جب دشمن کا فوجی مدد گار بن گیا

مقبول گوہر  اتوار 30 ستمبر 2012
ممتاز سول سرونٹ اور افسانہ نگار کے طور پر مسعود مفتی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔  فوٹو : فائل

ممتاز سول سرونٹ اور افسانہ نگار کے طور پر مسعود مفتی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ فوٹو : فائل

ممتاز سول سرونٹ اور افسانہ نگار کے طور پر مسعود مفتی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اور مشرقی پاکستان کے حوالے سے لکھی گئی ان کی تحریروں کا ایک زمانہ مداح ہے۔

’’بھلا نہ سکے‘‘ کے تحت انہوں نے کہا:

ویسے تو دشمن کی قید بھی ناقابلِ فراموش ہوتی ہے، مگر اس کے دوران بھی کسی اچھے یا بُرے واقعے کی یاد ذہن میں ہمیشہ اٹکی رہتی ہے۔ آج ایک ایسی ہی یاد سنا رہا ہوں۔

1971 کی جنگ میں ہماری شکست کے بعد مشرقی پاکستان سے تقریباً ستر ہزار فوجی اور بائیس ہزار سویلین جنگی قیدی بنائے گئے۔ جنہیں ہندوستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے کئی کیمپوں میں تقریباً دو برس تک محبوس رکھا گیا۔

جنیوا کنونشن کے مطابق فوجیوں کو تو جنگی قیدی بنایا جاتا ہے مگر غیر فوجی لوگوں کو جنگی قیدی نہیں بنایا جا سکتا اور انہیں سرحد پار بھیج دیا جاتا ہے، لیکن شہریوں کو قیدی بنا کر ہندوستان، جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ ہمارا چھوٹا سا سویلین کیمپ بریلی میں واقع تھا۔ جہاں چالیس کے قریب وہ افسران قید تھے، جنہیں جنرل یحییٰ کی 25 مارچ 1971 کی فوجی کارروائی کے بعد مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان تبدیل کیا گیا تھا۔

قید کے دوران ہمارے ساتھ دشمن کے سلوک کو چند الفاظ میں یوں سمویا جاسکتا ہے کہ ان کی ہر حرکت سے وہ گہرا تعصب جھلکتا تھا، جو قیامِ پاکستان کی بنیاد بنا تھا اور جس نے اٹھائیس برس تک قائداعظم ؒکو کانگریس میں ہندو مسلم اتحاد کا نقیب بنے رہنے کے بعد بھی ہندو ذہنیت سے اس حد تک مایوس کر دیا تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کی جدوجہد کی اور پاکستان حاصل کیا۔
جنیوا کنونشن کے مطابق فوجیوں کے ہر کیمپ میں ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان ہوتی تھی اور ہر سپاہی کو تقریباً 50 روپے، ہر جے سی او کو، نوے روپے اور ہر افسر کو ایک سو چالیس روپے ماہ وار دیے جاتے تھے۔

بین الاقوامی قانون کے تحت چوںکہ سویلین لوگوں کو جنگی قیدی بنایا ہی نہیں جا سکتا، اس لیے جنیوا کنونشن میں ان کے لیے کسی کیمپ یا الائونس کا ذکر نہیں تھا۔ اس کا فائدہ ہندوستان نے یوں اٹھایا کہ ہمارے سویلین کیمپ میں ایک چھوٹی سی دکان تو قائم کر دی، مگر کسی الائونس کی بجائے چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس، کمشنر اور صوبائی سیکرٹریوں سمیت ہر شخص کو صرف پانچ روپے ماہ وار دیے جاتے، جن سے ہم بہ مشکل ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ یا بلیڈ وغیرہ خرید سکتے تھے۔

تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد میں نے کچھ لکھنے کا پروگرام بنایا، تو پہلے تو داڑھی رکھ کر بلیڈوں کے اخراجات بچائے۔ پھر آدھا دستہ کاغذ خریدنے کے لیے کیمپ کی دکان پر جا پہنچا۔ وہ بار بار بازار سے لانے کے کھوکھلے وعدے کرتے رہتے اور میں ہر دوسرے تیسرے دن چکر لگا کر ان سے تکرار کرتا رہا۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ دُکان کا عملہ اور آس پاس تعینات بندوق بردار فوجی پہرے دار مجھے دیکھتے ہی آپس میں طنزیہ مسکراہٹوں کے تبادلے کرنے لگتے۔

بالآخر اپنی طلب کی شکایت لے کر میں کیمپ کمانڈنٹ کے پاس چلا گیا، مگر مسئلہ حل کرنے کی بجائے وہ پہلے تو آدھ گھنٹے تک میرا انٹرویو لیتے رہے کہ مجھے کاغذ کس لیے چاہییں اور بعد میں کہنے لگے کہ کیمپ میں کاغذ خریدنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اُس وقت تک پاکستان میں میری تین کتابیں شائع ہو چکی تھیں، مگر میں نے ان کا کوئی ذکر نہیں کیا اور یہی کہتا رہا کہ کیمپ میں ہمیں جو اخبارات اور کتابیں ملتی ہیں، ان سے وقتاً فوقتاً نوٹس بنانے کی ضرورت رہتی ہے، مگر وہ قائل نہ ہوئے اور اس انٹرویو کے بعد میرا لکھنے کا پروگرام بالکل ٹھپ ہو گیا۔ چناںچہ میں نے بلیڈ خرید لیے اور داڑھی صاف کر دی۔ دو چار ماہ انتہائی بوریت اور کرب میں گزرے۔

ضمناً یہ بھی عرض کر دوں کہ سرچ لائٹوں، خاردار تاروں کے تین حصاروں میں غرّاتے ہوئے کتوں اور سیکیوریٹی کے دیگر سخت اقدامات کے علاوہ بھی مسلح فوجی پہرہ داروں کی بڑی تعداد کیمپ میں چھائی رہتی تھی۔ ان میں سے سکھوں کو تو ہم حُلیے سے پہچان لیتے تھے، لیکن اِکا دُکا مسلمان فوجی اگر کہیں ہوتے تھے تو ہمیں اندازہ نہ ہوتا تھا، کیوں کہ ان کی اپنی عافیت بھی اسی میں تھی کہ وہ ہم سے دور دور اور لاتعلق رہیں۔ سکھ فوجی اپنے ضابطے کے یقیناً پابند تھے، مگر ان کی نظروں میں ہمارے لیے وہ حقارت ہرگز نہ تھی جو ہندو فوجیوں کی نظروں اور باتوں سے واضح طور پر جھلکتی تھی۔

کیمپ میں ہماری حاضری دن میں دو دفعہ لگتی تھی۔ اس کا انداز یہ تھا کہ ہر قیدی صبح اور شام اپنے اپنے کمرے کے دروازے سے چند قدم آگے لان میں کھڑا ہو جاتا اور ہندوستانی فوجیوں کی مسلح ٹولی ہماری گنتی کرتی سامنے سے گزر جاتی۔ بعض دفعہ شام کی حاضری کے وقت ہمیں گھنٹہ بھر سے بھی زیادہ کھڑے رہنا پڑتا، تاکہ اس دوران ان کی کئی مسلح ٹولیاں ہمارے خالی کمروں کی تلاشی لے سکیں۔ مذکورہ تمام تفصیلات تو محض ایک پس منظر بناتی ہیں، اس واقعے کا جو پچھلے چالیس برس سے میرے ذہن میں اٹکا ہوا ہے۔ درحقیقت یہ واقعہ نہیں بل کہ معمّا ہے۔

ایک شام ہم سب حاضری کے لیے اپنے ا پنے کمروں کے سامنے لان میں صف آراء تھے۔ گنتی ہو چکی تو ہمیں مزید انتظار کرنے کے لیے کہا گیا اور کمروں کی تلاشی شروع ہو گئی۔ کافی وقت گزرنے کے بعد جب شام کا دھندلکا رات کے اندھیرے میں ڈھل گیا تو ہمیں کمروں میں واپسی کی اجازت ملی۔ کیمپ کے چاروں طرف متعدد سرچ لائٹوں کی وجہ سے کمرے میں مکمل تاریکی کبھی نہ ہوتی تھی اور اس اجلی تاریکی میں مجھے یوں لگا جیسے میرے بستر پر کچھ پڑا ہے۔ بجلی جلا کر دیکھا، تو وہاں کچھ سادہ کاغذ پڑے ہوئے تھے اور عجلت میں رکھا ہوا تکیہ انہیں جزوی طور پر ڈھانپ رہا تھا۔

تھے تو وہ چند ہی صفحے مگر میری رات کے لیے تو وہ قارون کا خزانہ تھے۔ میں حیران و ششدر کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ صاف ظاہر تھا کہ تلاشی لینے والوں میں سے کسی نے یہ کرم کیا ہے، جو غالباً دکان کے آس پاس ڈیوٹی کی وجہ سے میری محرومی سے واقف تھا، مگر کون؟؟؟ کوئی مسلمان فوجی ہے؟ یا سکھ فوجی ہے؟ یا پھر کوئی انسان دوست ہندو فوجی ہے؟ نہ معلوم کون؟

میں نے فوراً چیف سیکرٹری کو پورے واقعے کی اطلاع دی اور دو چار قریبی ساتھیوں کو بھی سرگوشیوں میں مطلع کیا۔ پھر ہماری کرید دنوں، ہفتوں بل کہ مہینوں قیاس آرائیاں کرتی رہی، مگر کوئی کام یابی نہ ہوئی اور ہم کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔

اِن سادہ اوراق پر میری کئی تحریروں نے جنم لیا۔ کیمپ کی تصاویر بنیں۔ کارٹون اور ساتھیوں کے پورٹریٹ بنے اور جس انداز میں انہیں چھپا کر پاکستان لا سکا۔ اس کی تفصیل میری کتاب ’’چہرے اور مہرے‘‘ میں درج ہے۔ جو 2011 میں شایع ہوئی، گو اس کے موضوع میں اس واقعے کے اندراج کی گنجائش نہ تھی۔

مجھے اس نادیدہ محسن کا بالکل پتا نہیں چل سکا، مگر میں اُسے بھول بھی نہیں سکا۔ انتہائی برے حالات میں دو برس گزارنے والے زخمی ذہن میں اگر ایک بھی اچھی یاد اٹکی رہ جائے تو خدا کی مدد کے علاوہ انسان کی انسانیت پر بھی یقین آنے لگتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔