پی پی کا قاتل کون؟

اقبال خورشید  جمعرات 6 نومبر 2014

کل تک حال ہمارا پتلا تھا۔ اپنے شہر، اپنے صوبے کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ ایک تو بدامنی، اوپر سے طوفان کی بازگشت۔ دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔ وہ تو شکر ہو اسپیکر سندھ اسمبلی، آغا سراج درانی کا، جنھوں نے ہمارا حوصلہ بڑھایا۔ جینے کا نیا کلیہ سکھایا۔ جس سمے وہ یہ فریضہ انجام دے رہے تھے، چہرے پر جید اساتذہ والا جلال نہیں، درویشوں سی سادگی تھی۔ بھلے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ کہنے لگے، بھائیو، کراچی میں طوفان نہیں آنے کا، غازی بابا کا مزار جو ہے۔ اس گمبھیر مسئلے سے نمٹنے کے لیے طوفان کی جنس کا تعین کرنے کی بھی کوشش ہوئی۔ یہ مشورہ دیا گیا کہ جسے زیادہ خطرہ ہے، اندرون سندھ چلا جائے۔

واہ جی، چٹکی بجاتے ہی مسئلہ حل کر دیا۔ صدقے واری جاؤں۔ ویسے پیپلزپارٹی میں گیانیوں کی کمی نہیں۔ ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں۔ کچھ برس پہلے ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے عزت مآب یوسف رضا گیلانی نے، پاکستانی عوام میں بڑھتی بے چینی کی بابت اٹھائے ایک سوال کا بہ طور وزیراعظم ایسا کرارا، چٹخارہ جواب دیا کہ پروگرام میزبان پر سکتا طاری ہوگیا۔ فرماتے تھے؛ اگر عوام اتنے ہی بے چین ہیں، تو پاکستان میں کاہے کو ٹھہرے ہیں، بوریا بستر اٹھائیں، اور نکل پڑیں۔ آغا سراج درانی نے دراصل گیلانی صاحب کے اسی تاریخ ساز بیان کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ روٹی کی جگہ کیک کھانے کا مشورہ دینے والی بڑی بی کی روح آج بہت مسرور ہو گی۔

تو ہم غازی بابا کے مزار اور ایک بے بدل، بیش قیمت مشورہ کی بات کر رہے تھے، جو اس اسمبلی میں پیش کیا گیا، جسے ہم میں سے چند (صرف چند) ملک کا اہم ترین ادارہ گردانتے ہیں، جو اس آئین کا اطلاق یقینی بناتا ہے، جسے ہم میں سے چند مقدس سمجھتے ہیں، اور اس معاملے میں درگزر سے کام لیتے ہیں کہ ایک سابق آمر اسے کاغذ کا ٹکڑا کہا کرتا تھا۔ ویسے اسپیکر صاحب نے، اللہ انھیں صحت دے، ہمارے درجنوں مسئلے حل کر دیے۔

جیسے اب ہمیں یہ خوف نہیں کہ فرقہ واریت کا عفریت اس صوبے کا نگل لے گا کہ یہاں لعل شہباز قلندر جیسے بزرگ کا مزار ہے، جو شیعہ سنی؛ دونوں کے لیے یکساں قابل احترام۔ یہاں کے رجعت پسند کبھی موسیقی پر روک نہیں لگا سکیں گے۔ شاہ لطیف کا ٹیلہ یہیں ہے یارو۔ اور یہاں کبھی بدتہذیبی کے قہقہے سنائی نہیں دیں گے کہ تہذیب کا ایک عظیم مرکز، موئن جودڑو کبھی یہاں ہوا کرتا تھا۔

موئن جودڑو سے یاد آیا، کچھ روز قبل شاہ صاحب نے کچی شراب سے ہلاک ہونے والوں کے حق میں ایک بڑا ہی جذباتی بیان دیا تھا۔ ان کی انسان دوستی دیکھ کر بہت سی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ ویسے سائیں کے بارے میں بدخواہوں نے طرح طرح کے لطیفے مشہور کر رکھے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ مخالفین کی سازش ہے، جو یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ وزیراعلیٰ کے منصب کے لیے کچھ مناسب نہیں۔ جناب، اگر ایسا ہوتا، تو کیا پی پی کی باشعور قیادت، جو آج کل ہمیں پاکستان کے اگلے وزیر اعظم سے متعارف کروانے کی کوششوں میں جتی ہے، شاہ صاحب کو بار بار، لگاتار یہ منصب سونپتی؟ کوئی تو بات ہو گی۔ ہم نہ سمجھ سکے تو کیا ہوا، ہمارے  بچے ضرورسمجھ جائیں گے۔ یقین ہے، جب وہ ووٹ ڈالنے کے قابل ہوں گے، سائیں تب بھی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ جیے بھٹو!

آج کل پی پی اور اس کے مخالفین میں نوک جھونک جاری ہے۔ پچھلی بار ذوالفقار مرزا نے ترپ کے پتے کا کام کیا تھا۔ بڑے منجھے ہوئے سیاست داں ہیں۔ بولتے بھی خوب ہیں۔ ابھی تو خاموش ہیں۔ ہاں، اگر الیکشن کا ماحول بن گیا، تو پھر جلوے بکھیرنے پہنچ جائیں گے۔

لوگ بڑے پاجی ہیں۔ اعتراض کرتے ہیں کہ پی پی کب سے حکومت میں، مگر اندرون سندھ کتنے ہی گاؤں دیہات ایسے، جہاں زندگی منجمد۔ رتی بھر ترقی نہیں ہوئی۔ ممکن ہے ایسا ہو، مگر صاحبو اس کے پیچھے بدنیتی نہیں، حکمت ہے۔ یہ اس دھرتی کے عظیم تہذیبی ورثے (وہی موئن جو دڑو اور ہڑپہ وغیرہ) سے خود کو جوڑنے رکھنے کی ایک مخلص کوشش ہے۔

ویسے ایک بات کا ہمیں دکھ ہے۔ کل تک پی پی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی، مگر اس وقت بہ ظاہر ایک صوبے تک محدودہوگئی ہے۔ پھر سندھ میں حریفوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کوئی بھٹو کا وارث بھٹو کو ٹھہراتا ہے۔ کوئی نئے صوبوں کا نعرہ لگاتا ہے۔ ادھر پی ٹی آئی والے بھی سندھ کو ہدف بنانے کا ارادہ ظاہر کرچکے ہیں۔ قادری صاحب کے کچھ ہزار مرید تو ادھر بھی ہوں گے۔ پھر ہر رکن تو مخلص نہیں ہوتا ناں۔ کچھ’’ فارورڈ بلاک‘‘ والے بھی ہوتے ہیں۔

خیر، ہم قنوطیت کیوں پھیلائیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ بھٹو صاحب کی یہ جماعت، جس نے اپنے قائد کا نام تو زندہ رکھا، مگر منشور پر زیادہ توجہ نہیں دی، خوب پھلے پھولے۔ ماضی میں شاید وقت نہ ملا ہو، مگر اب کبھی اقتدار ملے، تو روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ ضرور پورا کرے۔ مرکز میں پاؤں جمائے، تو سندھ کے لیے، جہاں تھر نامی ایک بستی بھی ہے، کچھ سنجیدہ اقدامات کرے، کچھ ہماری رنجیدگی کم ہوا۔

بے شک یہ صوفیوں کی سرزمین ہے، لیکن اگر ہر کام ان ہی بزرگوں کے وسیلے اور برکت سے ہونا ٹھہرا، تو پھر ادھر صوبائی حکومت کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔ ہاں، بھٹو زندہ ہے، مگر عوام کا معاملہ دِگر ہے۔ کسی کو بھوک ستا رہی ہے، کسی کو بدامنی۔ بے نظیر شہید تمام صوبوں کو جوڑنے والی زنجیر تھیں۔ ایک حقیقی قائد کی ہونہار بیٹی۔ اب ان جیسا کوئی نہیں۔ ادھر پنجاب میں بھی نہیں۔ بی بی کے قاتل تو نہیں پکڑے جاسکے۔ وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔ البتہ ہم پی پی کے قاتلوں کو روک سکتے ہیںکہ ابھی یہ سانحہ مکمل نہیں ہوا۔

جلدی کیجیے، کیوں کہ وقت کا المیہ یہ ہے کہ وہ کبھی ٹھہرتا نہیں، اور ایک بار ہاتھ سے نکل جائے، تو پھر کبھی واپس نہیں آتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔