اٹھو اپنے لیے

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 26 دسمبر 2014

گرے نے کہا  ہے ’’ قوموں کی عظمتوں کے راستے قبرستانوں سے ہوکر آگے بڑھتے ہیں۔‘‘  ہرقوم کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں اجالے کاراستہ اور تاریکی کاراستہ ۔ دو امکانی تقدیریں ہوتی ہیں اجالے کی تقدیر اورتاریکی کی تقدیر۔ یادرہے قسمت ہر دروازے پر رک کر پوچھتی ہے کہ کیاعقل اندر ہے ۔

یہ 1871 کی بات ہے کہ ایک نوجوان نے اپنی میزسے کتاب اٹھائی اور اس میں سے تیس الفاظ پڑھے، جنہوں نے اس کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالا وہ نوجوان مانڑیال جنرل اسپتال میں طب کاطالب علم تھا اور وہ پریشان تھا میں اپنے آخری امتحان میں کیسے پاس ہوسکوں گاپھر کیاکروں گا کہاں جاؤں گا کیسے پریکٹس چلاؤں گا اورکیسے روزی کماسکوں گا اس نے جو تیس الفاظ پڑھے تھے۔ انھوں نے اسے اپنے زمانے کا مشہور ترین ڈاکٹر بننے میں مدد دی اس نے شہرہ آفاق جانز ہاپکنز اسکول آف میڈیسن کی تنظیم کی وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں طب کا پروفیسر مقرر ہوا اوریہ بلند ترین اعزاز ہے جو بر طانیہ میں طب کے کسی شخص کو حاصل ہو سکتاہے اسے سر کا خطاب دیاگیا اور جب اس کا انتقال ہوا تو 1466 صفحا ت پر مشتمل دو جلدوں میں اس کی داستان حیات مرتب کی گئی اس کا نام سر ولیم آسلر تھا۔

جو الفاظ اس نے پڑھے تھے وہ ٹامس کارلائل کے تھے وہ الفاظ یہ تھے ’’ زندگی کا مقصد یہ دیکھنا نہیں کہ دور دھند لکوں میں کیا نظر آتا ہے بلکہ جو سامنے موجود ہواسے سر انجام دینا ہے ‘‘ سر ولیم آسلرنے ہیل یونیورسٹی کے طلباء کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مجھ جیسا آدمی جوچار یونیورسٹی میں پروفیسر رہ چکا ہو ایک مقبول کتاب کامصنف ہو کے متعلق یہ خیال کیاجاتاہے کہ وہ مخصوص اوصاف کے دماغ کا مالک ہوگا اس نے پر زور الفاظ میں اس کی تردیدکرتے ہوئے کہا کہ میرے عزیز اورقریبی دوست جانتے ہیں کہ میرادماغ بالکل اوسط درجے کا ہے ۔ پھر اس کی کامیابی کا راز کیاتھا اس نے خود ہی وضاحت کرتے ہوئے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’ میں دن روک کمروں میں رہتا ہوں ۔‘‘

اس سے اس کاکیا مطلب تھا دراصل ہیل یونیورسٹی میں تقریر کرنے سے چند مہینے پیشتر سرولیم آسلرنے ایک عظیم بحری جہاز پر بحر اوقیانوس عبور کیا تھاا س جہاز کاکپتان عرشہ جہاز پر کھڑے ہوکر ایک بٹن دبا دیتا مشینری کھٹکھٹاتی اور آنا فا ناً جہاز کے مختلف حصے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجاتے اور ’’ پن روک‘‘ کمروں میں تبدیل ہو جاتے ۔ ڈاکٹر آسلر نے ہیل یونیورسٹی کے طلباء کو خطاب کرتے ہوئے کہا تم میں سے ہر ایک اس عظیم بحری جہاز سے کہیں بڑھ کر ایک عجیب و غریب مشین ہے جوزیادہ طویل سفر پرگا مزن ہے جو بات میں تم پر واضح کر نا چاہتاہوں ۔

وہ یہ ہے کہ تم اپنی مشینری کو اپنے اختیار میں لانا سیکھو تا کہ ’’ دن روک ڈبوں‘‘ میں رہ سکوجو کہ دوران سفر میں امن و سلامتی کے بہترین ضامن ہیں عرشہ جہاز پر چڑھ کر کم از کم اتنا اطمینان ضرور کرلوکہ بڑی دیوار یں تو مناسب کام کررہی ہیں اپنی زندگی کے ہر موڑ پر بٹن دبا کر اطمینان کر لو کہ ماضی مرحوم کل کے آہنی دروازے بند ہوچکے ہیں اور ایک دوسرا بٹن دبا کر مستقبل کے آہنی دروازے گرادو اور پھر تم صحیح سلامت ہو آج کے لیے صحیح سلامت ۔ماضی کو بند کر دو گڑے مر دوں کو دفن ہی رہنے دو گزشتہ کل کو فراموش کر دو جس نے بیوقوفوں کو عدم کے گرد آلو د راستے پر لگادیاہے ۔آیندہ کل کا بوجھ گزشتہ کل سے ملاکر آج اٹھا یا جائے تو مضبو ط ترین انسان کے قدم بھی ڈگمگا جائیں گے مستقبل کوبھی اتنی ہی مضبوطی سے بند کردو جس قدر ماضی کو کیاتھا مستقبل آج ہے کیا ڈاکٹر آسلر کی تقریر کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں مستقبل کے لیے تیار ہونے کی کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے نہیں ہر گز نہیں ، لیکن اپنی اس تقریر میں انھوں نے یہ کہا تھا کہ مستقبل کے لیے تیار ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی ساری ذہانت ، قوت ، توانائی اور جو ش وخروش کو آج کے کام کو بہترین طریقے سے سرانجام دینے کے لیے صرف کر دینا چاہیے یہ ہی ایک واحد امکانی طریقہ ہے جس سے ہم مستقبل کے لیے تیار ہوسکتے ہیں ۔

ڈاکٹر آسلر کی ہیل یونیورسٹی میں کی گئی وہ ہی تقریر آج سب پاکستانیوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ آؤ ہم اپنی ساری ذہانت ، قوت ، توانائی  اور جوش وخروش کو آج کے کام کو بہترین طریقے سے سر انجام دینے کے لیے صرف کردیں ۔ ہم سب کے لیے آج کا کام ملک سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کاہے جس نے ہم سب کو عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔ جس نے ہم سب کی خوشحالی ، ترقی ، آزادی ، سلب کررکھی ہے جس نے آپ کو اور مجھے اپنے معصوم پیاروں کے لاشے اٹھا نے پر مجبورکردیا ہے پاکستانیوں کل کی کوئی فکر نہ کرو وہ اپنی فکر آپ کر لے گا آپ کے لیے صرف آج کی فکر کافی ہے اٹھو اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے اس جنگ کا سپاہی بننے کے لیے جو ہمارے لیے لڑی جارہی ہے ۔

ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے ہماری زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے ہماری خا موشی ہمارا سب سے بڑاجرم ہے آؤ سب سے پہلے ہم اپنے بدترین دشمن خو ف کو مار ڈالیں یاد رہے یہ خوف ہی اصل میں ہماراقاتل ہے ہم سب نے خو شحالی ، ترقی ، آزادی ، سکون کے خواب ہیں ہم اپنے خوابوں کے ساتھ یہ بدترین سلوک کیوں کررہے ہیں کیا آپ نے یہ کبھی سو چا ہے کہ خوشیاں یا غم ، دکھ یاسکھ ، خو شحالی یا غربت ، آزادی یاغلامی ، زندگی یاموت یہ سب کچھ ہمارے اپنے فیصلوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔یہ آپ کی اپنی خواہش یا مر ضی ہوتی ہے کہ آپ کن حالات میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ہر انسان کے اندر آلہ دین کے چراغ کا جن بیٹھاہوا ہوتاہے۔

جو آپ کی ہر خواہش پوری کرسکتاہے بس اسے صرف حکم دینے کی دیر ہوتی ہے پھر دیکھیں و ہ کس طرح آپ کاہرحکم سر بجالاتاہے اگر آپ اپنے موجودہ حالات سے خوش ہیں اور اسے تبدیل ہی نہیں کرنا چاہتے تو پھر اور بات ہے لیکن اگر آپ ان عذابوں کی وجہ سے اذیت میں ہیں تو پھر آئیں اپنے خادم جن کو حکم دینے میں دیر نہ کریں پھر دیکھیں کس طرح آنا فاناً آپ کو ان عذابوں سے نجات ملتی ہے آپ ہی وہ واحد شخص ہیں جو اپنے گر دو پیش کی ہر چیز کو بدل سکتے ہیں ۔آؤ اٹھو ہم سب اس جنگ کے سپاہی بن جائیں جو ہمارے اپنے لیے لڑی جارہی ہے آئیں ہم سب اپنے آپ پر اعتماد کریں ہم سے زیادہ دلیر، بہادر انسان دنیامیں دوسراکوئی نہیں یہ بھی یاد رہے قاتلوں سے زیادہ اور کوئی بزدل نہیں ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔