بڑھتی دراڑیں

محمد سعید آرائیں  جمعرات 26 مارچ 2015

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کو دو ماہ بعد دو سال مکمل ہو جائیں گے جو اقتدار میں بظاہر تو مستحکم نظر آتی ہے جس کے پاس قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں واضح اکثریت ہے مگر سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے نتائج سے صرف بلوچستان اور کے پی کے ہی میں نہیں بلکہ پنجاب میں بھی (ن) لیگ میں پڑنے والی دراڑیں واضح ہو گئی ہیں جب کہ سندھ میں تو (ن) لیگ کا وجود نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔

جہاں مسلم لیگ (ن) میں شامل چار سابق وزرائے اعلیٰ سمیت (ن) لیگ کے ارکان اسمبلی اور کارکن و رہنما وزیر اعظم کی پالیسی سے نالاں ہیں جب کہ سندھ میں (ن) لیگ کی اہم حلیف فنکشنل لیگ بھی مطمئن نہیں ہے، جسے وفاقی کابینہ میں نمایندگی تو حاصل ہے مگر ان میں بھی اختلافات سینیٹ کے الیکشن سے واضح ہو گئے ہیں اور حال ہی میں پیر صاحب پگاڑا نے لاہور میں وزیر اعظم سے شکایت کی ہے کہ سندھ میں (ن) لیگ کے ارکان صوبائی اسمبلی نے فنکشنل لیگ کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیے۔

سندھ میں (ن) لیگ کے ارکان قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی ہی کو نہیں بلکہ سندھ کے سابق وزرائے اعلیٰ ممتاز علی بھٹو، غوث علی شاہ، لیاقت علی جتوئی اور ارباب غلام رحیم تک کو وزیر اعظم نے مکمل طور پر نظرانداز کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم کے کراچی کے دورے میں سلیم ضیا اور نہال ہاشمی ہی نمایاں نظر آتے تھے اور ان دونوں کو پنجاب کے ارکان اسمبلی کو ناراض کر کے پنجاب سے سینیٹر منتخب کرایا ہے جن کا تعلق کراچی سے ہے جب کہ اندرون کے کسی (ن) لیگی کو یہ موقع نہیں دیا گیا۔

سندھ میں (ن) لیگ دلچسپی لیتی تو (ن) لیگ کے تعاون سے کوئی لیگی سینیٹر بنوایا جا سکتا تھا مگر وزیر اعظم عمران خان کے خوف سے پیپلز پارٹی کو ناراض کرنا نہیں چاہتے اور اسی لیے انھوں نے سندھ کو پیپلز پارٹی کے حوالے کر رکھا ہے جس پر (ن) لیگ سندھ کے رہنما ہی نہیں سندھ کے قوم پرست رہنما بھی ناراض ہیں۔

مسلم لیگ (ن) بلوچستان میں سب سے زیادہ نشستوں کی حامل تھی جس کے پاس 65 کے ایوان میں (ق) لیگ کے ارکان کے ساتھ 26 نشستوں کی برتری حاصل تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بلوچستان میں امن اور بہتری کے لیے (ن) لیگ کا گورنر اور وزیر اعلیٰ بھی نہیں لیا تھا اور صرف پنجاب کے خلاف بلوچستان میں موجود نفرتیں ختم کرنے کے لیے نیشنل پارٹی کو وزارت اعلیٰ اور پختونخوا میپ کو گورنری دے کر (ن) لیگ کے جان محمد جمالی کو اسپیکر بنوایا تھا، جو اب (ن) لیگ کی قیادت سے منحرف ہو کر بلوچستان میں اپنی مسلم لیگ قائم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں جن کی صاحبزادی پندرہ ووٹ لے کر بھی سینیٹر منتخب نہ ہو سکیں۔

بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) اپنے 26 ارکان اسمبلی ہونے کے باوجود جنرل نشست پر صرف ایک اور ٹیکنوکریٹ کی نشست پر بھی دو سینیٹر منتخب کرا سکی اور حیرت انگیز طور پر بلوچستان اسمبلی میں صرف دو نشستیں رکھنے والی بی این پی مینگل نے اپنا ایک سینیٹر منتخب کرا لیا۔

مسلم لیگ خواتین کی ایک نشست سمیت صرف تین سینیٹر کامیاب کرا سکی جب کہ (ن) لیگ کے نعمت اللہ زہری دوسرے مرحلے میں پوائنٹس کی بنیاد پر کامیاب ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ بلوچستان کے اہم رہنما سردار یعقوب ناصر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بلوچستان کے غیر متوقع سینیٹ نتائج پر (ن) لیگ کی قیادت ہی برہم نہیں بلکہ خود لیگی ارکان اسمبلی بھی ناراضی کا اظہار کر چکے ہیں۔

مسلم لیگی قیادت نے بلوچستان کے ارکان اسبلی سے سینیٹ کے سلسلے میں کوئی مشاورت ضروری سمجھی نہ اپنے ہی اسپیکر جان محمد جمالی کو اعتماد میں لینا ضروری سمجھا اور اپنا غیر حقیقی فیصلہ ارکان اسمبلی پر مسلط کیا جسے لیگی ارکان اسمبلی نے تسلیم نہیں کیا اور اسپیکر سمیت متعدد ارکان نے اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دیے۔ اگر لیگی قیادت غلط فیصلے نہ کرتی تو سردار یعقوب ناصر کو شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور بلوچستان میں (ن) لیگ میں دراڑ پڑتی اور نہ نوبت یہاں تک پہنچتی۔

بلوچستان سے مسلم لیگ (ن) اپنے کسی رکن کو اہمیت نہیں دیتی اور مخلوط حکومت میں شمولیت کے باوجود اس کے ارکان مطمئن نہیں ہیں جس کا اظہار وہ متعدد بار کر بھی چکے ہیں مگر ان کی شکایات پر وزیراعظم کوئی خاص توجہ نہیں دے رہے۔ مسلم لیگ (ن) اپنی غلط پالیسی کے باعث بلوچستان سے اپنے کسی سینیٹر کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بھی نہ بنوا سکی اور پیپلز پارٹی کی حمایت سے جے یو آئی مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئی اور (ن) لیگ کو بھی ان کی حمایت کرنا پڑی جو مسلم لیگ (ن) کے لیے اچھا شگون ثابت نہیں ہو گا۔

پنجاب جس پر شریف برادران خاص توجہ دیتے ہیں وہاں ویسے ہی تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے اور اب تو لاہور بھی پی ٹی آئی کا اہم گڑھ بن چکا ہے مگر عمران خان کی غلط سیاست سے (ن) لیگ کو پنجاب میں سینیٹ کی تمام نشستیں جیتنے کا موقع تو مل گیا مگر پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن نے پنجاب میں (ن) لیگ میں دراڑیں ڈلوا دیں اور (ن) لیگی ارکان کے ووٹ توڑنے میں کامیاب رہے۔

پنجاب میں اسمبلی کے ووٹ بڑی تعداد میں مسترد ہونا معمولی بات نہیں بلکہ یہ ارکان اسمبلی کا اپنی پارٹی سے اظہار ناراضگی تھا جسے محسوس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب کو اپنا سعودی عرب کا دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس آنا پڑا تھا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ کے 16 ووٹ تھے مگر ندیم افضل چن نے حیرت انگیز طور پر 29 ووٹ لیے جب کہ ووٹ کاسٹ کرتے وقت لیگی ارکان نے جان بوجھ کر اپنے ووٹ مسترد کر کے پارٹی قیادت پر واضح کر دیا کہ وہ مطمئن نہیں ہیں وہ پارٹی کے خلاف بھی خفیہ طور پر ووٹ دے سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی اگر پنجاب میں سینیٹ الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرتی تو اپوزیشن ایک اپنا سینیٹر منتخب کرا سکتی تھی۔

پنجاب میں پی ٹی آئی نے الیکشن کا بائیکاٹ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی مخالفت میں کیا اور کے پی کے میں ان کے وزیر اعلیٰ نے اندرون خانہ (ن) لیگی قیادت کے بجائے گورنر کے پی کے، کے ساتھ مل کر اپنے مطلوبہ چھ سینیٹر تو کامیاب کرا لیے اور وہاں بھی (ن) لیگ میں دراڑیں پڑوا دیں۔

کے پی کے میں پیپلز پارٹی نے بھی اپنے صرف پانچ ارکان کے باوجود جنرل نشست پر کامیابی حاصل کر لی اور مسلم لیگ (ن) نے حیرت انگیز طور پر دو نشستیں تو جیتیں مگر (ن) لیگ کے ارکان نے پارٹی سے اپنی وفاداری مشکوک کرا دی جس پر پارٹی قیادت نے اپنا ایک رکن ضرور گنوا دیا اور کے پی کے میں بھی (ن) لیگ متحرک نظر نہیں آئی جو وہاں دراڑوں کا واضح ثبوت ہے۔

مسلم لیگ (ن) میں دراڑیں اس کی وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے ہوتے ہوئے واضح ہو گئی ہیں جو اس کے ارکان کی ناراضی کا ثبوت ہے۔ شریف برادران کو اقتدار مسلم لیگ (ن) کی وجہ سے ملا مگر افسوس کہ دونوں کو (ن) لیگ کی فکر ہے نہ دونوں کے پاس لیگی ارکان اسمبلی سے ملنے کے لیے وقت ہے جب کہ دونوں کے اقتدار کی بنیاد یہی (ن) لیگی ارکان ہیں جو مایوس ہو کر قیادت کے فیصلوں سے انحراف کر کے اپنی پارٹی میں دراڑیں بڑھانے لگے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔