زندگی میں، کاروبار کرتے ہوئے، پڑوس میں زندگی گزارتے ہوئے یہاں تک کہ کبھی کبھار رشتہ داری کرتے ہوئے بھی اس کا اظہار نہ ہوتا۔ لیکن جیسے ہی کسی میڈیکل کالج یا انجینئرنگ یونیورسٹی کی سیٹ کا مقابلہ ہوتا تو تین صدیوں سے رہنے والے پنجابی بھی خوفزدہ سے ہو جاتے۔

میں نے ان خوفزدہ پنجابی لڑکوں کو ان داخلوں میں انٹرویو کے وقت بار بار سہمے ہوئے دیکھا ہے۔ یہی حالت نوکریوں کے دوران انٹرویو یا امتحان میں ہوتی۔ لیکن جب یہ ملازم ہو جاتے تو ایک دوسرے میں شیر و شکر ہو جاتے۔ کوئٹہ کے رہنے والے پنجابی جو کئی پُشتوں سے وہاں رہ رہے ہیں، ان کی اکثریت، پشتو، بروہی اور کسی حد تک فارسی ایسے بولتے ہیں جیسے یہ ان کی مادری زبان ہو۔ ان کے لباس، و ضع قطع اور یہاں تک کہ کھانوں وغیرہ سے بھی آپ کو یہ احساس نہیں ہو پاتا کہ یہ پنجابی ہیں۔ اس چوبیس سالہ عرصے میں جب میں وہاں مکین تھا، میں نے کسی ایک شخص کو بھی دھوتی کرتہ یا سر پر صافہ وغیرہ پہنے نہیں دیکھا۔ ان کی شادیوں تک میں بھنگڑا نہیں بلکہ پشتون ڈانس اتنٹر اور بلوچی ڈانس چاپ یا لیوا ہوتا تھا۔ وہ مخصوص کھانے جو پنجابیوں کے لیے مخصوص ہیں، نہ بازار میں میسر تھے اور نہ ان کے گھروں میں۔ چند پنجابی تھے جو کوئلے کی کانوں کے کاروبار کی وجہ سے بلوچستان کے پشتون اور بروہی علاقوں میں صاحب حیثیت اور مال دار نظر آتے، لیکن وہ بھی اپنا یہ کاروبار کسی علاقائی سردار، ملک، وڈیرے یا ٹکری کی آشیرباد اور مدد کے بغیر نہیں کر سکتے تھے۔

پورے صوبے میں پنجابیوں کی اکثریت مزدوری کرنے والے افراد کی تھی جو پنجاب کی غربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر وہاں رزق کمانے گئے تھے۔ ان میں حجام، مستری، مزدور، دھوبی، ترکھان، لوہار اور  خاکروب شامل تھے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو بلوچستان کے وسائل پر قبضہ کرنے کی اہلیت اور استطاعت رکھتا ہو۔ ایک بہت بڑی تعداد ان اساتذہ کی تھی جو اپنے گھر بار چھوڑ کر ایک مشن اور لگن کے ساتھ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں مدتوں سے علم کی شمع روشن کیے ہوئے تھے۔ ایسے علاقے جہاں پانی بھی میسر نہ تھا، جہاں بیمار پڑ جاؤ تو دوا بھی نہ ملتی تھی، وہاں یہ استاد ایک بوریا نشین درویش کی طرح اپنے گھر بار سے دور بلوچ، بروہی اور پشتون بچوں کو پڑھا رہے ہوتے۔

آج آپ کسی پچاس ساٹھ سال کے بلوچستان کے پڑھے لکھے شہری یا دیہاتی شخص کے سامنے ان استادوں کا تذکرہ چھیڑو تو اس کی آنکھوں میں آنسو آجائیں گے، وہ بے اختیار کہہ اٹھے گا ہم نے ان کو یہاں سے بھیج کر بہت بڑی غلطی کی۔ دوسری بڑی تعداد ان پنجابی نرسوں کی آج بھی وہاں موجود ہے جو ایسی جگہوں پر جا کر لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کر رہی ہوتی ہیں جہاں بلوچ وزیر اعلیٰ اور پشتون گورنر بھی شاید زندگی میں نہ گیا ہو۔ جہاں کوئی بلوچ، پشتون یا بروہی ڈاکٹر بھی عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر نہیں جاتا۔ ان نرسوں کو ان علاقوں میں تنہا زندگی گزارنے کی وجہ سے جس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میں اسے بیان کرنے لگ جاؤں قلم سے سیاہی کی جگہ آنسو ٹپکنے لگیں۔ کیا یہ سب لوگ بلوچستان کے وسائل اور اقتدار پر قبضہ کرنے گئے تھے۔ اس کے باوجود پنجابی کو بلوچستان میں قابل نفرت کس نے بنایا کہ پاکستان میں67 سالہ تاریخ میں شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو قتل کرنے کی رسم کا آغاز بلوچستان کے علاقے درہ بولان کے پیر غیب سے ہوا تھا۔

جن دنوں بلوچستان کے پشتون علاقوں میں محمود خان اچکزئی صاحب کی پشتونخوا پارٹی پنجابی استعمار کے خلاف نعرے لکھ رہی تھی، انھی دنوں افغان مہاجرین کی آمد کی وجہ سے بلوچ خوفزدہ تھے، اور انھوں نے دیواروں پر افغان بھگوڑوں کے خلاف نعرے لکھنے شروع کر دیے۔ لیکن یہ افغان مہاجر اسقدر محنتی تھے کہ وہ پورے بلوچستان میں ایک سستے مزدور کی حیثیت سے مقبول ہو  گئے۔ بلوچ اور بروہی علاقوں کی وہ بے آب و گیاہ زمینیں ان کی محنت سے آباد ہونے لگیں۔ گوادر سے لورالائی تک کوئی باغ ایسا نہ تھا جہاں یہ آباد نہ ہوئے ہوں۔ افغانستان سے آنے والے مال کے کاروبار پر ہزارہ برادری اور پشتونوں کی اجارہ داری تھی۔ کوئٹہ شہر میں یہ گنے چنے لوگ تھے جو اس کاروبار سے وابستہ تھے۔ مہاجر ین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو چمن کی سرحد سے روزانہ ہزارہ برداری کے افراد اور پشتون کوئٹہ میں آ کر آباد ہونے لگے، یہاں تک ہزارہ برادری کا اپنا ایک علاقہ ہزارہ ٹاؤن کی حیثیت سے کوئٹہ کے مغرب میں آباد ہو گیا جب کہ مشرق میں پشتون آباد کے نام سے مہاجر پشتونوں کا شہر آباد ہو گیا۔

پشتون اور ہزارہ یہاں کے لوگوں سے کاروباری اور خاندانی رشتوں کی وجہ سے ایسے ضم ہوئے کہ یہ تصور تک ختم ہو گیا کہ کون یہاں پانچ سال سے ہے اور کون پانچ سو سال سے کسی نے ان کو وسائل پر قابض، استعماری قوت یا ظالم کی حیثیت سے پیش نہ کیا۔ یہ الگ بات کہ ہزارہ ایک اور طرح کی قبائلی اور مسلکی جنگ میں الجھ کر مارے جانے لگے۔ لیکن پنجابی کا نام آج بھی وہاں نفرت کی علامت ہے۔ مدتوں اسے سرداروں نے نفرت کی علامت بتایا۔

وہ سردار جو اپنے زیرِ سایہ لوگوں کو آگ میں پھینک دیا کرتے تھے، (چاکر چاکرانی کا قصہ سب کو یاد ہو گا)۔ ان کی زبانیں مستقل یہی زہر اگلتی رہیں کہ پنجابی بلوچستان کے وسائل کو لوٹ کر یہاں قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ یوں انھوں نے اپنے قبیلے کے لوگوں کے دلوں میں پنجابیوں کا خوف بٹھا کر ان کو مرغی کے چوزوں کی طرح پروں میں سمیٹ لیا اور اپنی طاقت میں اضافہ کیا۔ اس لیے خواہ ایوب خان خیبر پختونخوا سے اور ذوالفقار علی بھٹو سندھ سے اقتدار میں آئے اور بلوچستان پر آرمی ایکشن کریں، گالی پنجابی کو دی جاتی رہی۔ وہ پنجابی جو نہ وہاں قبائلی طور پر منظم ہو سکتا تھا اور نہ ہی اس کی یہ روایت ایسی تھی۔ وہ تو اس دھرتی پر پنجاب کی غربت سے تنگ آ کر مزدوری کرنے گیا تھا۔ (جاری ہے۔)

نوٹ:ایک صاحب جگر کی بیماری کی وجہ سے ایک مستقل اذیت اور غربت کا شکار ہیں۔ روز مرہ کی زندگی سے رشتہ جاری رکھنا بھی مشکل ہے۔ میں موبائل نمبر لکھ رہا ہوں۔ کوئی صاحب ان کی مدد فرما کر اللہ کے ہاں اپنا اجر محفوظ کر سکتے ہیں۔0333-4345147

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔