فلمی ستاروں کے لئے ’’پاپا رازی ڈرون‘‘ دہشت کی علامت بن گئے

ندیم سبحان  اتوار 9 نومبر 2014
نام وَرشخصیات کے گرد ناپسندیدہ فوٹوگرافروں کا گھیرا تنگ ہوگیا۔ فوٹو: فائل

نام وَرشخصیات کے گرد ناپسندیدہ فوٹوگرافروں کا گھیرا تنگ ہوگیا۔ فوٹو: فائل

یہ ہالی وڈ میں ناپسندیدہ ترین ’ مہمان ‘ اور شوبز حلقوں میں سب سے زیادہ زیربحث موضوع ہیں۔ یہ عالمی شہرت یافتہ نوجوان پاپ سنگر جسٹن بائبر کی دوست اور گلوکارہ سیلینا گومیز کا تعاقب کرتے رہے ہیں۔

گذشتہ برس تہتر سالہ گلوکارہ ٹینا ٹرنر کی شادی کے موقع پر بھی یہ حاضرین کی توجہ کا مرکز رہے۔ اور اداکارہ این ہیتھوے نے جب ایڈم شلمان کو جیون ساتھی بنایا تو ان لمحات میں بھی مہمانوں کی نگاہیں ان کا طواف کررہی تھیں۔

پھر ان میں سے ایک مائلی سائرس کی رہائش گاہ کے پائیں باغ میں نمودار ہوا۔ اس جسارت کا نتیجہ ایک ہوش رُبا تصویر کی صورت میں سامنے آیا جس نے سوشل ورلڈ میں ’ہلچل‘ مچادی تھی۔

ستاروں کی محفل میں ’دَر‘ آنے والے یہ بن بلائے مہمان گوشت پوست سے بنے انسان نہیں بلکہ فضاؤں میں اڑنے والے ’پاپا رازی‘ ڈرون ہیں۔ جدید کیمروں سے لیس یہ اڑتی ہوئی مشینیں مشہور و معروف شخصیات کے تعاقب میں، اور ان کی ہر حرکت کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے بے چین رہتی ہیں۔

لفظ ’پاپارازی‘ دراصل ایک اصطلاح ہے۔ یہ اصطلاح ان فوٹوگرافروں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو نام وَر لوگوں بالخصوص فلمی ستاروں کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہتے ہیں اور ان کی تصاویر کھینچتے رہتے ہیں۔ اگر یہ کوئی ’ایکسکلوسیو‘ تصویر کھینچنے میں کام یاب ہوجائیں تو وہ کسی روزنامے، جریدے یا ویب سائٹ کو اچھے داموں فروخت کردیتے ہیں۔ تصویر جتنی ’ایکسکلوسیو‘ ہوگی معاوضہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ امریکا میں باقاعدہ پاپارازی ایجنسیاں بھی موجود ہیں جن کے ملازم فوٹوگرافر معروف شخصیات کے پیچھے سائے کی طرح لگے رہتے ہیں۔

ہالی وڈ کے ستارے پاپارازیوں کا اصل ’ہدف‘ ہوتے ہیں۔ وہ اچھوتے اور منفرد منظر کو قید کرلینے کی خواہش میں ان کی رہائش گاہوں کے سامنے رات دن موجود رہتے ہیں اور جب ستارے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو پاپارازی بھی جدید کیمرے سنبھالے سائے کی طرح ان کے پیچھے ہوتے ہیں۔ فن کاروں کی تیزرفتار گاڑیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے پاس بھی برق رفتار کاریں یا ہیوی بائیکس ہوتی ہیں۔

پاپارازی نام وَر فلمی ستاروں کے لیے سب سے بڑا دردِ سر ہیں، جو ان کی پرائیویسی میں دخل دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ماضی میں پاپارازیوں اور فن کاروں کے درمیان ہاتھاپائی کے کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ پاپارازیوں سے جُڑا سب سے مشہور واقعہ آنجہانی برطانوی شہزادی ڈیانا کا ہے۔ لیڈی ڈیانا پیرس میں کار کے حادثے میں جان گنوا بیٹھی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس حادثے کی ذمہ داری کسی حد تک پاپارازیوں پر بھی عاید ہوتی ہے۔

شہزادی ڈیانا اپنے مصری دوست دودی الفائد کے ساتھ ہوٹل سے باہر نکلی تھیں۔ ان کی مرسیڈیز کار کے روانہ ہوتے ہی کئی پاپارازی بھی ہیوی بائیکس پر تعاقب کرنے لگے۔ پاپارازیوں سے بچنے کے لیے ڈرائیور کو کار کی رفتار بڑھانی پڑی جس کے نتیجے میں کار اس کے قابو سے باہر ہوگئی اور سُرنگ سے گزرتے ہوئے اس کی دیوار سے ٹکرا گئی۔ اس تصادم کا نتیجہ شہزادی ڈیانا، دودی الفائد اور ڈرائیور کی ہلاکت کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔

چند برس قبل تک پاپارازیوں کو منفرد اور اچھوتی تصاویر یا فوٹیج کے لیے سخت ’محنت‘ کرنی پڑتی تھی۔ اس محنت میں اپنے ’ہدف‘ کی رہائش گاہ کے سامنے ڈیرا جمالینا، کیمرا ہاتھوں میں تھامے مناسب موقع کا منتظر رہنا، اور ہدف کے باہر نکلنے پر اس کا تعاقب کرنا شامل تھا۔ پھر جب ڈرون ٹیکنالوجی وجود میں آئی اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں موت برسانے والے ڈرون طیاروں کے علاوہ بھی اس کے استعمالات سامنے آنے لگے تو پاپارازیوں کا کام بہت آسان ہوگیا۔

امریکا اور برطانیہ کے بیشتر پاپارازیوں نے نام وَر شخصیات پر نظر رکھنے کا کام ڈرون طیاروں سے لینا شروع کردیا ہے۔ جہاں میزائلوں اور بموں سے لیس ڈرون طیارے پاکستان کے شمالی علاقوں میں موت کی علامت بنے ہوئے ہیں وہیں طاقت وَر لینس کے حامل کیمروں اور ویڈیو ریکارڈرز سے لیس ڈرون نے شہرت یافتہ ستاروں کو دہشت میں مبتلا کردیا ہے۔

ماضی میں پاپارازی، فلمی ستاروں کی رہائش گاہوں کے سامنے عارضی ٹھکانا بنانے پر ’مجبور‘ تھے۔ وہ اندر داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ فلمی ستاروں کی محفلوں میں بھی شامل نہیں ہوسکتے تھے مگر مختصر جسامت کے ریڈیو کنٹرولڈ ڈرون طیاروں نے ان کا کام بہت آسان کردیا ہے اور انھیں فن کاروں کی رہائش گاہوں اور ان کی محفلوں کے اندر تک رسائی حاصل کرنے کے قابل بنادیا ہے۔

اپنے گھر میں بیٹھ کر طاقت وَر اِسٹل اور ویڈیو کیمروں سے لیس ڈرون طیاروں کو ریڈیو کنٹرول کی مدد سے اڑاتے ہوئے وہ بہت آسانی سے کسی فن کار کے گھر کے اندر جھانک سکتے ہیں، اور حسب منشا ان کی تصاویر اور فوٹیج بناسکتے ہیں۔ اپنے گھر کے سوئمنگ پول، ٹینس کورٹ اور بالکونی کے اوپر ڈرون طیاروں کو منڈلاتے ہوئے دیکھ کر فن کار بے اختیار گھر کے اندر پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اب فلمی ستاروں کی خواب گاہوں کے دریچوں پر بھی پردے پڑے ہوئے نظر آتے ہیں، کیوں کہ فضا میں ڈولتے ڈرون کی ’نگاہیں‘ وہاں بھی پہنچ جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ ’پاپا رازی‘ ڈرون پاکستان کے شمالی علاقوں میں موت برسانے والے بغیر پائلٹ کے طیاروں سے سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ ان طیاروں کے مقابلے میں بہت چھوٹے اور بناوٹ میں بھی مختلف ہوتے ہیں۔

عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ ریہنّا اور اداکارہ جینیفر گارنر نے گذشتہ دنوں اپنے دوستوں سے شکایت کی کہ انھیں اپنے گھر کے باغیچے کے اوپر ڈرون اڑتے ہوئے نظر آئے۔ جسٹن بائبر کی دوست سیلینا گومیز کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ نیویارک میں ایک فلک بوس عمارت کی چھت پر ایک اشتہار کی عکس بندی میں حصہ لے رہی تھی جب پاپارازی ڈرون اس کے سر پر سے گزرا۔

گذشتہ ماہ نیواڈا کے بلیک راک ڈیزرٹ میں ’برننگ مین آرٹس فیسٹیول‘ منعقد ہوا تھا۔ فیسٹیول کے دوران ڈرون طیارے پتنگوں کی طرح اڑتے نظر آرہے تھے۔ فضا میں ان کے کیمروں کے فلیش کی روشنی وقفے وقفے سے چمک اٹھتی تھی۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معروف شخصیات کی جانب سے ڈرونز کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار بے جا نہیں ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں فوٹوگرافروں کے علاوہ مجرم اور سرکاری ایجنسیوں کے اہل کار بھی ڈرون کیمروں سے کام لے رہے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان ممالک کو کوئی بھی گوشہ اب ڈرون طیاروں کی آنکھ سے اوجھل نہیں رہا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈرون طیارے اور جاسوس کیمرے بڑے اسٹورز پر عام دستیاب ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں کچھ ہی عرصے کے دوران جاسوس کیمروں سے لیس ہزاروں ڈرون فروخت ہوئے ہیں۔ ان کی قیمت 300 پاؤنڈز سے لے کر ایک ہزار پاؤنڈز تک ہوتی ہے۔

فرانسیسی کمپنی Parrot ڈرون طیاروں سمیت بناتار والے (وائر لیس) دیگر آلات بنانے والی ایک بڑی کمپنی ہے۔ یہ دنیا بھر میں اب تک پانچ لاکھ کے لگ بھگ جاسوس ڈرون فروخت کرچکی ہے۔ ڈرون کا عام استعمال برطانیہ میں ایک بڑا سیکیوریٹی رسک بن گیا ہے۔ پیرٹ نے اپنا تیارکردہ جاسوس ڈرون بکنگھم پیلس کے اوپر اڑایا تھا اور اس کی ویڈیو بناکر انٹرنیٹ پر ڈال دی تھی۔ اس ویڈیو پر عوامی کے علاوہ سرکاری حلقوں میں بھی خاصی لے دے ہوئی تھی۔

یوٹیوب پر ایسی ہزاروں ویڈیوز موجود ہیں جن میں عام برطانوی شہری ڈرون طیارے اڑاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ علاوہ ازیں ان طیاروں پر نصب کیمروں کے ذریعے کھینچی گئی ہزاروں تصاویر بھی انٹرنیٹ پر دیکھی جاسکتی ہیں۔

برطانیہ میں پاپارازی ڈرون اڑانے والے عام شہریوں کے خلاف کارروائیاں بھی کی گئی ہیں۔ اس نوع کا پہلا کیس ٹیلی ویژن سیٹس کی مرمت کرنے والے ٹیکنیشن رابرٹ نوولز کا تھا۔ اسے ایک ایٹمی پلانٹ کے اوپر ’خطرناک‘ انداز سے ڈرون اڑانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ تاہم رابرٹ نے اپنی گرفتاری کے بعد یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ڈورن سے اس کا ریڈیائی رابطہ منقطع ہوگیا تھا اور وہ اس کا کنٹرول کھو بیٹھا تھا۔

میدان جنگ میں ڈرون طیاروں کا استعمال جانا پہچانا ہے مگر کچھ عرصے سے اس مشین کے دیگر استعمالات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ پچھلے دنوں گوگل نے سامان کی ترسیل کے لیے ڈرون کا تجربہ کیا، جب کہ آن لائن فروخت کی بڑی کمپنی امیزون تو کئی ماہ سے ڈرون کو بہ طور ’ڈلیوی بوائے‘ استعمال کررہی ہے۔

یہ توقع کی جارہی ہے کہ ڈرون کو عمارات کے معائنے، نقشہ سازی، فائر فائٹرز کی معاونت، اور ہنگامی طبی آلات کی فوری ترسیل میں بھی استعمال کیا جائے گا۔ طلاق کے مقدمات لینے والے وکلاء نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ شوہر یا بیوی کی بے وفائی کے ثبوت حاصل کرنے میں ڈرون بہت کارآمد ثابت ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی جانب سے فکرمند رہنے والے والدین بھی انھیں ڈرون کے ’زیرسایہ‘ اسکول بھیجا کریں گے۔ اس طرح ذاتی پراؤیسی کے ضمن میں جاسوس ڈرون کے لامحدود استعمالات ہیں۔

ذاتی و اجتماعی پراؤیسی کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کی وجہ سے امریکی قانون ساز پراؤیسی سے متعلق قوانین کا دائرہ پاپارازی ڈرونز تک وسیع کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔

برطانیہ میں، سول ایوی ایشن اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق چھوٹا ریمورٹ کنٹرولڈ ایئر کرافٹ نجی مقصد سے کہیں بھی اڑایا جاسکتا ہے، مگر دوسرے لوگوں اور عمارتوں سے اس کا فاصلہ (یا بلندی) 150 فٹ اور عوامی اجتماعات سے 450فٹ ہونا ضروری ہے۔ تاہم اس سے کم بلندی پر اڑائے جانے والے ڈرون سے حاصل کردہ تصاویر، ویڈیو یا دیگر معلومات کہیں استعمال نہیں کی جاسکتیں۔ تاہم لوگوں کی بڑی تعداد ان قواعد و ضوابط سے واقف نہیں اور جنھیں علم ہے وہ ان پر عمل درآمد کو درخوراعتنا نہیں سمجھتے۔

2010ء میں پیرٹ نے ’’اے آر ڈرون‘‘ لانچ کیا تھا جسے آئی فون ایپلی کیشن کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔ اے آر ڈرون کی لانچ کے ساتھ ہی ’کنزیومر ڈرون‘ کا استعمال تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ اس کے بعد سے فرانسیسی کمپنی کے ڈرون بے انتہا مقبول ہوگئے۔ جدید ماڈلز میں انتہائی واضح تصاویر کھینچنے والے کیمرے نصب ہیں اور یہ 200فٹ کی اونچائی پر فضا میں نصف گھنٹے تک معلق رہ سکتے ہیں۔ دسمبر میں کمپنی نیا ڈرون لانچ کرے گی۔

Bebop نامی یہ طیارہ جدید ترین ہائی ڈیفینیشن کیمرے سے لیس ہوگا اور اس کی رینج سوا میل تک ہوگی۔ Bebop میں14 میگا پکسل کا ’فش آئی لینس‘ کیمرا سامنے والے حصے میں نصب ہوگا جو تصاویر کھینچنے کے علاوہ ویڈیو بھی ریکارڈ کرسکے گا۔ اس میں ’ورچوئل ریئلٹی‘ ہیڈسیٹ کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی خاصیت بھی ہوگی، جس کی وجہ سے اپنے گھر میں بیٹھا ہوا ’ پائلٹ ‘ محض سر کو حرکت دے کر اسے کنٹرول کرسکے گا۔

دوہزار پاؤنڈ مالیت کے Camptraption Kestrel  نامی ڈرون میں ’’گو پرو ہیرو‘‘ ایچ ڈی کیمرا ہے جو ٹیلی ویژن پر نشر کیے جانے کے قابل، یعنی واضح ترین فوٹیج ریکارڈ کرسکتا ہے۔ اسی طرح ’’مائیکروڈرونز‘‘ نامی کمپنی کی تیارکردہ مشینیں 40 منٹ تک فضا میں بلند رہتے، اور 40 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑتے ہوئے ارضی مناظر کو بے حد وضاحت سے قید کرسکتی ہیں۔

51 سالہ رابرٹ ایزارڈ ہالی وڈ کے متعدد نام وَر فلمی ستاروں کی حفاظت کے فرائض انجام دے چکا ہے۔ پاپارازی ڈرونز کے بارے میں وہ کہتا ہے،’’یہ ہر مشہور شخصیت کا دردِسر بن گئے ہیں۔ اگر کوئی پاپا رازی فوٹوگرافر کسی فلم اسٹار کی تصویر شائع نہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو بھی وہ قانونی طور پر ان کے گھروں کے اوپر ڈرون اڑا کر ان کے معمولات کے بارے میں جان سکتا ہے کہ وہ کب سوتے ہیں، کب اٹھتے ہیں، کس وقت بچوں کو اسکول چھوڑنے جاتے ہیں اور کب کتے کو ٹہلانے نکلتے ہیں۔ ان معلومات کے سہارے وہ تصاویر کھینچنے کے لیے ان کا تعاقب کرسکتے ہیں۔‘‘

فلمی ستاروں اور دوسری مشہور شخصیات کے لیے یہ ان کی پراؤیسی میں بدمعاشی کی حد تک دخل اندازی ہے مگر وہ اس سلسلے میں کچھ بھی کرنے سے لاچار ہیں۔ دوسری جانب پاپا رازی ڈرونز اس لیے بھی ان کے لیے دہشت کی علامت بن گئے ہیںِ کہ وہ نہیں جانتے ان کے سر پر اڑنے والی مشین کا کنٹرول کس کے پاس ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر گولڈن گلوب ایوارڈز کی تقریب کے دوران فلمی ستاروں کے سروں پر درجنوں ڈرونز محو پرواز ہوں، اور ان میں سے کوئی ڈرون کسی فن کار کے سر پر آگرے تو کیا ہوگا؟ اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ڈرون کو دو میل تک کی رینج سے اڑایا جاسکتا ہے، تو یہ کیسے پتا چل سکے گا کہ کس نے ڈرون کے ذریعے اس فن کار کو نشانہ بنایا ہے؟

دلہنیں اپنی شادی کے موقع پر انتہائی خوش اور بے فکر ہوتی ہیں، مگر ٹینا ٹرنراپنی شادی کی تقریب کے اختتام تک فکر مند رہی۔ عمررسیدہ گلوکارہ کی دوسری شادی گذشتہ برس جولائی میں سوئزرلینڈ کی جھیل زیورخ کے کنارے ہوئی تھی۔ اس موقع پر ٹینا کے ذہن پر یہی فکر سوار رہی کہ شادی کے تقریب پر منڈلاتے پاپارازی ڈرون ’رنگ میں بھنگ‘ نہ ڈال دیں، کہیں گلاب کی پتیاں بکھیرتے ہیلی کوپٹروں سے ٹکرا نہ جائیں یا پھر کسی مہمان کے سر پر نہ آگریں۔

امریکی ریئلٹی ٹی وی کوئین کم کارڈیشیئن اور اس کا شوہر، ریپ سنگر کینی ویسٹ اس وقت دہشت زدہ ہوگئے جب ایک پاپارازی ڈرون ان کے ہالی وڈ ہلز میں واقع گھر پر منڈلانے لگا۔ اس وقت ان کی ایک سالہ بیٹی، نارتھ سوئمنگ پول میں پیراکی سیکھ رہی تھی۔ اس حرکت پر کینی نے سوشل میڈیا پر سخت غصے کا اظہار کیا تھا۔

پاپارازیوں کو فن کاروں کی برافروختگی سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ ان کے غصے پر توجہ دیے بغیر اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔

AKM-GSI ایک نمایاں پاپارازی ایجنسی ہے۔ اسٹیو گنسبرگ مذکورہ ایجنسی کا چیف ہے۔ اسٹیو تسلیم کرتا ہے اس کی ایجنسی فن کاروں کی تصاویر کھینچنے اور فلم بندی کے لیے ڈرون طیاروں سے کام لے رہی ہے، مگر اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ان تصاویر اور فوٹیج کو فروخت نہیں کرتے جس میں ’ہدف ‘ اپنے گھر پر نظر آرہا ہو۔

برطانوی فوٹوگرافر فرینک گریفن، جو ہالی کی مشہور فوٹوگرافی ایجنسی ’بوئر گریفن‘ کا شریک بانی ہے، کا کہنا ہے:’’ہم نے ابھی تک ڈرونز کا استعمال نہیں کیا، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ جتنے معاوضے پر ہم ایک ہیلی کوپٹر کرائے پر لیتے ہیں، اسی رقم میں ایک ڈرون اور بہترین ویڈیو کیمرا خرید سکتے ہیں۔ یہ ہمارے کام میں بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب پوش اسپائس (وکٹوریا بیکھم) لاس اینجلس ایئرپورٹ سے باہر آئی تو وہاں زبردست ہجوم کی وجہ سے اس کے قریب جانا بھی ممکن نہیں رہا تھا۔ اس موقع پر ایک ڈرون بے انتہا مفید ثابت ہوتا اور ہم بہترین تصاویر اور فوٹیج حاصل کرنے میں کام یاب ہوسکتے تھے۔‘‘

فرینک کا کہنا تھا کہ اس کرسمس کے موقع پر سینٹ بارٹس کے جزیرے پر، وکٹوریاز سیکرٹ کے فیشن شوٹ کے موقع پر ڈرونز کی بھرمار دیکھنے میں آئے گی۔ اس کے خیال میں اگر امریکی قانون ساز پاپارازی ڈرونز سے کھینچی گئی تصاویر پر پابندی بھی عاید کردیتے ہیں تو بھی انٹرنیٹ پر ان تصاویر کو اپ لوڈ کرنے سے روکا نہیں جاسکے گا۔ بلاگز پر فلمی ستاروں کی تصویریں نظر آنے لگیں گی۔ فرینک کے مطابق پاپارازی آج کے مقابلے میں دس برس پہلے زیادہ کمارہے تھے، کیوں کہ اس شعبے میں مقابلہ سخت ہوگیا ہے۔ تاہم اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ڈرون سے کھینچی گئی تصویر کمائی کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے تو وہ ضرور اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیں گے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جو ڈرون فلمی ستاروں کے لیے دہشت کی علامت بن گئے ہیں، وہی فلموں کی عکس بندی میں بھی استعمال ہورہے ہیں۔ ایکشن اور مہم جوئی سے بھرپور فلم The Expendables3 کا ابتدائی سین جس میں سلویسٹر اسٹالون، ویزلے اسنائپ ایک تیزرفتار ٹرین میں دشمن پر گولیاں برساتے نظر آتے ہیں، اسی دوران ایک ہیلی کوپٹر بھی وہاں پہنچتا ہے۔ یہ پورا سین بغیرپائلٹ کے طیارے پر نصب ویڈیو کیمرے کے ذریعے فلمایا گیا تھا۔ ڈرون اور کیمرے کی خرید پر آنے والی لاگت ہیلی کوپٹر کے کرائے سے کئی گنا کم تھی۔ نیز یہ کہ ڈرون کو آئندہ بھی کسی فلم کے دوران استعمال کیا جاسکتا تھا۔

اسی طرح برطانیہ میں امریکی ڈراما سیریز Game Of Thrones، اور بی بی سی کی آنے والی ڈراما سیریز Jonathan Strange & Mr Norrell کی عکس بندی میں بھی ڈرون کیمروں کی مدد لی گئی ہے۔

کیلی فورنیا میں ایک تجویز قانون سازوں کی توجہ کی منتظر ہے جس پر عمل درآمد کی صورت میں پاپارازی ڈرون ایسی تصاویر کھینچ سکیں گے اور نہ ہی ویڈیو بناسکیں گے جس سے کسی کی پراؤیسی متاثر ہوتی ہو۔ تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گذشتہ برس ایک ایسی ہی تجویز اسمبلی میں رد کردی گئی تھی۔

رابرٹ ہوگ لاس اینجلس میں ’’ہوور کیمراز‘‘ نامی کمپنی چلاتے ہیں جو ڈرونز کی مدد سے فلمیں اور میوزک ویڈیوز بناتی ہے۔ رابرٹ کا کہنا ہے،’’اس سے پہلے کہ کسی حادثے کی وجہ سے یہ انڈسٹری تباہی کی زد میں آجائے، ہمیں پاپارازی ڈرونز کو کنٹرول کرنا ہوگا۔‘‘

فلمی ستارے پاپارازیوں کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ ماضی میں وہ پھر بھی بڑی حد تک ان کی پہنچ سے دور تھے مگر ڈرونز کی صورت میں ان کی نگاہیں اب ہر لمحہ فن کاروں پر ٹکی رہتی ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے جو بھی فن کار پاپارازیوں پر تنقید کرتا ہے، وہ انتقاماً اسے زیادہ ’ڈرون حملوں‘ کا نشانہ بناتے ہیں۔ بہرحال ان ’مظلوموں‘ کے حق میں صدائیں تو بلند ہورہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ انھیں پاپارازیوں کے ’ظلم‘ سے نجات مل پاتی ہے یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔