یہ بے بسی

فرح ناز  جمعـء 6 فروری 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

بے بسی بھی عجیب احساس ہے جو نہ کبھی مرنے دے اور نہ جینے دے۔ بے بسی ایسی کہ اپنے، اپنے ہی ہاتھوں میں دم توڑ دیں اور انسان کچھ نہ کرسکیں نہ آئی کو ٹال سکیں اور نہ سیکنڈ، منٹ اور گھنٹے بڑھا سکیں۔

طاقت سے اکڑی ہوئی گردن بھی اس بے بسی کوکبھی نہ ختم کرسکی اور نہ کرسکے گی کہ زندگی ، موت اور رزق تو صرف اور صرف اللہ عالی شان کی قدرت ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک کے لیے ہے تاقیامت تک یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا، لوگ آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گے ملکوں ملکوں کی تاریخیں بنتی رہیں گی اور ملکوں کے فرعون تمام دنیا کے لیے عبرت بنتے رہیں گے۔ کتنا بے بس ہے انسان کہ اپنی مرضی سے پلک بھی نہیں جھپک سکتا، معذوری آجائے تو سیدھا تنکے کی طرح برسوں پڑا رہے اور سوکھتا رہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کی کوئی مدد نہ کرسکے۔

مکاری اور ظلم ایسا کہ ہزاروں انسانوں کو کھا جائے اور ڈکار بھی نہ لے۔ اور ایسی مکاری اور ظلم اللہ کے حکم عالی شان سے ایسی بے بسی میں بدلتی ہے کہ جسم گوشت کا لوتھڑا بن جائے اور اپنے ہی لوگ نظریں چرانے لگیں۔کہتے ہیں کہ جزا و سزا کا عمل برحق ہے، اللہ کے قانون برحق ہے تمام زمانوں کے لیے تمام انسانوں کے لیے بلکہ اگر ہم غور کریں تو اللہ نے جانوروں پر رحم کرنے کے صلے میں بھی انسانوں کو بخش دیا، ایک طوائف کو اس لیے بخشا گیا کہ اس نے پیاسے کتے کو پانی پلادیا اور آج کے دور میں ہم انسانوں کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر رحم کرنے کو تیار نہیں۔

اپنا چین اپنا آرام اپنی آسائشیں۔ ان تمام چیزوں نے انسانوں کو مردہ انسان کا گوشت کھانا بھی سکھا دیا کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جب قبروں میں دفنائے جاتے ہیں تو گھات لگائے بے غیرت انسان ان کو قبروں سے نکال کر ان کے گوشت سے اپنی بھوک کی آگ کو سیراب کرتے ہیں، اور بے بسی یہ بھی ہے کہ کوئی ان کو پوچھنے والا اور کوئی ان کو روکنے والا نہ ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر یہ تمام واقعات اور ان کی تفصیلات بریکنگ نیوز بن کر گھن گرج کے ساتھ 24گھنٹے آتی بھی رہتی ہے کیا خاص آدمی اور کیا عام اب تو تندور والا اور سبزی والا بھی ان حالات کو واقعات کو جان رہا ہے مگر ہائے بے بسی۔

مدرسے ہوں یا اسکول، جامعات اور یونیورسٹی، یہ سب کی سب درسگاہیں اسی لیے وجود میں آئی کہ انسانیت کو زندہ رکھا جاسکے، اللہ کے قانون کو زندہ رکھا جاسکیں، وحشت، درندگی کا ان سے دور دور تک کا بھی تعلق نہیں لیکن عدل و انصاف جب اپنی آنکھیں بند کرلیں اور حق کی بجائے ظلم پروان چڑھے، مظلوم سسکتا رہے اور ظالم مسرور رہے تو درسگاہیں بھی بے بسی کی تصویر بن جاتی ہے۔ ہوتا تو وہی جو رضا الٰہی ہوگی مگر نیت تو ہمیں ہر حال میں صحیح کرنی ہوگی۔

اکیسویں صدی کو جدید ٹیکنالوجی، ترقی اور جدید علم کی صدی سمجھا جاتا ہے، دنیا ایک چھوٹی سی clicks پر آگئی، معلومات کے خزانے Googleپر Type کرنے سے آنکھوں کے سامنے، الیکٹرانک میڈیا 24 گھنٹے گھن گرج کے ساتھ کہ جب چاہے جو چاہے دیکھیے پھر بھی احساس اس حد تک مردہ ہوجائے کہ اسلامی ریاست میں جہاں اللہ اور قرآن کو سب سے بڑا دین مانا جائے کلمہ پڑھ کر گواہی دی جائے وہاں مردہ جانوروں کا گوشت سر عام فروخت ہو، مردہ جانور اور ان میں گدھے گھوڑے کا گوشت بھی شامل ہوجائے۔

اس طرح کی لذتیں دلوں کو کہاں زندہ رہنے دیں گی، مختلف کھانے کی فرانچائز بھی اپنے نام اور Trade Markکے ساتھ موجود ہے Expire Date کا گوشت جو شاید پھینکنے کے قابل ہوتا ہے اس کو سجا کر مہنگے داموں بیچا جا رہا ہے اور Brand کے دیوانے اپنے بچوں کو fashionable بنانے کے چکر میں صبح و شام اس سڑے ہوئے گوشت کے لشکاروں سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ پیسہ کمانے والے پیسہ کما رہے ہیں اور عقل کا ماتم کرنے والے چیخ رہے ہیں مگر بے بس ہے کہ ان کی چیخ و پکار پر کوئی کان دھرنے والا نہیں ہے، دل و دماغ ہیں کہ دن بدن مردہ ہوئے جا رہے ہیں جو ضمیر کی بات کرتے ہیں وہ پرانے زمانے کے لوگ ہیں شاید!

گند و غلاظت کا ایک طوفان ہے کہ جس کی لپیٹ میں ہر شخص اپنا ذہنی توازن کھو رہا ہے، کچھ بدمست ہاتھی کی چال چل رہے ہیں کچھ مدہوش لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ ہیں۔ کہیں فیشن کے نام پر، کہیں آزادی کے نام پر اور کہیں مذہب کے نام پر انسانیت تو جگہ جگہ بے بس نظر آرہی ہے کہ ہم اپنے علم و دانش اور دیانت داری کی طاقت کو گنوا بیٹھے ہیں اور ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں ان لذتوں کے پیچھے ان حقیر سکوں کے پیچھے جن کی کوئی حیثیت نہیں اگر وہ انسانیت کے کام نہ آسکیں تو!

’’ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے‘‘ یہ صرف لکھنے اور پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ یہ اپنانے کے لیے اور ہماری روزمرہ زندگی میں اپنانے کے لیے ہے مگر اس کے برعکس دن ورات میں کئی دفعہ پوری پوری انسانیت کو قتل کردیا جاتا ہے۔ لاشیں بے گوروکفن راستوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔ شکلیں پہچان پہچان کر لوگ روتے پیٹتے اپنوں کی فریاد کرتے ہیں اور پورے پورے خاندان ایک فرد کے ساتھ قبر میں دفنا دیے جاتے ہیں۔ انسانیت اپنے ننگے وجود کے ساتھ بے بس ہے کیا کیجیے، کہاں سے لائیں علامہ اقبال کو کہاں سے ڈھونڈیں ایک سرسید احمد خان کہاں سے لائیں ایک اور قائد اعظم!

سسکتے ہوئے بدحواس انسان جب کبھی اپنے دل و دماغ کو کھنگالتے ہیں تو خالی پن کے سوا کچھ حاصل نہیں کہ سونے و چاندی کے در و دیوار بھی عقل و دانش نہیں دے سکتے اور جن کے پاس یہ نبیوں والا علم ہے وہ کبھی خالی نہیں رہ سکتے تب تک تو بالکل نہیں جب تک وہ اسے بانٹتے رہے۔جھوٹ و فریب کی چمکتی دنیا میں دھوکا و فریب کے سوا کچھ نہیں، جس عمارت کی بنیاد ہی بوگس ہو وہ عمارت مضبوط کیسے ہوگی۔ کمزور عمارتوں کی طرح بے بس انسان، کبھی اپنے آپ کو فرعون سمجھتا ہے اور کبھی بادشاہ سلامت اور کچھ سیکنڈز ہی لگتے ہیں اللہ کو جب اس کی اوقات دلانے میں۔

کھیل تماشا بن کر رہ گئی ایک عام آدمی کی زندگی کہ نہ صنم ملا نہ وصال صنم۔ بدبختی بڑھتی ہی چلی جائے گی اگر ہم نے اپنا قبلہ سیدھا نہ کیا تو جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا مگر ہر اعمال کا جوابدہ انفرادی بندہ خود ہوگا چاہے مسند پر بیٹھا ہو یا ایک عام آدمی، جو جتنی بڑی جگہ، اتنی بڑی ذمے داری اتنا ہی زیادہ جوابدہ، کہ انسان، انسانوں کے سوال جواب کو نظرانداز کر سکتا ہے مگر جس نے پیدا کیا جو مالک ہے اس سے بچ کر کہاں جائے گا حکم باری تعالیٰ ہے کہ انسان تنہائی میں بھی جو گناہ کرے تو اللہ سب جانتا ہے چاہے وہ سات پردوں میں اپنے آپ کو چھپا لیں۔

ڈر اور شرم تو اس ذات پاک سے کریں کہ جس کے پاس ہمیں واپس جانا ہے اپنی کم مائیگی اور تمام تر بے بسی کے ساتھ! تمام طاقتوں کا سرچشمہ تو صرف ایک ہی ذات ہے باقی تو سارے مٹی کے نیچے دفن ہوتے رہے اور ہوتے رہیں گے بس ظلم اور بے بسی کی کہانیاں باقی رہ جائے گی اور کامیاب صرف وہی ہوگا جس نے اللہ سے ہدایت پالی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔