ڈیفنی شیلڈرک..... جانوروں کی محافظ

مرزا ظفر بیگ  اتوار 30 ستمبر 2012
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

ڈیفنی شیلڈرک کو ابھی ابھی چار ٹن وزنی ہتھنی نے اپنی سونڈ میں اٹھاکر زمین پر پٹخا تھا۔

جس سے ڈیفنی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ مگر نہ تو اسے غصہ آیا اور نہ ہی وہ خوف زدہ ہوئی، بلکہ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔ ایلینر نام کی ایک ہتھنی اس کی پرانی دوست تھی، جس کے ساتھ ڈیفنی نے کینیا میں ہاتھیوں کے یتیم خانے میں کئی برس گزارے تھے۔ پھر ایلینر کو واپس جنگل میں چھوڑ دیا گیا تھا، اسی لیے ڈیفنی بے فکری سے اس ہتھنی کے پاس گئی اور دوستانہ انداز میں اس کے کان کو تھپ تھپایا، مگر ہتھنی کو اس کی یہ جسارت پسند نہیں آئی اور اس نے ڈیفنی کو سونڈ میں اٹھاکر زمین پر پھینک دیا۔

اس واقعے کے بارے میں ڈیفنی شیلڈرک خود بتاتی ہے:’’اب وہ طیش کے عالم میں میری طرف بڑھ رہی تھی۔ میں سمجھ گئی تھی کہ میرا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک لمحے کے لیے ہر طرف مکمل سکوت طاری ہوگیا ہو۔ پھر میں نے آہستگی سے اپنی آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ہتھنی نے اپنے لمبے دانت میرے جسم اور زمین کے درمیان رکھے ہوئے ہیں۔ وہ شاید مجھے اٹھنے میں میری مدد کرنے کی کوشش کررہی تھی۔

پھر اس نے اپنی سونڈ بڑی نرمی اور ملائمت سے میرے جسم پر پھیری جیسے مجھے تسلی دے رہی ہو۔ اس کے چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں میرے لیے محبت تھی۔ اس کے بڑے بڑے کان سیدھے اٹھے ہوئے تھے، غالباً اسے میری بے بسی کا اندازہ تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے یہ احساس ہوا کہ میں اصل میں ان جانوروں سے پیار کرنے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہوں اور ان کا پیار ہی میری زندگی ہے۔ یکایک مجھے اپنی ہڈیوں میں شدید درد کا احساس ہوا۔ نہ جانے کون کون سی ہڈی ٹوٹی تھی۔‘‘

اس واقعے کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم اپنے قارئین کو ڈیفنی شیلڈرک کے بارے میں کچھ بتادیں۔
ڈیفنی شیلڈرک عالمی شہرت یافتہ ’’ڈیوڈ شیلڈرک وائلڈ لائف ٹرسٹ‘‘ چلاتی ہے۔ اسے ملکۂ برطانیہ نے جانوروں کے لیے اس کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں Dame کا خطاب دیا ہے۔ یہ خطاب ’’سر‘‘ کے مساوی ہوتا ہے۔ ڈیفنی نے ساری زندگی معصوم اور بے ضرر جانوروں کی رفاقت میں گزاری ہے۔ اس لیے وہ ان کے مزاج کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے اور اسے اس بے زبان مخلوق سے دوستی پر فخر ہے۔

اس وقت ڈیفنی کی عمر 77سال سے بھی زیادہ ہے۔

وہ نیروبی نیشنل پارک میں ایک لکڑی کے بنگلے میں رہتی ہے اور مسلسل اپنے کام میں مصروف ہے۔ اس کی پرورش کینیا کے ایک ایسے فارم میں ہوئی تھی جہاں دنیا کے ہر طرح کے جانور موجود تھے۔ پھر ڈیفنی شیلڈرک کی ملاقات ڈیوڈ شیلڈرک سے ہوئی اور وہ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے۔ ڈیوڈ کینیا میں جنگلی حیات کے سب سے بڑے ریزرو Tsavoکا اسمارٹ وارڈن تھا۔ چوں کہ دونوں ہی جنگلی جانوروں کی محبت میں مبتلا تھے۔ اس لیے یہ محبت ان دونوں کے لیے قریب ہونے کا سبب بن گئی۔

ان دونوں نے مل کر ہاتھیوں اور گینڈوں کا تحفظ کیا اور انہیں دانت اور سینگ کے حصول کے لیے غیرقانونی شکار کرنے والوں سے بچایا۔ انہوں نے ہاتھیوں کا ایک یتیم خانہ بھی قائم کیا، جہاں ہاتھیوں کے ایسے بچوں کی پرورش کی جاتی تھی جو اپنی مائوں سے محروم ہوچکے ہوتے تھے۔

ڈیفنی شیلڈرک نے اپنی کتاب میں لکھا ہے:’’شیلڈرک فیملی میں صرف ہاتھیوں کو ہی خوش آمدید نہیں کہا جاتا تھا، بلکہ یہاں ہر یتیم جانور کو پناہ دی جاتی تھی۔ اسی لیے ہمارے فارم پر ہر قسم کے جانوروں نے اپنی زندگیاں بسر کیں۔ ان میں بارہ سنگھے بھی تھے اور mongoose (نیولے) بھی، یہاں تک کہ ہمارے ہاں گریگوری پیک نام کا ایک چوزہ بھی تھا اور ایک یتیم زیبرا بھی۔‘‘

اب ہم تھوڑا سا پیچھے کی طرف چلتے ہیں اور اس زمانے کی بات کرتے ہیں جب ڈیفنی ایک 17سالہ نوجوان لڑکی تھی اور ہائی اسکول میں پڑھتی تھی۔ وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ Tsavo کی سیر کرنے آئی تھی۔ وہ دونوں Mudanda Rock گئے۔ یہ ایک بہت وسیع و عریض تالاب تھا جہاں ہر روز ہاتھیوں کے ریوڑ پانی پینے اور ایک دوسرے سے ملنے آتے تھے۔

وہاں ہالی وڈ کا فلمی عملہ بھی ایک خوب صورت مقام پر شوٹنگ کررہا تھا۔ جب ڈیفنی وہاں موجود چٹان پر چڑھی تو اس نے پہلی بار ڈیوڈ کو دیکھا، وہ اپنے دو ساتھیوں انتھونی اور دیناہ کے ساتھ باتیں کررہا تھا۔ ڈیفنی نے ڈیوڈ کو دیکھا تو ڈیوڈ نے اس نئی اور انجان لڑکی کو اشارے سے بتایا کہ وہ ذرا فاصلے پر رہے، کیوں کہ کچھ ہی دیر بعد شوٹنگ شروع ہونے والی ہے۔ اس کے اشارے پر ڈیفنی کچھ دور رک گئی اور نیچے فلمائے جانے والے منظر کو غور سے دیکھنے لگی۔

یکایک ڈیفنی کے پیر کے نیچے سے ایک پتھر پھسل کر نیچے کی طرف لڑھکنے لگا جس سے خاصی تیز آواز ہوئی۔

اس موقع کے حوالے سے ڈیفنی بتاتی ہے:’’اس کے بعد ہر ہاتھی گویا اپنی جگہ جم کے رہ گیا۔ ان کے کان اس طرح کھڑے ہوگئے جیسے انہوں نے کسی بڑے خطرے کو اپنے سروں پر منڈلاتے محسوس کرلیا ہو، پھر وہ پلٹے اور افراتفری کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ شوٹنگ رک چکی تھی۔ فن کاروں نے اپنا کام روک دیا تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت اپنی جگہ ٹھہر گیا ہو۔ وہاں موجود ہر فرد کی نظریں مجھ پر مرکوز تھیں۔ مجھ پر تو گھڑوں پانی پڑگیا تھا، کیوں کہ میں خود کو ان سب کا مجرم سمجھ رہی تھی۔ پھر میں نے ڈیوڈ کو اپنی طرف آتے دیکھا تو سمجھ گئی کہ اب میری خیر نہیں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اس کی طرف دیکھا تو حیران رہ گئی، کیوں کہ وہ خفا ہونے کے بجائے مسکراتی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔‘‘

بہرحال بات آئی گئی ہوگئی۔ ڈیفنی خواہ مخواہ پریشان تھی، کیوں کہ ڈیوڈ نے نہ اس سے کچھ کہا اور نہ اسے ڈانٹا، بلکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس واقعے میں ڈیفنی نے جان بوجھ کر کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ یہ سرسری سی ملاقات بڑی اہم ثابت ہوئی، کیوں کہ ڈیوڈ کے دل کی تو کسی کو خبر نہیں، مگر ڈیفنی اس دوران اس کی محبت کی اسیر ہوچکی تھی۔

ڈیوڈ سے ڈیفنی کی دوسری ملاقات پانچ سال بعد اس وقت ہوئی جب ڈیفنی کی شادی بل نامی نوجوان سے ہوچکی تھی۔ اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ڈیوڈ اس کے شوہر بل کا نیا باس تھا۔

بل نے Tsavo نیشنل پارک میں جانوروں کے غیرقانونی اور ناجائز شکار کی روک تھام کے لیے قائم کردہ ٹیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔

اس حوالے سے ڈیفنی بتاتی ہے کہ جب ہم دونوں میاں بیوی (بل اور ڈیفنی) وہاں پہنچے تو ہمیں دی جانے والی رہائش گاہ تیار نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے شیلڈرک نے ہمیں یہ پیشکش کی کہ جب تک ہمارا گھر بن کر تیار نہیں ہوجاتا، ہم اس کے گھر کے گیسٹ روم میں رہ سکتے ہیں۔‘‘

یہاں آنے کے بعد ڈیفنی کے دل میں ڈیوڈ کی محبت ایک بار پھر بیدار ہونے لگی۔ نہ جانے کیوں اسے یہ شخص پہلے ہی دن سے بہت اچھا لگا تھا، اسی لیے وہ اسے اب تک بھول نہیں پائی تھی۔ حالاں کہ اسے اپنی سوچ پر شرمندگی بھی ہوتی تھی، کیوں کہ ایک تو وہ اب بل کی امانت تھی، اس کی بیوی تھی اور دوسرے ایک پیاری سی بیٹی جل کی ماں بھی تھی، اس کے باوجود وہ خود کو ڈیوڈ کے سحر سے آزاد نہ کرسکی۔

ڈیوڈ نے پہلی ہی رات کو بل اور ڈیفنی کو اس پارک میں موجود جانوروں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ Tsavo کینیا میں سب سے بڑا اور دور دراز ریزرو ہے۔ رقبے میں یہ ویلز کے برابر ہے۔ یہاں گشت کرنا خاصا مشکل ثابت ہورہا ہے۔

ڈیوڈ کی عمر 37سال تھی اور وہ ڈیفنی سے عمر میں خاصا بڑا تھا۔ جب ڈیفنی کو یہ پتا چلا کہ ڈیوڈ حال میں ہی اپنی بیوی سے علیحدہ ہوا تھا تو اس کے دل میں ڈیوڈ کے لیے اور بھی زیادہ ہمدردی پیدا ہوگئی۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈیوڈ کے دو بچے بھی تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈیفنی اپنے نئے گھر کے بے مثال حسن میں تو گرفتار ہوئی، ساتھ ہی ڈیوڈ کے عشق میں بھی مبتلا ہوگئی۔

وہ لکھتی ہے:’’جب بھی میں اسے دیکھتی تو میرے اندر ہلچل سی مچ جاتی۔ میں بار بار خود کو سمجھاتی کہ میں ایک شادی شدہ عورت ہوں اور ایک بیٹی کی ماں بھی ہوں، اس لیے مجھے خود پر قابو رکھنا چاہیے اور اپنی حد میں رہنا چاہیے، مگر میرا دل میرے اختیار میں کب تھا؟‘‘

کچھ عرصے بعد ڈیفنی دفتر میں کاغذائی کارروانی میں ڈیوڈ کی مدد کرنے لگی جس سے اسے ڈیوڈ کے مزید قریب ہونے کا موقع مل گیا۔

وہ کہتی ہے:’’کبھی کبھی میں فطرت کا مطالعہ کرنے کے لیے ڈیوڈ کے ساتھ چہل قدمی کرنے چلی جاتی تھی۔ اسے جنگل اور جنگلی حیات کی بھرپور معلومات تھیں۔ اس نے مجھے اس بے زبان مخلوق کے بارے میں ایسی ایسی باتیں بتائی تھیں کہ میں حیران رہ گئی تھی۔‘‘

غرض اس طرح ڈیفنی، ڈیوڈ کے قریب ہوتی چلی گئی۔ لیکن اسے کچھ پتا نہیں تھا کہ اس یک طرفہ محبت کا انجام کیا ہوگا۔ کئی بار اسے لگا جیسے ڈیوڈ بھی اس میں دل چسپی لے رہا ہے، لیکن غالباً وہ اپنے احساسات کو چھپانے میں ماہر تھا، اس لیے ڈیفنی اس کی دل کی کچھ نہ جان سکی۔

پھر وہ وقت بھی آیا جب ڈیفنی اور اس کے شوہر بل نے ایک دوسرے سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ ڈیفنی کا شوہر اپنی کسی پرانی دوست سے شادی کرنا چاہتا تھا، جس سے اس کا کم عمری میں بھی عشق چلا تھا۔ اس موقع پر ڈیوڈ نے ڈیفنی کو ہر طرح سے سہارا دیا، جس کی وجہ سے ڈیفنی کے دل میں اس کی عزت اور بھی بڑھ گئی اور کچھ عرصے بعد ان دونوں نے ممباسا میں شادی کرلی۔

ڈیفنی کو شروع ہی سے جنگلی جانوروں سے لگائو تھا، مگر اب اسے ایک ایسے انسان کا ساتھ حاصل تھا جو جانوروں کے احساسات کے حوالے سے بڑی معلومات رکھتا تھا۔ ایک بار ایک دریا کے کنارے پہنچ کر ڈیوڈ نے اچانک ڈیفنی سے کہا کہ وہ دریا کے کنارے لیٹ کر اس طرح جھک جائے جیسے وہ پانی پی رہی ہو۔ دراصل ڈیوڈ نے دریا کے دوسرے کنارے پر ایک بارہ سنگھے کو دیکھا تھا جو شرمیلا سا جانور ہے اور آہٹ پاتے ہی بھاگ جاتا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ بارہ سنگھا آرام سے پانی پی لے۔

جنگل میں رات کا منظر بہت ہی حسین ہوتا ہے۔
کسی بڑی اور اونچی چٹان پر بیٹھ کر چاندنی میں نہائے ہوئے مناظر سے لطف اندوز ہونے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے۔ رات میں تالاب پر ہاتھی، گینڈے، بندر، زرافے اور زیبرے ایک ساتھ پانی پیتے تھے۔
مگر اب اس پارک میں نئے مسائل جنم لینے لگے تھے۔

1950کی دہائی میں ایک وقت وہ بھی آیاجب کینیا میں ایک بڑی سیاسی ہلچل مچی، کیوں کہ وہاں نوآبادیاتی نظام زوال پذیر ہورہا تھا۔ اس کے بعد حُریت پسندوں نے سفید فاموں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ہاتھی دانت اور گینڈے کے سینگ کے لیے ان جانوروں کا ناجائز شکار کرنے والوں کے لیے یہ بہترین موقع تھا اور انہوں نے جنگلوں میں ظلم کی نئی داستانیں رقم کردیں۔

جانوروں کے ناجائز اور غیرقانونی شکار کے خلاف قائم مشن کی ایک مہم کے دوران ڈیوڈ اور اس کے ساتھیوں کو 1,280 ہاتھیوں کے پنجر ملے جن میں 200ننھے منے پنجر بھی شامل تھے۔
دوسری جانب Tsavoہیڈ کوارٹر میں ڈیوڈ نے ڈیفنی کی بیٹی جل (بل کی بیٹی) کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا اور اسے اپنی سگی بیٹی ہی سمجھتا تھا۔ بعد میں ان کے ہاں بھی ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام انہوں نے اینجلا رکھا۔

پھر اس فیملی میں Rufusنام کا یتیم گینڈا شامل ہوا، جس سے بچے بہت محبت کرتے تھے اور اکثر اس پر سواری بھی کرتے تھے۔ دوسرا مہمان گریگوری پیک نام کا ایک پیارا سا چوزہ تھا۔ وہ اس فیملی کو صبح سویرے اس طرح جگاتا تھا کہ اپنی چونچ ان کے پپوٹوں پر مارتا تھا۔ Huppety نام کا ایک بے بی زیبرا بھی اس خاندان میں شامل تھا جو پورے گھر میں ڈیفنی کے پیچھے پیچھے گھومتا تھا۔ اس کے علاوہ Wiffle نام کا ایک چھوٹا سا بارہ سنگھا بھی تھا جو زبردستی اس جوڑے کے بستر پر سوتا تھا اور ہٹانے پر بھی وہاں سے نہیں ہٹتا تھا۔

اس پیاری سی فیملی کا باغ ایک ایسی جگہ تھی جہاں انسان اور جانور کے درمیان امن اور پیار دکھائی دیتا تھا۔

ڈیفنی کہتی ہے:’’سہ پہر کی چہل قدمی کے دوران ہمارے باغ کا ہر جانور ہمارے ساتھ ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں جانوروں کی انوکھی سلطنت قائم تھی، جن کی خصوصی محبت کے ساتھ گھومنا پھرنا بہت اچھا لگتا تھا۔ اور ہماری بچیوں کے لیے تو ایک طلسماتی تجربہ تھا۔‘‘

زندگی میں خوشیاں بھی ہیں اور دکھ بھی۔ پہلی بار دکھ کا احساس ڈیفنی کو اس وقت ہوا جب Higglety نامی نیولے کی جنگل واپسی کا وقت آیا۔ یہ نیولا پنیر کا دیوانہ تھا۔ وہ کہتی ہے:’’ڈیوڈ نے مجھے بڑی نرمی سے سمجھایا کہ ہر یتیم جانور ہمارے پاس عارضی طور پر آیا ہے۔ یہ جنگل کا قرض ہے، جسے ہمیں بہرصورت لوٹانا ہے۔ جب تک انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے، اس وقت تک یہ ہمارے پاس ہیں اور جب انہیں یہ ضرورت نہیں رہے گی تو ہمیں انہیں واپس بھیجنا ہوگا۔‘‘

وہ کہتی ہے:’’جب میں اور ڈیوڈ Higglety کو اس دریا پر لے کر پہنچے، جہاں ان جیسے ڈھیروں نیولے رہتے تھے تو ایک لمحے کے لیے وہ الجھن میں مبتلا ہوگیا۔ پھر ہم نے اپنے Higglety کے لیے زمین میں ایک سوراخ کیا اور جب وہ اس میں گیا تو ہم بوجھل دل کے ساتھ خاموشی سے وہاں سے کھسک گئے۔‘‘

اس رات تو کسی نہ کسی طرح Higglety گھر آگیا، مگر آخرکار وہ وقت بھی آیا جب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلا گیا اور پھر کبھی نظر نہیں آیا۔
اس فیملی کے کچھ ہاتھی بے نام بھی تھے، کیوں کہ وہ کم عمری میں ہی مرگئے تھے۔

پھر ایلینر نامی ہتھنی ان کے خاندان میں شامل ہوئی جو ڈیفنی کی سب سے گہری دوست بن گئی۔ اس کی ماں کو بھی شکاریوں نے مار دیا تھا۔ اسی لیے اس یتیم ہتھنی کو ان کے گھر میں پناہ ملی تھی۔ شروع میں یہ سب سے ڈرتی تھی، مگر بعد میں انسانوں کی عادی ہوگئی، بلکہ سبھی کی دوست بن گئی۔

پھر وہ وقت بھی آیا جب 1976میں اس جوڑے کو یہ بتایا گیا کہ اب انہیں Tsavo سے جانا ہوگا۔ یہ سن کر ڈیفنی تو بہت افسردہ ہوئی۔ وہ ایلینر کو یہاں چھوڑ کر جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ دراصل ڈیوڈ کی نئی ڈیوٹی لگادی گئی تھی، جس کے تحت وہ کینیا کے تمام پارکس اور ریزروز کا سپروائزر تھا۔ اس لیے اس جوڑے کو یہاں سے جانا تھا۔ ان کا نیا گھر نیروبی کے نیشنل پارک میں واقع تھا۔

ڈیفنی کہتی ہے:’’مجھے آج تک یقین نہیں آیا ہے کہ میں نے کس کڑے دل کے ساتھ اتنے سارے لوگوں اور چیزوں کو الوداع کہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں ایلینر کے گرد اپنے بازو لپیٹ کر کھڑی ہوگئی تھی، میں نے اس باغ کے چپے چپے پر نظر ڈالی تھی، جو اب میرا نہیں رہا تھا۔ وہاں موجود سبھی جانور میرے دکھ کو محسوس کررہے تھے۔ جب میں نے آخری بار مڑ کر ایلینر پر نظر ڈالی تو اس نے اپنی سونڈ میری آنسو بھری آنکھوں پر پھیری اور مجھے افسردہ نظروں سے دیکھا۔ میں نے ان سب کے لیے دعا کی کہ وہ مستقبل میں ہر مشکل سے محفوظ اور آزاد رہیں۔‘‘

ہم نے وہاں جس معیار کی زندگی گزاری، وہ معیار ہمارے لیے اہم تھا، اس میں مدت کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ہمارے پاس موجود یتیم جانوروں نے جنگل میں آزاد اور حقیقی انداز سے زندگی کا دوسرا موقع حاصل کیا تھا۔ بہ صورت دیگر وہ اس سے محروم رہ جاتے۔

اگلے سال بدقسمتی سے ڈیوڈ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے چل بسا۔ اس کی عمر 57سال تھی۔ ڈیفنی نے اس کی رفاقت میں 17بیش قیمت سال بسر کیے تھے اور اب وہ یکایک بالکل تنہا ہوگئی تھی۔
حالاں کہ وہ بے حد افسردہ اور زندگی سے مایوس ہوگئی تھی، مگر اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے محبوب شوہر کے مشن کو جاری رکھے گی، جس کا بنیادی مقصد ہاتھیوں، گینڈوں اور دوسرے جانوروں کو وحشی شکاریوں سے بچانا تھا اور جس کے لیے اس نے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔

جب ڈیوڈ کی موت کی خبر پھیلی تو جانوروں کا غیرقانونی شکار کرنے والوں نے جشن منایا اور بعد کے برسوں میں ہاتھیوں کی نسل کشی کا سلسلہ ایک بار پھر چل پڑا۔ ڈیفنی نے وقت ضائع کیے بغیر ’’ڈیوڈ شیلڈرک ٹرسٹ‘‘ کی داغ بیل ڈال کی، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے محبوب شوہر کو کھو چکی تھی، مگر اس ٹرسٹ کے لیے کام کرتے ہوئے اور جنگلی جانوروں کو غیرقانونی طور پر شکار ہونے سے بچانے کے کام میں مصروف رہ کر اسے ایسا لگا جیسے وہ آج بھی ڈیوڈ کے قریب ہے۔‘‘

اس نے ایک جگہ لکھا ہے:’’یہ جنگلی جانور میرے لیے روحانی سکون کا سبب ہیں۔ یہ میرے ساتھی، دوست اور میرا جنون ہیں۔ انہی کی وجہ سے مجھے کبھی مکمل تنہا ہونے کا احساس نہیں ہوا۔ ڈیوڈ کے بغیر میری راتیں بہت اداس اور ویران تھیں۔

مگر ان لمحات میں جب مجھے ہاتھیوں کا خیال آتا ہے تو مجھے قدرے سکون ملتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ ان کی وجہ سے میرے دکھ کا احساس کم ہوجاتا ہے اور مجھ میں ہمت پیدا ہوجاتی ہے۔ میں ان جانوروں کی ضروریات سے کبھی غافل نہیں ہوتی۔ یہ جانور میری بہت بڑی قوت ہیں اور مجھے متحرک کرتے ہیں۔‘‘

آج ڈیفنی نیروبی نیشنل پارک میں ایک لکڑی کے بنگلے میں رہتی ہے اور مسلسل اپنے کام میں مصروف ہے۔ ان گزرے برسوں میں ٹرسٹ نے ہزاروں جانوروں کی زندگیاں بچائی ہیں اور کینیا کی جنگلی حیات کے مراکز مسلسل فروغ پارہے ہیں۔

جہاں تک ایلینر نامی ہتھنی کا تعلق ہے تو 1990کے عشرے میں وہ واپس جنگل کی طرف لوٹ گئی جہاں اس کے ہاں ایک بچہ بھی پیدا ہوا۔
حالاں کہ ڈیفنی نے اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا، مگر دوسرے لوگوں نے چند بار دیکھا تھا۔ ایک موقع پر وہ جنگل میں گشت کرنے والے عملے کے ایک کارکن پیچھے دوڑی اور اسے اپنی سونڈ میں لپیٹ لیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شخص اس وقت ایلینر کا رکھوالا تھا جب اس کی عمر پانچ سال تھی۔

اس سے ثابت ہوا کہ ہاتھی کبھی نہیں بھولتا۔ وہ اپنے دوستوں اور بہی خواہوں کو یاد رکھتا ہے۔ کاش! انسان بھی اس انداز سے سوچنا شروع کردے تو یہ دنیا جنت بن جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔