اب تو سنبھل جاؤ

مقتدا منصور  بدھ 31 دسمبر 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

آج نئے سال کا پہلا دن ہے ۔اس لیے سب سے پہلے تو تمام قارئین کو نئے سال کی اس تمنا کے ساتھ دلی مبارک باد کہ یہ سال ان کی زندگیوں کے ساتھ وطن عزیز میں بھی امن وسکون اور خوشحالی کا سال ہو ۔ خدا کرے کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا اور جس طرح عوام کو کسی  نہ کسی بہانے خون میں نہلایا جاتا رہا ہے، اس برس اس لعنت سے مکمل طورپر نجات مل سکے۔ ہم بھی دیگر اقوام کی طرح شائستگی،بردباری اور تحمل کی روایات قائم کرسکیں ۔

لیکن جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہم سب کی تقدیر ہے ، وہ ’’مٹی کے مادھو‘‘ ہیں ، جنہوں نے نہ پہلے کبھی کوئی صحیح فیصلہ کیا اور نہ اب ان میں کسی صائب فیصلہ کرنے کی بصیرت اور عزم نظر آرہا ہے ۔ اس لیے ان سے اب بھی کسی دانشمندانہ فیصلے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ بقول ابن صفی مرحوم ’’دعوے ہمیشہ بزدل اور نا اہل لوگ کیا کرتے ہیں۔ جرأتمند لوگ دعوے نہیں عمل کرتے ہیں ۔‘‘ ایک پرانی کہاوت بھی ہے کہ ’’جوگرجتے ہیں، وہ برستے نہیں ۔‘‘ 2002ء سے سانحات کا انبار لگا ہوا ہے،مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔5ہزار سے زائد بم دھماکے،4ہزارایک سو خود کش حملے ۔ٹارگٹ کلنگ، بسوں سے اتار کرفرقہ وارانہ بنیادوں پرشناخت کے بعد قتل کیا جانا،اس کے سوا ہے۔ پھر فوجی تنصیبات پر حملے وہ واقعات تھے، جو خواب خرگوش میں بدمست حکمرانوں کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی تھے ۔ مگرمصلحتوں کی دلدل میں دھنسے حکمران اور خواہشوںکی گرداب میں پھنسے منصوبہ سازوں کی بند آنکھیں کھل نہ سکیں ۔

اب سانحہ پشاور کے بعد کسی حد تک آنکھیں کھلی ہیں تو اس عفریت سے جان چھڑانے کے لیے کوئی ٹھوس اور حقیقت پسندانہ حکمت عملی تیارکرنے کے بجائے فرسودہ اور روایتی اقدامات پر اصرار کیا جا رہا ہے ۔جن میں سرفہرست فوجی عدالتوں کا قیام اور پھانسی کی سزا  کی بحالی ہے ۔اس کے علاوہ دیگر18نکات میں پرانی باتیں دہرائی گئی ہیں ۔ سب سے پہلے پھانسی کی سزا کی بحالی پر بات کیے لیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ وہ عناصر جو خود کش حملے کے لیے نوجوان تیار کرتے ہیں،آیا وہ اس سزا کی بحالی سے خوفزدہ ہوجائیں گے؟اگر نہیں تو یہ ترجیحی فیصلہ نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ اس کے متبادل حکمت عملی پر غورکیا جانا چاہیے ۔

جہاں تک فوجی عدالتوں کے قیام کا تعلق ہے تو یہ ایک انتہائی پیچیدہ آئینی و قانونی معاملہ ہے ۔ پاکستان کا پورا سیاسی اورانتظامی ڈھانچہ انڈیا ایکٹ1935ء کے دائرہ کار کے اندر کام کرتا ہے۔ اسی طرح عدالتی نظام بھی برطانیہ کا متعارف کردہ ہے ، جس کا انداز نوآبادیاتی ہے ۔ پھرجرائم پر قابو پانے کے لیے کرمنل پروسیجر اور پاکستان پینل کوڈز بھی1861ء کے نافذ کردہ ہیں ۔جن میں کسی قسم کی تبدیلی یا ترمیم واضافہ نہیںکیا گیا ۔ قیام پاکستان کو آج 68 برس ہوگئے ، مگر نہ تو عدالتی اصلاحات لانے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی مختلف قوانین کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موجودہ عدالتی نظام میں بہتری لانے کی کوشش کی جاتی اورنئے ججزکی تقرری کے ذریعے عدالتی نظام کے دائرہ کار میں وسعت کے ساتھ فوری انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ۔ مگر اس مسئلے کا حل فوجی عدالتوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، جو غیر مناسب فیصلہ ہے ۔ اسی طرح سیاسی جماعتیں جو وقت فوجی عدالتوں کے قیام کے حق یا مخالفت میں ضایع کر رہی ہیں ،اگر اس وقت کو قانون شہادت میں بہتری لانے کے لیے استعمال کریں ، تو فوری اقدام کی سبیل پیدا ہو سکتی ہے ۔

یہ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکا نے9/11کے بعد، برطانیہ نے7/7 کے بعد اور بھارت نے26/11کے بعد دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات کیے اور ان اقدمات کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ کیا انھوں نے ان جرائم پر قابو پانے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کیں یا سویلین عدالتوں ہی کے ذریعے دہشت گردی پرقابو پانے کی کوشش کی؟ دوسرے وہ کیا اقدامات تھے کہ جن کے بعد امریکا میں9/11 کے بعد کوئی بڑا سانحہ رونماء نہیں ہوا ۔اسی طرح برطانیہ کے ان اقدامات کا مطالعہ ضروری ہے، جو اس نے7/7کے بعد کیے ۔اس کے علاوہ برطانیہ نے آئرش ری پبلک آرمی سے اور سری لنکا نے تامل ٹائیگرز سے نمٹنے کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی، اس کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے ۔ یہ مطالعہ اور مشاہدہ ہمیں ایک فعال اور متحرک حکمت عملی کی تیاری میں مدد دے سکتا ہے ۔

اسی طرح بعض سیاسی جماعتیں سانحہ پشاور سے ایک روز قبل تک ان عناصر کے ساتھ مذاکرات پر زور دیتی رہی ہیں، جو ملک میں بدترین دہشت گردی اور سفاکانہ کشت وخون کا سبب ہیں اور2002ء سے مسلسل تباہی پھیلا رہے ہیں ۔کیا وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ وہ عناصرجو نہ تو پاکستان کے وجود کوتسلیم کرتے ہوں اور نہ ہی اس کے آئین کو مانتے ہوں، ان سے مذاکرات کس بنیاد  پر ہوسکتے ہیں ۔اس افسوسناک صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اطلاع اور پروپیگنڈے کے فرق سے ناآشنا ذرایع ابلاغ  نے ان 12برسوں کے دوران شدت پسند عناصر کو ہیرو بنا کر پیش کیا ہے ۔

ان کے انٹرویوز اور ان کے خیالات کی اس انداز میں تشہیر کی گئی کہ آج اگر گوئبل (ہٹلر کا وزیر اطلاعات)زندہ ہوتا تو وہ بھی شرمسار ہو جاتا ۔ جس نے کہا تھا کہ ’’جھوٹ پورے اعتماد کے ساتھ اس شدومد سے بولوکہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں ۔‘‘ وہ لوگ جو پاکستان کی سیاسی تاریخ ،اس کی عمرانیات اور ثقافتی طرز حیات سے بے بہرہ ہیں ، وہ سیاسی پروگرام کر رہے ہیں ۔انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اس ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاسی جماعتوں نے کیا قربانیاں دیں۔وہ اس حقیقت سے بھی بے خبر ہیں کہ آزادی اظہار کی خاطر صحافیوںاور صحافی تنظیموں نے کیا کیا صعوبتیں برداشت کی ہیں ۔اس لیے انھیں اندازہ ہی نہیں کہ ان کا اس طرح شدت پسند عناصر کو ٹیلی ویژن اسکرین پر پیش کرنے کے کیا منفی نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔

اس میں شک نہیں کہ ملک کا پورا انتظامی ڈھانچہ بدترین فرسودگی کا شکار ہے ۔ ریاستی انتظامی ڈھانچہ ہو یا عدالتی نظام ، الیکشن کمیشن ہو یاترقیاتی منصوبہ بندی ، ہر طرف ابتری اور شکستگی کے مہیب سائے پھیلے ہوئے ہیں ۔کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں کارکردگی  کے قدرے بہتر اشاریے ملتے ہوں ۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ چاہے منتخب حکومت ہو یا غیر منتخب کسی نے بھی عوام کی فلاح کے لیے کچھ نہیں کیا ۔

ایسی صورتحال میں عوام کی مایوسیاں حق بجانب ہیں ۔ اس وقت ملک جن مسائل سے دوچار ہے ، ان کے حل پر توجہ دینے کے بجائے پیٹ بھرے حکمران ، منصوبہ ساز اور سیاستدان سبھی فروعی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ان میں مطالعہ و مشاہدہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے ۔اس کے علاوہ اپنے مخصوص مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر ایڈہاک ازم  پر مبنی فیصلے کر رہے ہیں ، جن کے باعث ٹھوس اور پائیدار نتائج ممکن نہیں ہیں ، جب کہ ان حقائق  سے چشم پوشی کرتے ہوئے حکمران اشرافیہ رائے عامہ کو اہمیت دینے کے بجائے انھی فیصلوں پر اصرار کر رہی ہے ۔

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتوں سمیت ریاست کے سبھی شراکت دار اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ پاکستان کا وجود صرف اور صرف جمہوری طرز حکمرانی سے مشروط ہے ۔ جمہوریت ہی مختلف قومیتوں اور مختلف عقائد و مسالک کو ایک جگہ جمع رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ پاکستان میں جو بھی فیصلہ ماورائے آئین و پارلیمان ہوگا وہ اس ملک کی سالمیت کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے ۔

ہمیں سقوط ڈھاکا اور اب بلوچستان میں بڑھی ہوئی شورش سے یہ سبق ملتا ہے کہ عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم نہ کرنے کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمان دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے علاوہ ملک میں غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے کے لیے مناسب قانون سازی کرے ۔ یہی اس ملک کی سلامتی کا واحد راستہ ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔