وہ بے پرواہ سے بے حِس ہوگئے

اْسے خاک و خوں میں لْتھڑے لاشوں کے عکس بند مناظر اور اْن میں نوحہ کْناں دل سوز آوازیں متاثر نہیں کررہے تھے۔

یہ ہم ہی تو ہیں جنہوں نے اپنی خود غرضی و خود فریبی میں اپنے مستقبل میں آم کی امید باندھ کر ببول بوئے ہیں۔

میں اس سے واقف تھی۔ میری اُس سے متعلق رائے اگرچہ کچھ نئی نہ تھی مگر آج، بالخصوص ان چند لمحوں میں، اپنی رائے کو جا بجا پیوند لگے بھدے پیرہن میں دیکھا تو سماج کی بدحالی پر رونا آیا۔ اْس کا اسرار تھا کہ میں اْسے وہ ویڈیو دکھاؤں۔ ساتھ ہی وہ اشاروں کنایوں میں اپنی ہم عمر و ہم سیرت سے محوِ گفتگو تھی۔

میں نے اس کی جانب اپنا فون بڑھایا اور وہ دونوں کھلکھلاتی ہوئی ویڈیو دیکھنے لگیں اور میں اْنہیں دیکھنے لگی۔ اْس کے چہرے کی مسکراہٹ ایک لمحہ کو بھی ماند نہ پڑی تھی۔ وہ جو دیکھ رہی تھی، اْس کی آوازیں گر سماعت پر بارِ کہن تھیں تو اْس کے بے نیاز چہرے پر سجی بے پروا مسکراہٹ نے ذہن کے انتشار کا ساماں کر رکھا تھا۔ اْس کی آنکھوں میں نمی کی چمک لہرائی اور نہ اپنے ہم عمروں کی تکلیف کے احساس سے اْس کا دل مسوسا۔ بلکہ وہ ویڈیو میں موجود کسی اور شناسا چہرے کو کھوجتی اپنی سہیلی کے ہمراہ اٹھکیلیاں کرتی رہی۔

میں نے سوچا کہ اْس سے پوچھوں کہ کیا جو اْس نے دیکھا وہ چٹانوں سے پانی نکالنے کے لیے ناکافی تھا؟ کیا وہ جو مر گئے ۔۔۔نہیں ۔۔۔وہ جو ماردیے گئے، اسے اپنے جیسے نہیں لگے؟ وہ ڈر بھی سکتی تھی مگر وہ تو سہمی بھی نہیں تھی۔ میری سکڑی ہوئی بھنویں تشویش و تکلیف سے مزید تن گئیں۔ وہ اب بھی مگن تھی حالاں کہ ہماری نظر چار ہوئی تھی۔ اْسے میرے چہرے پر ناگواری کے تاثرات دِکھے اور نہ اْس نے مجھ سے منعکس بیزار شعاعوں کو محسوس کیا۔

میرا اور اس کا معاملاتِ زیست و معمولات ِزماں کو دیکھنے کا نظریہ کس قدر مختلف تھا؟ شاید یہ ہماری عمروں کا فرق تھا۔۔۔ بالکل!!! یہ ہمارے بیچ پھیلے عمر کےاس لق و دق صحرا کا فاصلہ تھا جس کے اِس پار گرداب سے نکلی دیدہ و دانا نگاہ تھی جبکہ اْس پار سراب سے مسحور چندھیائی ہوئی آنکھیں تھیں۔ وہ واہمے کے اْس دور میں سرمستاں تھی جہاں گماں ہوتا ہے کہ جو ہے، آج ہے۔۔۔ ابھی ہے۔۔۔ رنگیں ہے۔۔۔ پْر رونق ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں کوئی کیسے اْس کی مانند روشن آفتابوں کی سْرخی کو خاک میں ملا دیتا ہے۔۔۔ اْس پر اثر انداز نہیں ہورہا تھا!!! یہ وہ نشاطِ بے فکری ہے جہاں خواہشیں نتیجوں سے، چاہتیں اْمیدوں سے، آرزو تکلیفوں سے، دوستیاں دھوکوں سے، جھگڑے ناراضگیوں سے بے پرواہ ہوتے ہیں۔


مگر نہیں ۔۔۔۔ کیا وہ بے پرواہ لگ رہی تھی؟ میں نے خود کو قائل کرنے کے لیے کس قدر بے منطق دلیل گڑھی تھی۔ وہ بے پرواہ کہاں تھی؟ وہ تو مجھے بے حِس لگی۔ اْسے خاک و خوں میں لْتھڑے لاشوں کے عکس بند مناظر اور اْن میں نوحہ کْناں دل سوز آوازیں متاثر نہیں کررہے تھے کیونکہ اْس کی نظریں تو ویڈیو میں موجود معروف صنفِ مخالف کے دیدار کی ہی متمنی تھی جسے دیکھ کر وہ کِن اکھیوں میں نازیبا مذاق کے اشارے کررہی تھی۔

اِس خیال نے یکسرمیرے دل کو مُٹھی میں جکڑ لیا۔ بے اختیار جی چاہا کہ اس کے ہاتھوں سے فون چھین لوں اور اْسے شانوں سے جھنجھوڑوں بے حِسی کے اِس طلسمِ ہوشرْبا سے نکالوں۔ اْس کی بے فکری، بے پرواہی کی منزلیں لانگتی بے حسی کی سرحدوں کے پار نکل آئی تھی۔ اْس جیسے تمام چہرے مجھے سماج کے بالغان و باشعور و باعمل افراد کی بے حسی کے وہ پھنکارتے ہوئے سانپ لگے جو اْسے اور اْس جیسوں کو ڈس کر خود غرضی، مطلب پرستی، ہوا پرستی، بے دردی و بے اعتنائی کا زہر رگوں میں اْتارنے کے لیے کْنڈلی مارے بیٹھے ہیں۔ یکایک غیب نے میرے ذہن کے اْس دریچے کو وا کیا جہاں سے آتی کچھ دھیمی دھیمی مانوس و آشنا آوازیں کان پھاڑنے والے شور میں بدلنے لگیں۔۔۔۔ ایسی آوازیں ۔۔۔ جو ایک زمانے سے اْس جیسے نہ جانے کتنے کانوں میں پڑتی رہیں ہیں کہ ''وہ بے پرواہ سے بے حِس ہو گئے'' مجھے اِدراک ہوا کہ یہ آوازیں تو میری اور مجھ جیسوں کی ہیں۔

یہ ہم ہی تو ہیں جنہوں نے اپنی خود غرضی و خود فریبی میں اپنے مستقبل میں آم کی امید باندھ کر ببول بوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس فصل کو کاٹنے کے لیے تیار ہیں؟ عالم یہ ہے کہ نہ کاٹا تو بھی اور کاٹا تو بھی، خار ہمارے حلق میں ہی اتریں گے۔۔۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story