اُلّو دہشت کی علامت بن گیا!

ندیم سبحان  منگل 3 مارچ 2015
انگلستان کی کاؤنٹی میں لوگوں نے شام کے بعد گھروں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ فوٹو: فائل

انگلستان کی کاؤنٹی میں لوگوں نے شام کے بعد گھروں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ فوٹو: فائل

انگلستان کے علاقے کوٹسولڈ کے رہائشی ان دنوں دہشت میں مبتلا ہیں۔ اس دہشت کا سبب نہ تو القاعدہ ہے، نہ ہی طالبان اور نہ ہی داعش، بلکہ ایک الّو نے انھیں خوف زدہ کر رکھا ہے! شبینہ پرندہ رات کی تاریکی میں گھر سے تنہا باہر نکلنے والے لوگوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اب تک کئی افراد اس کا نشانہ بن چکے ہیں۔

برطانوی کاؤنٹی میں دہشت کی علامت بن جانے والا الوالوؤں کی اس قسم سے تعلق رکھتا ہے جو ’’ عقابی الو‘‘ ( Eagle owl) کہلاتی ہے۔ اس نسل سے تعلق رکھنے والے الو غیرمعمولی طور پر بڑے ہوتے ہیں۔ اس الّو کے پروں کا پھیلاؤ ساڑھے پانچ فٹ ہے، پنجے تیزدھار ہیں جو نشتر کی طرح شکار کی جلد میں اترجاتے ہیں۔

عقابی الو یورپ میں عام پائے جاتے ہیں مگر برطانیہ کے جنگلات میں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے البتہ گھروں میں یہ ضرور پالے جاتے ہیں۔ الو پالنے کا رواج برطانیہ میں کئی صدی پہلے شروع ہوا تھا۔ آج بھی کئی ہزار لوگوں کا روزگار اس کاروبار سے وابستہ ہے۔رائل سوسائٹی فار پروٹیکشن آف برڈز کے مطابق ہر سال درجنوں پالتو الّو ’ فرار ‘ ہوجاتے ہیں۔غالب امکان ہے کہ یہ الّو بھی کسی ’ گھر سے بھاگا ‘ ہوا ہے۔ اس نے بیشتر حملے کوٹسولڈ کے علاقے Synwell میں کیے ہیں۔ اسی لیے لوگوں نے اسے Synwell کا نام دے دیا ہے۔

Synwell کا نشانہ بننے والوں میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں۔ 70 سالہ ٹیک سو ڈن ریٹائرڈ نرس ہے۔ چند روز پہلے وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی جب اس کی نظر قریب ہی لگے ہوئے بجلی کے کھمبے پر پڑی۔ کھمبے پر وہی جسیم اُلّو بیٹھا ہوا تھا جس نے علاقے میں دہشت پھیلا رکھی ہے۔ ٹیک کے دل میں الو کی تصویر کھینچنے کا شوق چُرایا۔ چناں چہ وہ کیمرا اور ٹارچ اٹھائے گھر سے باہر آگئی۔ بوڑھی عورت نے ٹارچ کی روشنی الو پر ڈالی۔

الو کو غالباً اس کی یہ ’جسارت‘ پسند نہیں آئی۔ وہ کریہہ آواز نکالتے ہوئے اس کی جانب لپکا۔ قوی الجثہ پرندے کو اپنی طرف آتے دیکھ کر ریٹائرڈ نرس خوف زدہ ہوگئی اور واپس دروازے کی جانب دوڑی۔ اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ منہ کے بل زمین پر آرہی۔ گرتے ہوئے ٹیک کا بازو سیڑھی کے قدمچے سے ٹکرایا اورکلائی ٹوٹ گئی۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/12.jpg

چوہتر سالہ مارگریٹ سڑک پر جارہی تھی جب الو اس پر حملہ آور ہوا۔ اس کے تیز ناخنوں نے بوڑھی عورت کے سر کی کھال اُدھیڑ ڈالی تھی۔ مارگریٹ کی چیخ پُکار پر دو افراد دوڑتے ہوئے آئے۔ ان کی آمد پر حملہ آور پرندہ’ رفوچکر‘ ہوگیا۔ مارگریٹ کے چھیاسٹھ سالہ شوہر رابرٹ کو الو نے اس وقت نشانہ بنایا جب وہ رات کے کھانے کے بعد گھر کے باہر چہل قدمی کر رہا تھا۔ خوش قسمتی سے رابرٹ اس کے پنجوں کی زد میں آنے سے محفوظ رہا تھا۔ رابرٹ کا کہنا ہے کہ الو کے حملے کے بعد اس کی بیوی اتنی خوف زدہ ہوگئی ہے اس نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا ہے۔

ٹیک، مارگریٹ اور رابرٹ کی طرح کئی اور لوگ بھی Synwell کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اپنی خونخواری کے باوجود یہ الو کچھ مقامی لوگوں میں اتنا مقبول ہوگیا ہے کہ انھوں نے فیس بُک پر اس کا پیج بنا ڈالا ہے۔اس کے فالوورز کی تعداد پانچ سو تک پہنچ گئی ہے۔ فیس بُک کے علاوہ ٹویٹر پر بھی اس کے بارے میں باقاعدگی سے ٹویٹ کی جارہی ہیں۔

پرندوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہSynwell لوگوں پر حملہ آور نہیں ہورہا۔ انٹرنیشنل سینٹر فار برڈز کی اہل کار جمائما پیری جونز کے مطابق انسان کی قید میں رہنے والے پرندوں کو ان سے انسیت ہوجاتی ہے، اسی لیے وہ ان کی طرف بڑھتے ہیں۔ Synwell کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ وہ حملہ آور نہیں ہوتا بلکہ انسانوں سے مانوس ہونے کی وجہ سے ان کی طرف بڑھتا ہے، تاہم چوں کہ وہ ایک جسیم پرندہ ہے اور اس کے پنجے نوکیلے اور خطرناک ہیں جو زخمی کردیتے ہیں، اس لیے لوگ Synwell کے ’ انداز محبت‘ کو حملہ سمجھ لیتے ہیں۔

بہرحال وجہ جو کچھ بھی ہو کوٹسولڈ میں اس پرندے کی وجہ سے خوف و دہشت کی فضا قائم ہوچکی ہے اور لوگ شام کے بعد گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔