پھانسی تماشے اور بڑوں کی ضیافتیں
ہمیں یہ کیا ہو گیا ہے کیا ہمارے اندر سے انسانی جذبات اور احساسات ختم ہوتے جا رہے ہیں اور ہم پر حیوانیت غالب آ رہی ہے۔
Abdulqhasan@hotmail.com
لوگ کسی بھی موبائل فون پر عوام کے خیالات بھی نقل کر دیتے ہیں۔ ایک ٹیلی فونی پیغام میں جناب زرداری کی طرف سے ایک ضیافت کا ذکر ہے جس میں ایک سو بیس عدد کھانوں کا ذکر ہے لیکن ان دنوں ہمارے جوان برفانی اور انتہائی دشوار علاقوں میں جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔
کوہستانی وزیرستان ہو یا دنیا کا سب سے بلند محاذ جنگ سیاچن انھیں یہاں ایک مقررہ قسم کا راشن ملتا ہے۔ کیا یہ جوان ان دنوں جس ناقابل بیان مشقت سے گزر رہے ہیں کیا یہ یہاں ڈیوٹی کرتے رہیں تا کہ یہ لوگ آرام دہ کھانوں میں مزے اڑاتے رہیں اور یہ جوان ملک اور ان لوگوں کی حفاظت کے لیے زندگیاں قربان کرتے رہیں۔ بہرکیف یہ تو پرانے زمانے کے پاکستانیوں کی باتیں ہیں جو ان کے اور ہمارے دل جلاتی ہیں۔
سب کو معلوم ہے کہ ادھر کچھ عرصے سے پھانسی کی سزا موقوف رہی ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک اسلامی قانون پر عمل کرنے پر یہ پابندی عائد رہی ہے کیونکہ یورپ کے بعض ملکوں میں سزائے موت کو وحشیانہ سمجھا گیا اور ان کی اقوام متحدہ نے بھی اپنے ان طاقت ور ارکان کی بات مان لی لیکن ادھر کچھ عرصہ سے حکومت پاکستان کو اپنی اس حرکت سے پیدا ہونے والی معاشرتی خرابی کا احساس ہوا اور جو سزا جرائم کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھی اس کو پھر سے جاری کر دیا گیا اب بہت بڑی تعداد کو رفتہ رفتہ پھانسی دی جا رہی ہے۔ یہ سزا اپنی جگہ لیکن ساتھ ہی اس سزا کو ایک تماشا بھی بنا دیا گیا ہے۔
کسی کو سزا ملنے سے پہلے اور بعد میں میڈیا میں اس کا خوب چرچا اور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور اسے کسی بڑی اور خدا محفوظ رکھے خبر کا موقع سمجھا جاتا ہے۔ جلادوں تک کا ذکر بھی کیا جاتا ہے کسی جیل کے سیکیورٹی کے انتظامات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ میڈیا کو پھانسی کی سزا دکھانے کی اجازت نہیں ہے ورنہ وہ کیمرے لے کر کسی پھانسی کا منظر فلمانے کے لیے پھانسی گھاٹ پر حملہ کر دیتے اور قوم کو کسی گناہگار انسان کا انجام بڑے شوق کے ساتھ دکھاتے۔
کسی پھانسی کے اس سانحہ کا ذکر جس تفصیل کے ساتھ کیا جا رہا ہے اس کا ہمارے بچوں پر بہت بڑا اثر پڑ رہا ہے وہ پشاور جیسے سانحے سے پہلے ہی ڈرے ہوئے ہیں مزید خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ سب کیا ہے اور کسی نے ایسا کیا کر دیا ہے جس کی سزا دی جا رہی ہے۔ یہ سب سوائے ایک مجرمانہ لذت پرستی کے کچھ نہیں جس سے کسی دوسرے انسان کو سزا ملنے کے سانحے سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔
ہمیں یہ کیا ہو گیا ہے کیا ہمارے اندر سے انسانی جذبات اور احساسات ختم ہوتے جا رہے ہیں اور ہم پر حیوانیت غالب آ رہی ہے اور انسانیت غائب ہو رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے فرائض میں صرف تعزیرات پر عملدرآمد ہی نہیں بلکہ کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں جو انسانیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ حکمرانی ایک مشکل ترین کام ہے اور جہانبانی کو اعلیٰ ترین انسانی فرائض میں سمجھا جاتا ہے۔ اس پر بہت کچھ کتابی صورت میں بھی موجود ہے اور مسلمانوں کی تحقیق اور تحریر تو اس میں اولین ہے کیونکہ مسلمانوں نے ہی اپنی حکومتوں میں عوامی حقوق کی ایک نئی طرز ایجاد کی ہے اور دنیا کو پہلی بار ویلفیئر ریاست کا تصور دیا ہے جو آج بھی ایسی ریاستوں کا رہنما ہے البتہ یہ ایک الگ سانحہ ہے کہ خود مسلمانوں نے اپنی ریاستوں میں عوامی بہبود کے اس تصور کو بھلا ہی نہیں دیا متروک کر دیا ہے۔
یہاں میں نیک اور خلق خدا کے خادم مسلمان حکمرانوں کی مثالیں پیش کرنا شروع کر دوں تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو کیونکہ ان کے رات دن اور پوری زندگیاں ہی عوام کے لیے وقف تھیں اور وہ گھر گھر جا کر حالات کا جائزہ لیا کرتے تھے اور پھر بذات خود اپنے ہاتھوں سے عوامی تکالیف کا ازالہ کرتے تھے جب کوئی کہتا کہ یہ کام آپ کسی دوسرے سے بھی کرا سکتے ہیں تو جواب ملتا قیامت کے دن اس کا جواب میں دوں گا یا کوئی دوسرا۔ بہر کیف ایسی باتیں کر کے میں پاکستانی عوام کو بدمزہ نہیں کرنا چاہتا اور ان کے حکمرانوں کو شرمسار نہیں کرنا چاہتا لیکن عوام تو بدمزہ ضرور ہوں گے مگر ان کے حکمران کبھی شرمسار نہیں ہوں گے۔
ان دنوں تو بے شرمی کی حد ہو گئی ہے اور یہ پہلی بار میں دیکھ رہا ہوں کہ اخباروں میں کسی بڑے کی طرف سے دعوت بلکہ ضیافت میں کھانوں کی تفصیل تک درج ہوتی ہے جو کسی میزبان کے لیے شرم کی بات ہے لیکن یہ بے شرمی جاری ہے اور بھوکے عوام کی پروا کیے بغیر ان کے بھوکے اور سکڑتے ہوئے سینوں پر مونگ دلے جاتے ہیں۔ ہماری بے حسی تو یہانتک پہنچ گئی ہے کہ بعض مشہور خوش خوراک بڑے جب کسی ضیافت سے فارغ ہوتے ہیں اور کھانا' پسند نہ آئے تو اس کا برملا ذکر بھی کر دیتے ہیں جو میزبان کو شرمندہ کر جاتا ہے مگر جو کھانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں انھیں اس کی پروا نہیں ہوتی۔
ایک قحط سالی میں لوگوں نے جب اپنے حکمران کو دیکھا کہ سرخ و سفید رنگ سیاہی مائل ہو رہا ہے ہڈیاں نمایاں ہو رہی ہیں اور جسم کی کمزوری واضح ہے تو چند افراد نے ہمت کر کے عرض کیا کہ امیر المومنین اپنے اوپر سختی نہ کریں کیونکہ آپ کی کمزوری سے کاروبار مملکت متاثر ہوتے ہیں اس پر اس نے وہ مشہور جواب دیا جو تاریخ بار بار دہراتی ہے کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا رہے گا تو اس کی جوابدہی آپ لوگوں نے نہیں عمر نے کرنی ہے۔ یہ سن کر ان کے ساتھی خاموشی سے چلے گئے کیونکہ وہ اسے جانتے تھے۔
آج کے حکمرانوں سے شاید ایسے مطالبات کرنا عمومی طور پر مناسب نہ سمجھا جائے اگرچہ ہمارے ان پرانے تاریخ ساز حکمرانوں کے بھی دو ہی ہاتھ تھے اور وہ بھی دیکھنے میں آج کے انسانوں کی طرح تھے۔ آج کے حکمران بھی یہ سب کیوں نہیں کر سکتے ان کے لیے بھی وہ ہدایات زندہ سلامت موجود ہیں ۔
جنہوں نے ہمارے سابقہ حکمرانوں کو مثالی حکمران بنا دیا تھا مگر سینوں کے اندر وہ کچھ نہیں ہے جو قدرت نے اور احساس ذمے داری نے ان کے اندر بھر دیا تھا۔ ہمارے حکمران اپنی نازک اور آسودہ جانوں پر سختی بے شک نہ کریں بلکہ اپنی انتظامیہ میں فرض شناسی پیدا کرنے کی فکر کریں اور ملک کو عام انسانوں کی زندگیوں کے لیے جائے پناہ بنا دیں لیکن وہ دکھی کر جاتے ہیں ان کے یہ انواع و اقسام کے کھانے اور ان کی عیاشانہ زندگیاں جن کی قیمت ان کے ملک کے بھوکے عوام اپنے ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔
چین کے لیڈر ماؤزے تنگ کی بہن جو کسی گاؤں میں رہتی تھی جب نیم فاقہ زدہ زندگی سے تنگ آ گئی تو کسی نے مشورہ دیا کہ تمہارا تو بھائی ملک کا بادشاہ ہے اس کے پاس چلی جاؤ چنانچہ وہ اپنے بھائی ماؤ کے پاس چلی آئی مگر چند دن بعد بہت پچھتائی کہ اس سے بہتر تو وہ گاؤں میں تھی وہ شاہی فاقوں سے تنگ آ کر گاؤں لوٹ گئی جہاں وہ دیسی زندگی میں کھانا تو کھا لیتی تھی۔ ماؤزے تنگ تو خدا کو بھی نہیں جانتا تھا لیکن انسانیت کی روشنی اس کے دل و دماغ میں تاباں تھی جس نے اس کے ملک کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ چین کا انقلاب قیام پاکستان سے ایک سال بعد رونما ہوا تھا۔
کوہستانی وزیرستان ہو یا دنیا کا سب سے بلند محاذ جنگ سیاچن انھیں یہاں ایک مقررہ قسم کا راشن ملتا ہے۔ کیا یہ جوان ان دنوں جس ناقابل بیان مشقت سے گزر رہے ہیں کیا یہ یہاں ڈیوٹی کرتے رہیں تا کہ یہ لوگ آرام دہ کھانوں میں مزے اڑاتے رہیں اور یہ جوان ملک اور ان لوگوں کی حفاظت کے لیے زندگیاں قربان کرتے رہیں۔ بہرکیف یہ تو پرانے زمانے کے پاکستانیوں کی باتیں ہیں جو ان کے اور ہمارے دل جلاتی ہیں۔
سب کو معلوم ہے کہ ادھر کچھ عرصے سے پھانسی کی سزا موقوف رہی ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک اسلامی قانون پر عمل کرنے پر یہ پابندی عائد رہی ہے کیونکہ یورپ کے بعض ملکوں میں سزائے موت کو وحشیانہ سمجھا گیا اور ان کی اقوام متحدہ نے بھی اپنے ان طاقت ور ارکان کی بات مان لی لیکن ادھر کچھ عرصہ سے حکومت پاکستان کو اپنی اس حرکت سے پیدا ہونے والی معاشرتی خرابی کا احساس ہوا اور جو سزا جرائم کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھی اس کو پھر سے جاری کر دیا گیا اب بہت بڑی تعداد کو رفتہ رفتہ پھانسی دی جا رہی ہے۔ یہ سزا اپنی جگہ لیکن ساتھ ہی اس سزا کو ایک تماشا بھی بنا دیا گیا ہے۔
کسی کو سزا ملنے سے پہلے اور بعد میں میڈیا میں اس کا خوب چرچا اور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور اسے کسی بڑی اور خدا محفوظ رکھے خبر کا موقع سمجھا جاتا ہے۔ جلادوں تک کا ذکر بھی کیا جاتا ہے کسی جیل کے سیکیورٹی کے انتظامات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ میڈیا کو پھانسی کی سزا دکھانے کی اجازت نہیں ہے ورنہ وہ کیمرے لے کر کسی پھانسی کا منظر فلمانے کے لیے پھانسی گھاٹ پر حملہ کر دیتے اور قوم کو کسی گناہگار انسان کا انجام بڑے شوق کے ساتھ دکھاتے۔
کسی پھانسی کے اس سانحہ کا ذکر جس تفصیل کے ساتھ کیا جا رہا ہے اس کا ہمارے بچوں پر بہت بڑا اثر پڑ رہا ہے وہ پشاور جیسے سانحے سے پہلے ہی ڈرے ہوئے ہیں مزید خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ سب کیا ہے اور کسی نے ایسا کیا کر دیا ہے جس کی سزا دی جا رہی ہے۔ یہ سب سوائے ایک مجرمانہ لذت پرستی کے کچھ نہیں جس سے کسی دوسرے انسان کو سزا ملنے کے سانحے سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔
ہمیں یہ کیا ہو گیا ہے کیا ہمارے اندر سے انسانی جذبات اور احساسات ختم ہوتے جا رہے ہیں اور ہم پر حیوانیت غالب آ رہی ہے اور انسانیت غائب ہو رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے فرائض میں صرف تعزیرات پر عملدرآمد ہی نہیں بلکہ کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں جو انسانیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ حکمرانی ایک مشکل ترین کام ہے اور جہانبانی کو اعلیٰ ترین انسانی فرائض میں سمجھا جاتا ہے۔ اس پر بہت کچھ کتابی صورت میں بھی موجود ہے اور مسلمانوں کی تحقیق اور تحریر تو اس میں اولین ہے کیونکہ مسلمانوں نے ہی اپنی حکومتوں میں عوامی حقوق کی ایک نئی طرز ایجاد کی ہے اور دنیا کو پہلی بار ویلفیئر ریاست کا تصور دیا ہے جو آج بھی ایسی ریاستوں کا رہنما ہے البتہ یہ ایک الگ سانحہ ہے کہ خود مسلمانوں نے اپنی ریاستوں میں عوامی بہبود کے اس تصور کو بھلا ہی نہیں دیا متروک کر دیا ہے۔
یہاں میں نیک اور خلق خدا کے خادم مسلمان حکمرانوں کی مثالیں پیش کرنا شروع کر دوں تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو کیونکہ ان کے رات دن اور پوری زندگیاں ہی عوام کے لیے وقف تھیں اور وہ گھر گھر جا کر حالات کا جائزہ لیا کرتے تھے اور پھر بذات خود اپنے ہاتھوں سے عوامی تکالیف کا ازالہ کرتے تھے جب کوئی کہتا کہ یہ کام آپ کسی دوسرے سے بھی کرا سکتے ہیں تو جواب ملتا قیامت کے دن اس کا جواب میں دوں گا یا کوئی دوسرا۔ بہر کیف ایسی باتیں کر کے میں پاکستانی عوام کو بدمزہ نہیں کرنا چاہتا اور ان کے حکمرانوں کو شرمسار نہیں کرنا چاہتا لیکن عوام تو بدمزہ ضرور ہوں گے مگر ان کے حکمران کبھی شرمسار نہیں ہوں گے۔
ان دنوں تو بے شرمی کی حد ہو گئی ہے اور یہ پہلی بار میں دیکھ رہا ہوں کہ اخباروں میں کسی بڑے کی طرف سے دعوت بلکہ ضیافت میں کھانوں کی تفصیل تک درج ہوتی ہے جو کسی میزبان کے لیے شرم کی بات ہے لیکن یہ بے شرمی جاری ہے اور بھوکے عوام کی پروا کیے بغیر ان کے بھوکے اور سکڑتے ہوئے سینوں پر مونگ دلے جاتے ہیں۔ ہماری بے حسی تو یہانتک پہنچ گئی ہے کہ بعض مشہور خوش خوراک بڑے جب کسی ضیافت سے فارغ ہوتے ہیں اور کھانا' پسند نہ آئے تو اس کا برملا ذکر بھی کر دیتے ہیں جو میزبان کو شرمندہ کر جاتا ہے مگر جو کھانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں انھیں اس کی پروا نہیں ہوتی۔
ایک قحط سالی میں لوگوں نے جب اپنے حکمران کو دیکھا کہ سرخ و سفید رنگ سیاہی مائل ہو رہا ہے ہڈیاں نمایاں ہو رہی ہیں اور جسم کی کمزوری واضح ہے تو چند افراد نے ہمت کر کے عرض کیا کہ امیر المومنین اپنے اوپر سختی نہ کریں کیونکہ آپ کی کمزوری سے کاروبار مملکت متاثر ہوتے ہیں اس پر اس نے وہ مشہور جواب دیا جو تاریخ بار بار دہراتی ہے کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا رہے گا تو اس کی جوابدہی آپ لوگوں نے نہیں عمر نے کرنی ہے۔ یہ سن کر ان کے ساتھی خاموشی سے چلے گئے کیونکہ وہ اسے جانتے تھے۔
آج کے حکمرانوں سے شاید ایسے مطالبات کرنا عمومی طور پر مناسب نہ سمجھا جائے اگرچہ ہمارے ان پرانے تاریخ ساز حکمرانوں کے بھی دو ہی ہاتھ تھے اور وہ بھی دیکھنے میں آج کے انسانوں کی طرح تھے۔ آج کے حکمران بھی یہ سب کیوں نہیں کر سکتے ان کے لیے بھی وہ ہدایات زندہ سلامت موجود ہیں ۔
جنہوں نے ہمارے سابقہ حکمرانوں کو مثالی حکمران بنا دیا تھا مگر سینوں کے اندر وہ کچھ نہیں ہے جو قدرت نے اور احساس ذمے داری نے ان کے اندر بھر دیا تھا۔ ہمارے حکمران اپنی نازک اور آسودہ جانوں پر سختی بے شک نہ کریں بلکہ اپنی انتظامیہ میں فرض شناسی پیدا کرنے کی فکر کریں اور ملک کو عام انسانوں کی زندگیوں کے لیے جائے پناہ بنا دیں لیکن وہ دکھی کر جاتے ہیں ان کے یہ انواع و اقسام کے کھانے اور ان کی عیاشانہ زندگیاں جن کی قیمت ان کے ملک کے بھوکے عوام اپنے ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔
چین کے لیڈر ماؤزے تنگ کی بہن جو کسی گاؤں میں رہتی تھی جب نیم فاقہ زدہ زندگی سے تنگ آ گئی تو کسی نے مشورہ دیا کہ تمہارا تو بھائی ملک کا بادشاہ ہے اس کے پاس چلی جاؤ چنانچہ وہ اپنے بھائی ماؤ کے پاس چلی آئی مگر چند دن بعد بہت پچھتائی کہ اس سے بہتر تو وہ گاؤں میں تھی وہ شاہی فاقوں سے تنگ آ کر گاؤں لوٹ گئی جہاں وہ دیسی زندگی میں کھانا تو کھا لیتی تھی۔ ماؤزے تنگ تو خدا کو بھی نہیں جانتا تھا لیکن انسانیت کی روشنی اس کے دل و دماغ میں تاباں تھی جس نے اس کے ملک کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ چین کا انقلاب قیام پاکستان سے ایک سال بعد رونما ہوا تھا۔