تقابلی جائزہ…استدلالی فیصلہ نہیں

عشرت انصاری  جمعـء 30 جنوری 2015

سید بلال قطب کی زیرِ نظر تصنیف کتاب ’’بنامِ خدا‘‘ کئی موضوعات کا احاطہ کرتی ہے، یہ کتاب اُن کے لیکچرز پر مبنی ہے جو انھوں نے مختلف یونیورسٹیز،کالجوں اور سیمینارز میں دیے۔

اس کتاب کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس سے ہمیں یہ فکری شعور حاصل ہوتا ہے کہ آج کل لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں اور فروعی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں اور جو موضوعات قابلِ غور ہیں ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔اس کتاب کا ہر ایک لیکچر بہت سے اُن سوالوں کے جوابات دیتا ہے جو ہمیں کوئی عام آدمی نہیں دے سکتا یا ہم خود شاید نہ سمجھ پائیں۔ اہم موضوعات مثلاً روحانیت، وحدت اور ولایت، تقدیر اور تدبیر، مختلف مذاہب میں تصورِخدا ، شخصیت کی تکمیل، سکونِ قلب، معراج، جادو و حسد اور نظرِ بد، پیری فقیری وغیرہ ۔ کتاب کا پہلا موضوع ہے ’’مختلف مذاہب میں تصورِ خدا‘‘ خدا کئی تصورات سے ملکر بنا ہے مثلاً تاریخی ترقی code of life جیسے ہم شریعت بھی کہہ سکتے ہیں اور جہاں تک comparison تقابل کی بات ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ میرا مذہب ہی بہترین ہے۔

اس بارے میں آپ حتمی بات نہیں کرسکتے۔ آج ساری دنیا مذہبی انتہا پسندی کے ایک گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، یہ لیکچرز اس سمت میں رہنمائی کرتے ہیں۔ اب آپ مصنف کی اس بات ہی کو لے لیں کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا مذہب ہی بہترین ہے۔ یہ بات شاید بہت سے مسلمانوں کو ناگوار گزرے۔ حالانکہ وہ یہ بات تقابلی جائزے کو مد نظر رکھ کر کہہ رہے ہیں ’’یعنی مذاہب کا تقابلی جائزہ‘‘لے رہے ہیں، استدلالی فیصلہ نہیں دے رہے۔ میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ مذہب ہر شخص کو اپنا ہی پسند ہوتا ہے لیکن مذہب کو زندگی کے ہر معاملے سے من پسند طور پر جوڑنا شاید قرین دانش نہ ہو۔

اس کتاب کو پڑھتے وقت کسی نے مجھ سے پوچھا کہ میں یہ کتاب کیوں پڑھ رہی ہوں؟ کیونکہ مصنف اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے کافی متنازعہ فیہ controvercial ہیں لیکن میرا عاجزانہ خیال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا المیہ یہ ہے کہ لوگ اُس شخص کو جواجتہادی نقطہ نظر سے بات کرے یا کوئی نئی علمی بات سامنے لائے اس سے بہت جلد اختلاف کرنے لگتے ہیں اس پوری کتاب میں کم ازکم مجھے کہیں بھی کوئی بات ایسی نہیں لگی جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہومثال کے طور پر اپنے ایک لیکچر ’’جادو، حسد اورنظر بد‘‘ میں وہ کہتے ہیں کہ عام لوگ مذہب کو صرف عبادات کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں ’’اسی لیے میںبہت ادب سے کہتا ہوں کہ مذہب کی تفہیم ایوریج یا below average آدمی کے لیے نہیں ہوتی بلکہ یہ انتہائی پڑھے لکھے اور صاحب عقل شخص کے لیے ہوتا ہے۔‘‘

مزید یہ کہ مذہب کا تہذیبی پہلو جس کو ہم کلچر یا تہذیب کہتے ہیں وہ عام لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔ عام انسان اسلام کے بنیادی 5 ارکان کو پورا کرکے سمجھتا ہے کہ اس نے مذہب کو سمجھ لیا کیونکہ وہ اس پر عمل پیرا ہے جب کہ مذہب یا دین مقصد حیات ہے۔ ہم پاکستانیوں کا عمومی انداز نظر یہ ہے کہ ہم 16سے 18 سال ماسٹرز کرنے میں لگا دیتے ہیں اور اگر Ph.d کریں تو 20تا 22 سال جب کہ ہم 20 مہینے بھی اس ذات بے ہمتا کو سمجھنے میں صرف نہیں کرتے اس کی مشیت کا شعور حاصل نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ شاید ہم اپنی دنیا میں آنے کے مقصد کو سمجھ نہیں پاتے۔بلال اپنے لیکچر ’’روحانیت‘‘ میں کہتے ہیں ایک بنیادی سوال جو ہوتا ہے جس کا جواب انسان ساری زندگی نہیں دے پاتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’میرا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟‘‘ اس مقصد کی تلاش میں انسان ساری زندگی پریشان رہتا ہے اور رہے گا جب تک وہ مذہب کو سمجھنا نہ شروع کردے، جب تک ہم خود کوشش نہیں کرتے ہم اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھ نہیں پاتے۔

مصنف کے خیال میں مقدر اور تقدیر کا سمجھنا یا اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا ناشکرا پن ہے مثال کے طور پر جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے ہم روح پر گفتگو کر رہے ہیں اور مقدر کو کھوجنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کر سکتے جو ہمارے علم کی حدود سے باہر ہیں۔ ہم روح کے بارے میں کچھ نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح ہم مقدر کے بارے میں گفتگو تو کرسکتے ہیں لیکن علمی سطح پر جان نہیں سکتے۔بلال کے مطابق آج کے دور میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ جتنے بھی لوگ دین کی تبلیغ کر رہے ہیں ان کو دنیاوی سائنس میں Ph.D. ہونا چاہیے اس طرح کے لوگوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور بری باتیں نہ کرنا ہی اصل اسلام ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ قرآن کا زیادہ تر حصہ ان چیزوں سے Deal کرتا ہے جو تاریخ، فلسفے ، ما بعد الطبیعات Metaphysics اور انسانی ارتقاء کی تاریخ و کائنات کی تجسیم و تفکر انسانی سے متعلق ہے لہٰذا اگر ہم اچھا مسلمان بننا چاہتے ہیں تو آپ کو قرآن کا 90 فیصد علمی ، عملی و فکری حصہ سمجھنا ہے (جو کہ ہر مسلمان پر لازم ہے) لہٰذا آپ کو فلاسفی، میٹافزکس، بشریات anthropology سب سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بغیر قرآن کی اصل تعلیم کیسے سمجھ میں آسکتی ہے؟ لہٰذا علم کی ایک سمت dimensionہے اور وہ ہے قرآن مبین ۔اس کتاب میں ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب ہم عام زندگی میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں پر ڈھونڈ نہیں پاتے۔ اس کتاب میں ہر اہم موضوع مثلاً جادو، حسد، نظر بد، سکون قلب، تقدیر اور تدبیر، اسلام میں خواتین کا کردار اور پیری مریدی فقیری شامل ہیں۔ بلاشبہ مصنف نہ صرف ایک مشہور اسکالر ہیں بلکہ روحانیت کو بھی سمجھتے ہیں۔ یہ کتاب ہر اس انسان کے لیے سوچ کا نیا در ثابت ہوگی جو چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھے رہتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم لوگ آج کل فکری مغالطے میں گرفتار ہیں اور زندگی کی بڑی باتوں کی طرف ہماری کوئی توجہ نہیں ہے مثال کے طور پر جیسے ہی کوئی لڑکی یا عورت قرآن پڑھنے کے لیے کسی اکیڈمی میں داخلہ لیتی ہے تو سب سے پہلے برقعہ اور پھر نقاب اوڑھنا شروع کردیتی ہے بعد میں چاہے وہ قرآن کا ترجمہ اور تفسیر مکمل کرے یا نہ کرے لیکن اب اس نے نقاب آخری دم تک لگانا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ کبھی کسی عورت نے قرآن کی مکمل تفسیر کیوں نہیں لکھی ان 65 سالوں میں؟ ہمارا سارا زور بس نقاب اور پردے پر ہے ۔بلال قطب کے لیکچرز کے اس مجموعہ میں سوالات اور جوابات بھی شامل ہیں۔350 صفحات پر مشتمل یہ کتاب بہت سارے سوالات کے جوابات دیتی ہے۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی الجھنیں بعض اوقات بڑی بن جاتی ہیں۔ ان لیکچرز میں پتا چلتا ہے کہ کس طرح ان چھوٹی چھوٹی الجھنوں سے نکلنا ہے اور قرآن کی روشنی میں اصل زندگی کی طرف گامزن ہونا ہے۔ ایک ایسی زندگی جس مقصد کے لیے ہم پیدا کیے گئے ہیں۔ مقصد کو تلاش کر کے نہ صرف اپنی زندگی کو خوبصورت اور کامیاب بنانا ہے بلکہ اپنے اردگرد رہنے والوں کی زندگیوں کو بھی بہتر بنانا ہے۔ہوسکتا ہے میرے انداز نظر اور تبصرہ میں کوئی کمی یا خامی ہو تاہم مجھ سمیت پوری نئی نسل کو فکری رہنمائی کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔