اختر مینگل دبئی کیوں لوٹ گئے؟

نصرت جاوید  بدھ 3 اکتوبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اختر مینگل ایک بہت ہی شائستہ اور مہذب انسان ہیں۔ سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں برسوں سے رپورٹنگ کرتے ہوئے بہت سے صحافیوں کے مختلف رہنمائوں کے ساتھ ذاتی تعلقات بھی بن جایا کرتے ہیں۔

اسے دوستی کا نام دینا زیادتی ہو گی کیونکہ صحافی اور سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ غرض مندانہ تعلقات رکھتے ہیں۔ صحافی کو خبر درکار ہوتی ہے اور سیاستدان کو اپنے بارے میں مثبت فقروں کی ضرورت۔ معاملہ اس سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتا اور اگر بڑھ جائے تو صحافی کسی سیاستدان کا تنخواہ دار یا مراعات یافتہ منشی بن جاتا ہے۔

اختر مینگل ذرا مختلف قسم کے آدمی ثابت ہوئے۔ میری ان سے کسی طور پر بھی ذاتی شناسائی نہیں رہی۔ مگر دو تین بار جب بھی خود کو مشکل کی گھڑی میں گھرا پایا تو حوصلہ دینے کو ان کا فون ضرور آیا۔ ان کی بے غرض محبت کے اس اظہار کے بعد میرا فرض بنتا تھا کہ گزشتہ ہفتے ان کے اسلام آباد میں چند روزہ قیام کے دوران میں ان سے کم از کم رسمی دُعا سلام والی ملاقات ضرور کرتا۔ مگر مجھے ہمت ہی نہ پڑی۔ پتہ نہیں کیوں میرے مایوس اور قنوطی ذہن میں یہ خیال جم گیا تھا کہ ان کا دبئی سے پاکستان آ کر سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہونا رائیگاں سفر ہے۔ اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

یہ بات درست ہے کہ اختر مینگل کو اپنے قیام اسلام آباد کے دوران میڈیا نے بھرپور انداز میں رپورٹ کیا۔ ان کی باتیں اخباروں کے پہلے صفحے پر نمایاں انداز میں چھاپی گئیں۔ ٹیلی وژن کے کئی معروف اینکروں نے ان کے تفصیلی انٹرویو بھی کیے۔ میاں نواز شریف، عمران خان اور سید منور حسن جیسے رہنمائوں کا خاص طور پر اسلام آباد آ کر ان سے ملاقات کرنا بھی اپنی جگہ خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ مگر ان سب چیزوں کے بعد کوئی امید نظر آ رہی ہوتی تو اختر مینگل اسلام آباد سے دبئی نہ لوٹ جاتے۔

پنجاب، سندھ اور خیبر پختون خوا کے طویل دورے کرتے ہوئے بلوچوں کو یہ باور کرانے کی ہر ممکن کوشش کرتے کہ ان جیسے قد کاٹھ کا سیاسی رہنما پاکستانی عوام کے سامنے ان کا مقدمہ پیش کر رہا ہے۔ تلخ مگر سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے کئی دوسرے بے بس عناصر اور قوتوں کی طرح وہ بھی اپنا کیس سپریم کورٹ کے سامنے دو ٹوک الفاظ میں پیش کرنے کے بعد ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ کے کندھوں پر یہ بوجھ اور ذمے داری ڈال گئے کہ وہ ان کے دُکھوں کا مداوا کرے۔

ریاستی ڈھانچے میں سپریم کورٹ کی یقیناً بڑی اہمیت ہے۔ مگر بلوچستان کے بنیادی طور پر سیاسی مسائل کا حل اس کے بس میں نہیں۔ یہ کام سیاست دانوں کو ہی کرنا ہے۔ سیاسی مسائل کو حل کرنے کی پہلی ذمے داری ان کی ہوتی ہے جو صوبائی اور مرکزی حکومتوں میں منتخب ہوئے بیٹھے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد مضبوط تر بنائی گئی حکومت بلوچستان کے سربراہ نواب اسلم رئیسانی ہیں۔ یہ صاحب بلوچستان سے زیادہ اپنا وقت اسلام آباد میں گزارتے ہیں۔ یہاں کے چند مشہور ریستورانوں میں دوستوں اور چمچوں کے لائو لشکر سمیت دوپہر کے کھانے کھاتے ہیں۔

شام ڈھلے ایک جدید ترین ماڈل کے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر شغل میلے کے عادی نوجوانوں کی طرح اسلام آباد کی طویل سڑکوں پر ’’ریس‘‘ لگاتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو ان کے چھوٹے بھائی لشکری رئیسانی سے بڑی امیدیں تھیں۔ وہ بھی بس گرما گرم تقریروں اور ٹیلی وژن اسکرینوں پر فلاسفر دکھائی دینے میں مصروف رہے اور بالآخر پارٹی سے کنارہ کشی کر لی۔ آج کل سنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اختر مینگل سے جو بلوچ رہنما ملے۔ سردار یار محمد رند ان میں بڑے نمایاں تھے۔ موصوف بلوچستان کی اسمبلی میں یک و تنہاء اپوزیشن رکن ہونے کے دعوے دار ہوا کرتے ہیں۔ مگر رئیسانیوں سے خاندانی دشمنی کے سبب بلوچستان میں بیٹھ کر سیاست کرنے کی ہمت ہی نہیں پاتے۔

مرکزی حکومت کا ذکر کریں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ صرف رحمن ملک کو بلوچستان کے معاملات پر بولنے کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے۔ کبھی کبھار قمر زمان کائرہ کو بطور وزیر اطلاعات اس صوبے سے متعلق سوالات کا جواب دینا پڑتا ہے۔ صدر زرداری نے بلوچوں سے معافی مانگ کر آگے بڑھنا چاہا تھا۔ چپکے چپکے کوشش کرتے رہے کہ براہمداغ بگٹی اور حربیارمری سے رابطے استوار کر کے کسی فیصلہ کن ’’ڈیل‘‘ تک پہنچ سکیں۔ وہ دونوں اب برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ میں مقیم ہیں۔

امریکا اور یورپ کو جب کبھی اپنے مقاصد کی خاطر بلوچستان یاد آتا ہے تو وہاں کے صحافی اور کچھ مخصوص سیاستدان ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ان ملاقاتوں سے بلوچ نوجوانوں کے مسائل تو حل نہیں ہوتے۔ ہماری ریاست اور اس کے نظریہ کے خود ساختہ وارث مزید ناراض ہو کر چند اور نوجوانوں کو غائب کرا دیتے ہیں۔ جواباََ سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں شدت آ جاتی ہے۔ یہ شدت پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ’’ریاستی رٹ‘‘ کو لاگو کرنے والے اداروں کے تحفظ میں خیر کے کچھ کلمات کہے اور معاملات مزید اُلجھ جاتے ہیں۔

حکومت میں بیٹھ کر سامنے آنے والی ’’مجبوریوں‘‘ نے پاکستان پیپلز پارٹی کو بلوچ مسئلے کے ممکنہ حل کی تلاش کے لیے کی جانے والی کوششوں سے لاتعلق ہی نہیں بنایا بلکہ ایک ایسے ’’فریق‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے جس پر ناراض بلوچ اعتماد کرنے کو تیار ہی نہیں ہو پائیں گے۔ اس صورتحال میں شاید رحمن ملک اور قمر زمان کائرہ کے لیے بلوچستان کے حوالے سے دانستہ طور پر خاموش رہنا زیادہ بہتر ہوتا۔ اس سے کم از کم یہ تاثر ضرور اُبھرتا کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ، نواز شریف، عمران خان اور منور حسن کے ذریعے اختر مینگل کے دُکھوں کا مداوا کرنے کے امکان کی ر اہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال رہی۔

رہی بات ہمارے ’’اصل حکمرانوں‘‘ کی تو ان کی مدد کو لال ٹوپی والے آگے بڑھے ہیں۔ راجہ ارشاد کیانی نامی وکیل کے ذریعے گزشتہ برس ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں مارے جانے والوں کے ورثا کو قصاص اور دیت دلانے والا ’’اسلامی انصاف‘‘ فوری اور سستی بنیادوں پر فراہم کیا گیا تھا۔ اب اسی وکیل کے ذریعے ایک پٹیشن دائر کی گئی ہے۔ اس پٹیشن کا مقصد سپریم کورٹ کو ایک کمیشن بنانے پر آمادہ کرنا ہے جو بالآخر دُنیا پر یہ ’’حقیقت‘‘ آشکار کر دے گا کہ نواب اکبر بگٹی کو قتل نہیں کیا گیا تھا۔ انھوں نے پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالنے کا پیغام دیا تھا اور جب اس کے چند افسران اس غار میں داخل ہوئے جہاں بگٹی پناہ گزین تھے تو بلوچ سردار نے ریموٹ دبا کر دھماکاکر دیا۔ اپنے ساتھ فوجی افسران کو بھی مار ڈالا۔

اختر مینگل، لال ٹوپی والے کی اس نازک موقعے پر کی جانے والی پیش قدمی سے ہکا بکا رہ گئے۔ اصرار کرتے رہے کہ بلوچ خود کشی نہیں کیا کرتے۔ لوگ شاید ان کی اس بات پر اعتبار کر لیتے مگر پھر لال حویلی والے نے لاہور کی گوالمنڈی میں ایک ’’تاریخی جلسہ‘‘ کرنے کے بعد اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں لال ٹوپی والے کی طرف سے سنائی کہانی کی اپنے سحر انگیز انداز میں تصدیق کر دی۔ مختصراََ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اختر مینگل کی جانب سے سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہو کر بلوچ نوجوانوں میں کچھ امیدیں دلانے والی پیش قدمی کا جواب لال ٹوپی اور حویلی والے ’’پاسدارانِ نظریاتی ریاست‘‘ کے ذریعے دے دیا گیا ہے۔

اس جواب کو ناراض اور دُکھی بلوچوں نے یقیناً ایک ظالمانہ مذاق کے طور پر لیا ہو گا۔ مگر اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ اختر مینگل کا بلوچوں اور پاکستانی ریاست کے درمیان پل بننے کے امکان کا فوری خاتمہ ہو گیا۔ معاملہ ’’اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے‘‘ والا ہو گیا ہے۔ اسی لیے میں ہرگز حیران نہیں ہوں کہ اختر مینگل اسلام آباد سے دبئی کیوں لوٹ گئے ہیں۔ شاید میں نے اختر مینگل سے ملاقات نہ کر کے اچھا ہی کیا۔ ورنہ مجھے کم از کم اپنے ذاتی حوالے سے ان سے شکریہ ادا کرنے والی ملاقات ضرور کرنا چاہیے تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔