وجاہت مرزا

محمد ابراہیم ضیا  اتوار 30 ستمبر 2012
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

چغتائی نسل سے تعلق رکھنے والے نام ور ہدایت کار، فلم ساز، مکالمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر مرزا وجاہت حسین قزلباش چنگیزی 20 اپریل 1908 کو لکھنؤ سے ساٹھ کلومیٹر دور قصبے سیتاپور (یوپی) کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔

لکھنؤ کے جوبلی کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کلکتہ چلے گئے۔ جہاں مشہور فلمی ادارے ایسٹ انڈیا فلم کمپنی میں ملازم ہوئے اور نام ور سنیما ٹوگرافر کرشن گوپال کے ساتھ معاون کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔

1933 میں اس ادارے کی ایک جادوئی فلم ’’آبِ حیات‘‘ کی کہانی اور مکالمے لکھے۔ اس فلم کے ہدایت کار کرشن گوپال اور موسیقار کے سی ڈی تھے۔ مرکزی کردار نورجہاں (سینئر) اور نذیر نے ادا کیے۔

سی سال نیو تھیٹرز کے بینر تلے بننے والی ایک فلم ’’یہودی کی لڑکی‘‘ کے مکالمے لکھے۔ اس فلم کے ہدایت کار پی اٹارتھی اور موسیقار پنکج ملک تھے۔ مرکزی کردار رتن بائی، کمار اور سہگل نے ادا کیے۔ 1934 میں کلکتہ سے بمبئی آگئے، جہاں نام ور فلمی ادارے ساگر مووی ٹون سے وابستہ ہوگئے۔ وجاہت مرزا نے اس ادارے کی ایک فلم ’’انوکھی محبت‘‘ کا اسکرین پلے لکھا۔ اس فلم کے ہدایت کار رامنک ڈیسائی اور موسیقار بلرام سنگھ تھے۔ مرکزی کردار ستارا اور کمار نے ادا کیے۔

اس کے بعد انہوں نے ساگر کی متعدد فلموں وطن، تین سو دن کے بعد، ہم تم اور وہ، ایک ہی راستہ وغیرہ کی کہانی اور ڈائیلاگ لکھے۔
1940 میں مرزا نیشنل اسٹوڈیوز سے وابستہ ہوگئے اور اس ادارے کی فلموں عورت، بہن اور روئی کی کہانی، مکالمے اور اسکرین پلے وغیرہ تحریر کیے۔ بعد ازاں ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھا۔ 1942 میں وجاہت مرزا نے بطور ہدایت کار نیشنل اسٹوڈیوز کی فلموں جوانی اور سوامی ناتھ کی ہدایات دیں۔ فلم جوانی کے موسیقار انیل بسواس تھے، مرکزی کردار جیوتی اور سریندر نے ادا کیے جب کہ فلم سوامی ناتھ کے موسیقار ایچ سی بالی تھے، مرکزی کردار شوبھنا سامرٹھ اور پریم ادیب نے ادا کیے۔

1944 میں وہ رنجیت فلم کمپنی میں آگئے اور اس ادارے کی ایک تاریخی فلم ’’شہنشاہِ بابر‘‘ کی ہدایات دیں۔ موسیقار کھیم چندپرکاش تھے۔ مرکزی کردار خورشید اور شیخ مختار نے ادا کیے۔ اسی سال انہوں نے یونائیٹڈ فلمز کی ایک فلم ’’بھائی جان‘‘ کی کہانی اور ڈائیلاگ لکھے۔

1945 میں وجاہت مرزا نے رنجیت کی ایک اور فلم ’’پربھوکا گھر‘‘ کی ہدایات دیں۔ موسیقار بلوسی رانی اور کھیم چندپرکاش تھے۔ مرکزی کردار خورشید اور ترلوک کپور نے ادا کیے۔ اسی سال انہوں نے ایسٹرن پکچرز کی ایک فلم ’’زینت‘‘ کی کہانی لکھی۔ ہدایت کار شوکت حسین رضوی اور موسیقار میر صاحب تھے۔

تقسیم کے بعد وجاہت مرزا نے فلمستان لمیٹڈ کی ایک فلم ’’شہید‘‘ کے ڈائیلاگ لکھے۔ اس فلم کے ہدایت کار رمیش سہگل اور موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے۔ مرکزی کردار کامنی کوشل اور دلیپ کمار نے ادا کیے۔ یہ فلم 1948 میں ریلیز ہوئی۔

اس کے بعد انہوں نے او ایس ایس پروڈکشنز کی فلم ’’چلمن‘‘، ایم اینڈ ٹی فلمز کی فلموں ’’نشانہ اور نجریا اور فلم زار پروڈکشنز کی فلم ’’تنخواہ‘‘ وغیرہ کی ہدایات دیں۔

ان کے علاوہ انہوں نے بطور مصنف آشادیپ پکچرز کی فلم شکست، محبوب پروڈکشنز کی فلم مدر انڈیا، بامبے فلمز کی فلم یہودی، ایس یوسنی کی فلم کوہِ نور، کے آصف کی فلم مغل اعظم، دلیپ کمار کی فلم گنگا جمنا، رام مکرجی کی فلم لیڈر، پونم پکچرز کی فلم پالکی، جیمنی کی فلم شطرنج، گرودت فلمز کی فلم چندا اور بجلی، آتمارام کی فلم امنگ، گنگا کی سوگند اور سلطان احمد کی فلموں ہیرا، سنیل دت کی فلم ڈاکو اور جوان وغیرہ کے ڈائیلاگ لکھے۔

1986 میں وجاہت مرزا نے اپنی زندگی کی آخری فلم کے آصف کی ’’لو اینڈ گاڈ‘‘ کے ڈائیلاگ لکھے۔ اس فلم کے ہدایت کار کے آصف اور موسیقار نوشاد تھے۔ مرکزی کرداروں میں نمی اور گرودت نمایاں تھے، لیکن فلم کے ابتدائی مراحل میں گرودت نے خودکشی کرلی، جس کی وجہ سے ان کی جگہ سنجیوکمار کو ہیرو لیا گیا۔ بدقسمتی سے فلم کی تکمیل کے دوران ہی کے آصف کا بھی انتقال ہوگیا۔ ان کی وصیت کے مطابق یہ فلم ان کی اہلیہ اختر آصف اور برادر نسبتی دلیپ کمار نے مکمل کروائی تھی۔

وجاہت مرزا نے 1961 میں فلم مغل اعظم کے لیے ’’بیسٹ ڈائیلاگ رائٹر‘‘ کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا۔ دوسری مرتبہ انھیں 1962 میں فلم ’’گنگا جمنا‘‘ کے لیے فلم فیئر ایوارڈ ملا تھا۔ ان کے علاوہ ان کی شہرہ آفاق فلم ’’مدر انڈیا‘‘ کو بین الاقوامی آسکر ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا تھا۔ 1986 میں وجاہت مرزا پاکستان آگئے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری ایّام انھوں نے کراچی میں اپنے عزیز و اقارب کے درمیان گزارے۔ ان کا انتقال 4 اگست 1990 میں بیاسی برس کی عمر میں کراچی میں ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔