مسئلہ قدس ، عالم اسلام کے سامنے

صابر کربلائی  جمعرات 29 جنوری 2015

قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کی راہ میں گزشتہ 6 دہائیوں میں سیکڑوں حریت پسند اور عاشقان خدا اپنی منزلوں یعنی شہادت کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں، انھوں نے اپنی زندگی کے بنیادی اصولوں میں عالمی استکباری قوتوں اور عالمی صیہونیت سے مبارزہ کو اپنا اولین بنیادی اصول قرار دیا اور بالآخر فانی دنیا کو خدا حافظ کہتے ہوئے اپنے رب کی جانب اس حال میں کوچ کر گئے کہ ان کے جسم ان کے سرخ لہو سے رنگین ہو چکے تھے۔

ان میں سے بعض تو ایسے تھے کہ جنہوں نے شہادت طلب کارروائیوں کو انجام دیا اور دشمنان خدا کو واصل جہنم کیا جب کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے اہل و عیال کے ہمراہ دشمنان خدا کے خلاف مقاومت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے اور حوض کوثر سے سیراب ہوئے، ایسے ہی مجاہدین خدا میں سے چند مجاہدین کا تعلق مقاومت و مبارزہ کی سرزمین لبنان سے ہے کہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی صرف راہ آزادی قدس کی خاطر صرف کر دی، بالآخر دفاع قدس اور دفاع مسلمین و اسلام کی خاطر راہ خدا میں جام شہادت نوش کیا، یہ سر زمین لبنان ہے کہ جسے مزاحمت و مقاومت اور مبارزہ و جہاد کی سرزمین کہا جاتا ہے۔

اس سرزمین کے فرزندوں نے روز اول سے ہی عالمی استکباری قوتوں کے سامنے نہ صرف سینہ سپر ہو کر جہاد کیا ہے بلکہ سرحد پار موجود ایک غاصب و قابض ریاست اسرائیل کا بھی اس بہادری اور ہوشیاری سے مقابلہ کیا ہے کہ ہمیشہ غاصب اسرائیل کی توسیع کے منصوبوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا، یہ حزب اللہ لبنان کے قائدین و مجاہدین ہیں کہ جن کے قول و فعل میں کبھی تضاد نہیں آتا، انھوں نے ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت اور مظلوم ملت فلسطین کی حمایت کو اپنی زندگی اور اپنے مذہبی عقیدے کا بنیادی اصول رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں فلسطینی پٹی غزہ پر ہونے والی اسرائیلی یلغار خواہ وہ 2008ء، میں ہو یا پھر 2012ء کی 50روزہ جنگ ہو۔

حزب اللہ اور اس کے مجاہدین نے کبھی فلسطینیوں کو کسی میدان میں تنہا نہیں چھوڑا ہے اور اسی طرح اگر ہم بات کریں 2006ء کی اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ کی تو یہاں بھی حزب اللہ لبنان اور اس کے خدا پرست مجاہدین ہی تھے جنہوں نے غاصب اسرائیل کو 33 روز تک ناکوں چنے چبوا کر شکست اور ذلت و رسوائی کے سامنے کھڑا کیا، حزب اللہ لبنان کے مجاہدین کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ مجاہدین کسی دکھاوے یا نام و نمود کی خاطر عالمی استکبار او صیہونزم کے مد مقابل نہیں کھڑے ہوئے بلکہ یہ شعور اور آگہی اور اپنا اسلامی و شرعی فریضہ ادا کرنے اور مظلومین جہاں کی مدد و نصرت کے لیے میدان جنگ میں ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ان مجاہدین میں سے درجنوں ایسے ہیں کہ وہ خود بھی شہید ہوئے ہیں اور ان کے جواں فرزند بھی راہ آزادی قدس میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں، اسی طرح بعض ایسے بھی ہیں کہ والد سے پہلے فرزند شہید ہو چکے ہیں جب کہ بعض ایسے ہیں کہ والد اور فرزند ایک ساتھ شہید ہوئے یا پھر کچھ عرصے بعد شہید ہوئے۔

اس طرح کی مثالوں میں سے ہم حزب اللہ کی ماضی کی قیادت شہید سید عباس موسوی کی مثال دیکھتے ہیں کہ جو خود بھی شہید ہوئے اور آپ کے اہل و عیال اورکمسن فرزند بھی شہید ہوئے، اسی طرح حزب اللہ کی موجودہ قیادت کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سید حسن نصر اللہ کے جواں سال فرزند شہید ہادی نصر اللہ صرف سترہ برس کی عمر میں ہی غاصب اسرائیل سے جنگ کرتے ہوئے شہادت کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں، اسی طرح حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی 2006ء کی 33 روزہ جنگ کے فاتح کمانڈر کہ جن کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے باعث حزب اللہ کے جوانوں نے غاصب اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنیوالی دنیا کی تمام طاقتوں کو ذلیل و رسوا کیا، وہ شہید عماد مغنیہ ہیں کہ جن کے فرزند ارجمند نے حال ہی میں جولان کی پہاڑیوں پر غاصب اسرائیلی افواج کے فضائی حملے میں شہادت نصیب کی ہے۔

اسی طرح شہید حسن القیس ہیں جو حزب اللہ کے اہم ترین افراد اور کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں آپ کے فرزند آپ سے پہلے ہی شہادت پا چکے تھے جب کہ شہید القیس چند ماہ قبل جام شہادت نصیب ہوا۔ ماہ جنوری میں شام و لبنان کی سرحدوں پر واقع جولان کی پہاڑیوں پر ایک ایسا ہی واقعہ رونما ہوا ہے جس نے گزشتہ مجاہدین کی قربانیوں کو ایک مرتبہ پھر زندہ کر دیا اور لوگوں کے دلوں میں انگیزہ پیدا کر دیا ہے، یہ واقعہ شام کی جولان کی پہاڑیوں کے نزدیک قنیطریہ میں وقوع پذیر ہو ا کہ جہاں غاصب صیہونی اسرائیلی جنگی جہازوں نے میزائل حملوں میں چھ افراد کو شہید کیا ان چھ افراد میں محمد احمد عیسی (حزب اللہ لبنانی کمانڈر) ، جہاد عماد مغنیہ (حزب اللہ لبنانی کمانڈر جواد)، عباس ابراہیم حجازی (حزب اللہ لبنانی کمانڈر)، مجاہد محمد علی حسن المعروف کاظم، مجاہد غازی علی ضاوی المعروف دانیال، شہید مجاہد علی حسن ابراہیم شہید ہوئے۔

ان تمام شہداء میں ایک شہید جھاد عماد مغنیہ ہے، یہ شہید عماد مغنیہ کا فرزند ہے، عماد مغنیہ کے دو بھائی فواد مغنیہ اور جھاد مغنیہ پہلے ہی سنہ1984ء اور اس کے بعد غاصب اسرائیلی افواج سے مبارزہ میں شہید ہو چکے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ راہ آزادی قدس میں بے پناہ مجاہدین کا لہو اور قربانیاں شامل ہیں مگر ان میں سے بعض شہید ابن شہید ہیں کہ جن کی قربانیوں نے آج بھی مسئلہ قدس کو عالم اسلام کے سامنے زندہ رکھا ہے، یہ یقینا شہدائے القدس کا لہو ہے کہ جس نے عالمی استکباری قوتوں اور غاصب صیہونی رژیم کو ہلا کر رکھا دیا ہے اور 67 سال گزر جانے کے بعد بھی آج یہی شہداء کا لہو ہے جو گرمی اور حرارت فراہم کر رہا ہے۔

حالیہ وقوعہ کے بعد شہید جھاد عماد مغنیہ کی دادی محترمہ کو جن اپنے پوتے کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے حزب اللہ کی قیادت سید حسن نصراللہ کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ، میرے پاس اب کوئی اور بیٹا باقی نہیں رہا جسے راہ آزادی قدس کے لیے پیش کروں، پہلے فواد، جھاد اور پھر عماد کی شہادت پیش کر چکی ہوں اور اب یہ آخری فرزند تھا اسے بھی پیش کر چکی ہوں ، اے سید حسن نصر اللہ! میں آ پ سے شرمندہ ہوں، کاش میرے اور بھی بیٹے ہوتے میں ان کو قدس کی آزادی کی راہ میں قربان کر دیتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔