عورتیں، پدر سری اور سرمایہ داری (آخری حصہ)

مہ ناز رحمن  جمعرات 30 اکتوبر 2014

کیا اس لیے عورت کو محکوم بنا لیا جائے اور گھر میں بند کر دیا جائے کہ قدرت نے اسے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے؟ ٹھیک ہے یہ فریضہ عورت کو سونپا گیا ہے لیکن کیا پیدائش کے بعد بچے کی دیکھ بھال کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اگر بچہ بیمار ہو تو کیا اس کا علاج کوئی اور نہیں کر سکتا، کیا بچے کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری کوئی اور نہیں اٹھا سکتا؟ جی ہاں، آپ صحیح سمجھے ماں کی طرح باپ بھی یہ ساری ذمے داریاں سنبھال سکتا ہے۔

یہ فریضے قدرتی نہیں بلکہ معاشرے نے عورت کو سونپے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کو تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایام حمل میں، بچے کو دودھ پلانے کے زمانے میں اور ایام حیض میں عورت کی طبیعت خراب ہو سکتی ہے، اس لیے وہ مرد کی طرح باہر کے کام نہیں کر سکتی اور یوں وہ مرد کی محکوم ہو جاتی ہے۔ ماریا میئس کی پدر سری پر تحقیق کے مطابق تاریخ کے ابتدائی دور میں مرد شکار کرنے جاتا تھا اور شکار کے لیے ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کی مہارت نے اپنے سماج میں اسے حاکمانہ حیثیت دلا دی۔ خانہ بدوش قبائل کی زندگی گزارتے اور گلہ بانی کرتے ہوئے مرد مویشیوں کی افزائش میں مصروف رہتے تھے اور عورتوں کو جڑی بوٹیاں جمع کرنے کا کم اہمیت والا کام سونپا گیا تھا۔ عورت پر نسل بڑھانے کے لیے دباؤ تھا اور مویشیوں اور عورتوں دونوں پر مرد کا کنٹرول بڑھ گیا تھا۔

مرد شکاری دوسرے قبیلوں کی عورتیں اور نو عمر لڑکے پکڑ لاتے تھے۔ اور یوں ان کی املاک اور طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ماریا مئیس اس بات پر زور دیتی ہیں کہ شروع میں عورتیں زرعی کام کرتی تھیں اور فاضل اناج جمع کرنے کے لیے برتن بھی بناتی تھیں۔ ابتدائی شکل کے زرعی آلات بھی عورتوں نے ہی بنائے تھے۔ اس وقت مرد کی شکاری سرگرمیاں ثانوی اہمیت رکھتی تھیں۔ دنیا میں مختلف سماج مختلف طرح سے پروان چڑھے۔ اس کا تعلق آب و ہوا، پودوں اور مویشیوں کی اقسام سے تھا۔ زراعت کے لیے ایک جگہ آباد ہونے کے لیے زرخیز میدان اور دریائی وادیاں درکار تھیں۔ زائد وسائل اور نجی ملکیت جمع کر کے ایک طبقہ دوسرے پر حاوی ہوتا چلا گیا۔ اور یہ طبقہ مردوں کا تھا۔ اینگلز کا کہنا ہے کہ نجی ملکیت کے ادارے کے وجود میں آنے سے عورتوں پر مظالم کا آغاز ہوا۔ یہ پدر سری نظام کا آغاز تھا۔

آسان لفظوں میں پدر سری سے مراد مرد کا دیگر اشیا کی طرح عورت کو کنٹرول کرنا اور اس پر ظلم کرنا ہے۔ یہ ظلم صرف اقتصادی شکل میں نہیں ہوتا بلکہ اس کا اظہار دیگر کئی طریقوں سے بھی ہوتا ہے۔ خاص طور پر عورتوں کے لیے استعمال کی جانے والی زبان، خاندانی رشتوں، اسٹیریو ٹائپس، مذہب اور ثقافت کے ذریعے بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ عورت پر ہونیوالے مظالم کیا شکل اختیار کرتے ہیں، اس کا انحصار اس پر ہے کہ وہ پہلی دنیا یا شمال کی باسی ہیں یا تیسری دنیا کی، اور وہ شہروں میں رہتی ہیں یا دیہاتوں میں۔ ڈینس کومین کے بقول ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے یا اپنے استحصال کا احساس ہو جانے کا مطلب لازمی طور پر پدر سری پر سوال اٹھانے کی شکل میں نہیں نکلتا، جیسے مزدور طبقہ سیدھے سیدھے سرمایہ داری کے خاتمے کا فیصلہ نہیں کرتا لیکن باس کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا شوہر کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی نسبت آسان ہوتا ہے۔

طبعیاتی (جسمانی فرق) اور نفسیاتی پہلوؤں (نرم فطرت، نرگسیت وغیرہ) سے قطع نظر سیاسی طور پر پدر سری طاقت کا ایک متحرک نظام ہے۔ جو مرد کی بالا دستی کے خلاف کی جانے والی کسی بھی تبدیلی کی کوشش کی مزاحمت کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب کہ فیمنسٹس یا خواتین کے حقوق کے حامی یہی تبدیلی لانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ یہ کوشش بنیادی طور پر وسائل، علم اور طاقت کے لیے کی جانے والی طبقاتی جنگ ہے۔ اس وقت دنیا کے بیس فی صد امیر ترین افراد دنیا کی تراسی فی صد دولت کے مالک ہیں جب کہ دنیا کے بیس فی صد غریب ترین افراد کو اس دولت کا ایک فی صد حاصل کرنے کے لیے بھی شدید جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔پدر سری کے مختلف نظریات کے مطابق سماج میں آنے والی تبدیلیوں سے قطع نظر مرد کی بالا دستی ویسی ہی رہی ہے۔

ان نظریات کے حامیوں کا خیال ہے کہ پدر سری ایک برقرار رہنے والا ادارہ ہے اس لیے اس کے خلاف جدوجہد سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد سے علیحدہ ہونی چاہیے۔ حیاتیاتی نظریات میں اس مسئلے کو صرف مرد اور عورت کے جسمانی فرق تک محدود کر دیا گیا ہے۔ لیکن زیادہ مضبوط دلائل وہ ہیں جو ہارٹ مین جیسے لوگ دیتے ہیں۔ یہ لوگ سرمایہ داری اور پدر سری کو دو مختلف قوتوں کے طور پر دیکھتے ہیں جو عورتوں کے خلاف متحد ہو گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پدر سری سماجی قوتیں سرمایہ دارانہ نظام سے پہلے سے موجود تھیں۔ لیکن یہ لوگ یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ سرمایہ داری سے پہلے والا خاندان اسی پرانی شکل میں سرمایہ دارانہ نظام میں شامل ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طبقاتی سماج میں پیداوار کی دو شکلیں ہیں۔ مزدور اور خاندان۔ ایک کا تعلق پیداوار کے طریقے سے اور دوسرے کا تعلق افزائش نسل سے ہے۔ اینگلز اپنی مشہور کتاب ، خاندان، نجی ملکیت اور ریاست کا آغاز، میں لکھتا ہے، تاریخ میں فیصلہ کن عامل زندگی کی پروڈکشن اور ری پروڈکشن کا رہا ہے۔

ایک طرف تو زندگی کے لیے ضروری وسائل یعنی خوراک، لباس اور مکان اور پیداوار کے لیے درکار آلات کی فراہمی ہے۔ اور دوسری طرف خود انسانوں کی پیدائش یا افزائش نسل ہے۔ کسی مخصوص تاریخی دور میں انسان کس سماجی تنظیم کے تحت رہتے ہیں، اس کا انحصار ان دونوں عوامل پر ہے۔ اینگلز کی رائے میں طبقاتی سماج کی ترقی کے ساتھ سرمایہ داری اور پدر سری کی بقائے باہمی ضروری نہیں۔ اور ہمارے سامنے ایک ایسا سماج آتا ہے جس میں خاندانی تعلقات پورے طور پر ملکیتی تعلقات کے تابع ہوتے ہیں۔ جب سرمایہ داری ایک عالمی نظام کے طور پر ترقی کرتی ہے تو یہ پہلے سے موجود خاندان سمیت سارے اداروں پر چھا جاتی ہے اور انھیں تبدیل کر دیتی ہے۔ خاندان کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔

جاگیر داری سے سرمایہ داری کی طرف تبدیلی کے دوران خاندان خود تبدیل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ جاگیر داری نظام میں خاندان میں عورتیں اپنی روزی کے لیے مرد پر انحصار کرتی ہیں جب کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اجرتی مزدوری کی ضرورت ہوتی ہے بہر حال خاندان کا ادارہ ہمیشہ سے برقرار رہا ہے اور انسانی نسل کی افزائش ہوتی رہی ہے۔ حیاتیاتی عمل تو وہی رہتا ہے لیکن پیداوار کے سماجی رشتے پورے طور پر تبدیل ہو جاتے ہیں۔

حکمران طبقے اپنے مفادات کے مطابق خاندان کی نئی شکل تخلیق کرتے ہیں۔ اور سرمایہ داری کا تخلیق کردہ خاندان پیداوار کے سرمایہ داری طریقے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ بہرحال اب سرمایہ داری اپنے پہلے سے بھی زیادہ بد صورت مرحلے نیو لبرل ازم میں داخل ہو چکی ہے، اب تحریک نسواں کے ترقی پسند کارکنوں کو کس طرح جدوجہد کرنا ہو گی اس کے لیے ایک الگ مضمون درکار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔