محققوں کی تازہ دریافت، دو مسلمان

انتظار حسین  جمعرات 5 فروری 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

کسی بے دین کے مسلمان ہونے کی خبر معمولی خبر تو نہیں ہوتی۔ وہ خبر خوشخبری کی حیثیت رکھتی ہے اور اسلام کی حقانیت کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔ اگر اس وجہ سے ہم ایسی خبر کو خوشخبری جانتے ہیں تو حیف ہے ہم پر۔ چودہ سو، ساڑھے چودہ سو برس گزرنے کے بعد بھی ہماری دانست میں اسلام اپنی حقانیت کے لیے ایسی دلیلوں کا محتاج ہے۔ بہرحال پہلے تو اس ضمن میں دو خوشخبریاں سن لیجیے۔ یہ دونوں ہی خوشخبریاں اپنی اپنی جگہ تحقیق کے کارنامے ہیں۔

ایک ایسی تحقیق کا ذکر ہم اب سے دو ڈھائی ماہ پہلے اسی کالم میں کر چکے ہیں۔ ہم گئے تھے ایف سی کالج میں کرشن چندر کی افسانہ نگاری کے بارے میں نئی تنقید اور نئی تحقیق سننے کے شوق میں۔ مگر وہاں کچھ دوسرا ہی گل کھلا۔ وہاں پشاور یونیورسٹی سے آئے ہوئے ایک محقق تشریف فرما تھے۔ انھوں نے کرشن چندر کے بارے میں افسانوں سے بڑھ کر ان کی تبدیلی مذہب کے سلسلہ میں ایک معرکہ کی تحقیق کر رکھی تھی۔ یہ کہ کرشن چندر اپنا آبائی مذہب ترک کر کے مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔ اس کے ساتھ ان کا نام بھی مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ یہ نیا نام تھا وقار ملک۔

یہ تحقیق ہے محمد اویس قرنی کی جو پشاور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے کس شوق سے اپنی یہ کتاب ہمیں عطا کی تھی۔ ہم سمجھے تھے کہ انھوں نے کرشن چندر کی افسانہ نگاری کے بارے میں تنقید و تحقیق کا حق ادا کیا ہو گا۔ کتاب کھول کر پڑھنا شروع کیا تو وہاں اس سے بڑھ کر تحقیقی کارنامہ انجام دیا گیا تھا۔

اب دوسری خوشخبری سنیے، یہ کہ نپولین بونا پارٹ خیر سے مشرف بہ اسلام ہو گیا تھا۔ خبر ہے اٹھارویں صدی کی۔ ہمیں موصول ہوئی ہے اب اکیسویں صدی میں۔ اس کے لیے ہمیں ممنون ہونا چاہیے اس محقق کا جن کا نام ہے محمد طارق علی شاہ کا اور رسالہ الاقربا کا جو ممنون ہے زاہد رضا خاں ڈائریکٹر وزارت خارجہ پاکستان کا جن کی عنایت سے اسے یہ مقالہ موصول ہوا۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ کونسی زبان میں لکھا گیا تھا۔ بس یہ بتایا گیا ہے کہ اردو میں اس کا ترجمہ محمد طارق علی ایک بزرگ نے کیا ہے۔

یہ پوچھنے کو کس کا جی نہیں چاہے گا کہ تب سے اب تک نپولین کے بارے میں کتنی کچھ معلومات ہمیں مہیا ہو چکی ہیں۔ اس کے مسلمان ہونے کا واقعہ کیوں چھپا رہا۔ تو محقق سے اس کی توجیہہ سن لیجیے کہ ویسے تو تاریخ کی کتابیں اس ’’مرد یورپ‘‘ کے جنگی کارناموں سے بھری پڑی ہیں لیکن ’’مرد یورپ‘‘ کی شخصیت کی ایک ایسی چشم کشا حقیقت بھی ہے جو اس کے کارناموں کے انبار میں دبی رہ گئی عام نہیں ہوئی۔‘‘ یہ کہ ’’اس نے اسلام قبول کیا اور علی بونا پارٹ نام اپنایا۔‘‘

عجب ثم العجب۔ نپولین کے سارے جنگی اور غیر جنگی کارناموں کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجا مگر کیا یہ کوئی چھوٹا واقعہ تھا کہ اس کے جنگی کارناموں کے نیچے دب گیا۔ ارے یورپ کی ساری عیسائی دنیا نے ایک نامور عیسائی کو مسلمان بنتے دیکھا اور منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی رہی۔ یا یوں ہوا کہ جیسے غیرت مند باپ بیٹی کو اغوا ہوتے دیکھتے رہتے ہیں اور غیرت کے مارے ان کی زبان نہیں کھلتی ویسے ہی عیسائی نے اپنے جنگی ہیرو کو مسلمان بنتے دیکھا۔ ان کی غیرت نے اجازت نہیں دی کہ اس سلسلہ میں شور و غل کرتے۔ اگر ایسا تھا تو ہمارے مسلمان محقق کہاں مر گئے تھے۔

کیسے کیسے گمنام واقعہ کی تحقیق میں کنوئوں میں بانس ڈالتے ہیں اور امر واقعہ کو برآمد کر لیتے ہیں۔ ادھر نپولین چھپ کر تو مسلمان نہیں ہوا تھا۔ محقق موصوف کا بیان ہے کہ ’’1798 میں نپولین اپنی پچپن ہزار فوج کے ساتھ مصر پہنچا۔۔۔۔ مصر پہنچتے ہی نپولین نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔۔۔ اسلام قبول کر لیا اور حضرت علیؓ کے نام نامی پر اپنا اسلامی نام علی بونا پارٹ رکھا۔ اس نے اپنی اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ ایک ایسا باقاعدہ طرز حکومت قائم کیا جائے جو قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں پر استوار ہو۔‘‘

مطلب یہ کہ نپولین ڈنکے کی چوٹ پر مسلمان ہوا تھا۔ کیا سارا یورپ بہرا ہو گیا تھا کہ یہ اعلان انھوں نے نہیں سنا۔

اور مسلمان محققین کیا گھوڑے بیچ کر سوئے تھے کہ اس ڈنکے کی چوٹ اس اعلان کی خبر انھوں نے نہیں سنی۔

اب اس لمحۂ فکریہ پر یار ذرا غور کریں اور ہم واپس اپنے برصغیر کی طرف آتے ہیں۔ ارے کرشن چندر کوئی چھوٹی موٹی شے تھے۔ بھلے وقت میں ان کے افسانوں کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ ان کے مداح پورے برصغیر میں پھیلے ہوئے تھے اور خود بمبئی میں جہاں یہ واقعہ گزرا اور کرشن چندر نے کلمہ پڑھا وہاں ان کا کیسا کیسا ہمعصر اور کیسا کیسا رفیق سفر بیٹھا تھا۔ سجاد ظہیر، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری۔ ارے سب ہی نے ان مبارک گھڑیوں میں گونگے کا گڑ کھا لیا تھا۔ ہاں میرا جی نے تو ڈیرا کرشن چندر ہی کے گھر میں ڈال رکھا تھا مگر خیر میرا جی کو تو خود اپنے مسلمان ہونے کی ایسی زیادہ خبر نہیں تھی۔ کرشن چندر کے دین ایمان کا اسے کیسے پتہ چلتا۔

لیجیے ہمیں دو اور ہندو یاد آ گئے جو سچ مچ مسلمان ہو گئے تھے۔ اب ڈاکٹر مالک رام، ہم کیا کہیں۔ سنا یہی تھا کہ واقعی وہ مسلمان ہوگئے تھے اور روزہ نماز والے مسلمان۔ لیکن یہ ان کی قسمت کہ مسلمان ہو کر بھی رہے وہی کافر کے کافر۔ ہوا یوں کہ ادھر وہ مسلمان ہوئے اور احمدیت کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ ادھر ذوالفقار علی بھٹو کی سرکردگی میں پارلیمانی ایوان پاکستان نے احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ بیچارے ڈاکٹر مالک رام پھر نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے رہے۔

مگر گاندھی جی کے فرزند ارجمند نے ڈنکے کی چوٹ پر بمبئی کی بڑی مسجد میں جا کر کلمہ پڑھا تھا۔ بمبئی کے مسلمان کتنے خوش ہوئے تھے۔ انھوں نے گاندھی جی کو خط لکھا کہ اگر پدر نتواند پسر تمام کند۔ بیٹے کی بات پر دھیان دیں اور آپ بھی مسلمان ہو جائیں۔ گاندھی جی نے کیا خوب جواب دیا۔ ذرا کان لگا کر سنیے۔

انھوں نے کہا کہ میں اسلام کا دل سے احترام کرتا ہوں۔ آپ نے جو مجھے دعوت اسلام دی ہے اس کے لیے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مگر تھوڑا انتظار کر لیجیے۔ اگر میرے بیٹے کے مسلمان ہو کر بھی وہی لچھن رہے جو ہندو ہوتے ہوئے اس کے لچھن تھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اسلام کی تعلیمات بھی اس نالائق کو راہ راست پر نہیں لائیں اور گاندھی جی سچے نکلے۔ ہوا یوں کہ مہاتما کا نالائق بیٹا پھر اپنے مذہب پر واپس چلا گیا اور اس طرح واپس گیا کہ وہ سیوک سنگھ میں بھرتی ہو گیا۔

مگر کرشن چندر کا معاملہ ان دونوں سے الگ ہے۔ بمبئی کے بھرے شہر سے جہاں ہندو اور مسلمان دونوں بسے ہوئے ہیں کوئی ایسا نہ اٹھا کہ کرشن چندر کے مشرف بہ اسلام ہونے کی گواہی دیتا۔ گواہی کہاں سے آئی ہے۔ پشاور شہر سے۔ اس گواہی کے گواہ ابھی تو اکیلے ہم ہیں۔ اس کتاب کا اگر نوٹس نہ لیا گیا تو ہماری گواہی بھی ضایع جائے گی۔

ارے کرشن چندر کے تو جنازے پر بھی کوئی جھگڑا فساد نہیں ہوا ورنہ وہ ہمارے زمانے کے سنت کبیر بن جاتے۔ یعنی مسلمانوں کے لیے مسلمان، ہندوئوں کے لیے ہندو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔