- مخصوص طبقے کو کلین چٹ دینے کیلیے نیا پروپیگنڈا تیار کیا جارہا ہے، فیصل واوڈا
- عدالتی امور میں مداخلت مسترد، معاملہ قومی سلامتی کا ہے اسے بڑھایا نہ جائے، وفاقی وزرا
- راولپنڈی میں معصوم بچیوں کے ساتھ مبینہ زیادتی میں ملوث دو ملزمان گرفتار
- تیسرا ٹی ٹوئنٹی: آئرلینڈ کی پاکستان کیخلاف بیٹنگ جاری
- دکی میں کوئلے کی کان پر دہشت گردوں کے حملے میں چار افراد زخمی
- بنگلادیش نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلئے اسکواڈ کا اعلان کردیا
- 100 دنوں میں 200 فلائٹس کے مسافر بیگز سے سونا چوری کرنے والا ملزم گرفتار
- سنی اتحاد کونسل نے چیئرمین پی اے سی کیلئے شیخ وقاص اکرم کا نام اسپیکر کو بھیج دیا
- آزاد کشمیر میں احتجاج کے دوران انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس ہے، وزیراعظم
- جنوبی وزیرستان کے گھر میں ہونے والا دھماکا ڈرون حملہ تھا، رکن اسمبلی کا دعویٰ
- دنیا کا گرم ہوتا موسم، مگرناشپاتی کے لیے سنگین خطرہ
- سائن بورڈ کے اندر سے 1 سال سے رہائش پذیر خاتون برآمد
- انٹرنیٹ اور انسانی صحت کے درمیان مثبت تعلق کا انکشاف
- ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری
- بنگلادیشی لڑاکا طیارہ فلمی کرتب دکھانے کی کوشش میں تباہ؛ ویڈیو وائرل
- پنجاب میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو مثالی بنائیں گے، مریم اورنگزیب
- آڈیو لیکس کیس میں مجھے پیغام دیا گیا پیچھے ہٹ جاؤ، جسٹس بابر ستار
- 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ
- غزہ میں اسرائیل کا اقوام متحدہ کی گاڑی پر حملہ؛ 2 غیر ملکی اہلکار ہلاک
- معروف سائنسدان سلیم الزماں صدیقی کے قائم کردہ ریسرچ سینٹر میں تحقیقی امور متاثر
بات صرف یمن تک محدود نہیں
مسلم دنیا کو اپاہج کر دینے اور اسے بے جان کر دینے کے لیے امریکا کی طرف سے جو منصوبہ اور سلسلہ جاری ہے وہ اب شام عراق لیبیا سے ہو کر یمن تک آن پہنچا ہے جو سعودی عرب کی دیوار کے ساتھ واقع ہے۔ امریکا نے اپنی اس یلغار میں جہاں مسلمان ملکوں کو لولا لنگڑا کر دیا ہے وہاں ان کی ثقافت تاریخ اور تمدن کو بھی نابود کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس مسلمان ملک پر بھی امریکا نے ’قبضہ‘ کیا آپ یاد کریں تو اس ملک کے تاریخی آثار اور عجائب خانوں کو ضرور تباہ کیا گیا ہے جو مسلمانوں کو ان کا ماضی یاد دلاتے تھے اور یہی وہ ماضی ہے جو آج کی طاقت ور غیر مسلم دنیا کو سخت ناپسند اور پریشان کن ہے اس سے قبل جب روس نے مسلمان ریاستوں پر قبضہ کیا تو اس نے یہاں آباد مسلمانوں کی زندگی ہی بدل دی۔
ان کی زبان کی جگہ روسی زبان رائج کر دی رسم الخط بدل دیا جس سے ماضی کا علمی ذخیرہ بے کار ہوگیا۔ مذہب کو موقوف ہی کر دیا زیادہ سے زیادہ صرف مسجدیں باقی رہ گئیں جو غیر آباد کر دی گئیں اور نمازیوں سے محروم۔ پرانے زمانے کی خواتین کسی نوزائیدہ بچے کو مسجد کی کسی دیوار کے ساتھ لگا کر برکت حاصل کرتی تھیں اور اگر کسی گھر میں قرآن پاک کا کوئی ورق محفوظ تھا تو وہ اسے کسی مشکل میں مدد کے لیے سنبھال کر رکھتی تھیں۔ ان کے نام تک تبدیل کر دیے گئے اور روسی طرز پر نام کے آخر میں ف کا حرف بڑھا دیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان قوم رفتہ رفتہ ماضی سے کٹ گئی جس سے آج کی قومیں خوفزدہ تھیں۔
مسلمانوں کے خلاف روس کی یہ ایک منظم سازش تھی روس کے پاس اسلام کے مقابلے میں کمیونزم کا نظریہ تھا جو اسلام کے برعکس تھا۔ یہ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔ حالات حاضرہ کے حوالے سے بات ذرا لمبی ہو گئی مقصد صرف یہ یاد دلانا تھا کہ روس ہو یا امریکا یہ سب اپنے اپنے انداز میں مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ آج کے دور میں امریکا طاقت کے عروج پر ہے اوروہ یہ علانیہ دعویٰ رکھتا ہے کہ پوری دنیا کو اس نے چلانا ہے چنانچہ وہ ایسی تمام رکاوٹیں دور کر رہا ہے جو اس کی جہانبانی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں اور اس کے عالمی اقتدار میں مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ جہاں تک مسلمان دنیا کا تعلق ہے روس ہو یا امریکا دونوں ایک جیسے ہیں بس طریق کار کا اختلاف ہے۔ روس کی طرح امریکا اپنے محکوم مسلمان ملکوں کو اپنی سیاست آزادانہ کلچر اور عالمی تسلط میں لانا چاہتا ہے لیکن وہ ان پر روس کی طرح کی زبردستی نہیں کرتا ساتھ چلنے کی کوشش کرتا ہے۔
امریکا رفتہ رفتہ مسلمان ملکوں سے ان کی اسلامیت اور تہذیب و ثقافت کو کمزور کرنا چاہتا ہے چنانچہ وہ عراق شام لیبیا وغیرہ کو بڑی حد تک بدل چکا ہے اور اب یہ وہ مسلمان ملک نہیں رہے جو امریکی تسلط سے پہلے تھے۔ یمن میں جو انتشار پیدا کیا گیا ہے وہ بہت ذومعنی ہے۔ اس ملک سے مسلمانوں کے جذباتی تعلقات بہت وسیع ہیں۔ حضرت اویس قرنیؓ کے اس ملک کو مسلمان ایک بابرکت ملک سمجھتے ہیں۔ اویس قرنیؓ کی ہستی آنحضرت ﷺ کی نہایت ہی پسندیدہ تھی جس کو جنت کی بشارت دی گئی اور جنت کے دروازے پر ان کے استقبال کا ذکر کیا گیا۔ حضرت اویس اپنی ضعیف والدہ کی تیمار داری کی وجہ سے حضور پاکؐ کی خدمت میں بھی حاضری نہ دے سکے لیکن یوں لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے بے پایاں جذبات کی وجہ سے ان کو اپنی خدمت میں حاضر ہی سمجھا۔
یمن سرزمین عرب کا حصہ تھا اور حضور پاکؐ کو یمن کی بعض مصنوعات بہت پسند تھیں۔ حضرت اویس کی آنحضرتؐ سے محبت نے تو یمن کو ایک نیا رنگ ہی دے دیا۔ امریکا نے بعض دہشت گرد قسم کی تنظیموں کے ذریعہ یمن میں فساد برپا کر دیا ہے اور اس ملک کو برباد کر دیا ہے۔ امریکا یہاں مسلمانوں کا ایک پرانا اختلافی مسئلہ استعمال کرنا چاہتا ہے وہ ہے شیعہ سنی کا مسئلہ۔ مغرب کے مورخوں اور دانش وروں نے اپنی تحریروں اور تجزئیوں میں یہ بتایا ہے کہ مسلمانوں کے اندر اختلاف کو بڑھانے اور اسے خطرناک حد تک لے جانے میں یہ مسئلہ بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ یمن میں جو گروہ سرگرم ہیں ان میں سے بعض کو شیعہ قرار دیا جاتا ہے اس طرح سعودی عرب کے لیے ایک خطرہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکا نے سرزمین حرمین شریفین کے قریب ترین علاقے میں شورش برپا کر کے وہاں اپنے مستقبل کے ارادوں کو ظاہر کر دیا ہے۔
پاکستان یمن سے بہت دور اور بظاہر ایک لاتعلق ملک ہے اور اسے فوری طور پر کسی پریشانی کی ضرورت نہیں ہے لیکن سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات کی تاریخ سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ حرمین الشریفین کو رہنے دیں کہ ان کے ساتھ ہر مسلمان کا تعلق اس کی زندگی سے بھی کہیں زیادہ عزیز ہے لیکن حکومت سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلق میں وہ سب کچھ موجود ہے جو کسی بھی دو ملکوں کے درمیان ہوسکتا ہے اس لیے پاکستان کی لاتعلقی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن چالاک اور طاقت ور امریکا بہت ہی خطرناک ملک ہے وہ سعودی عرب کی فوجی حمایت کو ہمارے ایٹم بم تک بھی لے جا سکتا ہے اور یہ ایٹم بم امریکا کے لیے ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔ کیا ہمارے موجودہ حکمران دور کی بھی سوچ سکتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ بھارت کے خلاف جنگ میں شاہ فیصل نے کہا تھا کہ پاکستان جہاں سے بھی جو اسلحہ خریدنا چاہے خریدے اور اس کا بل اس ملک میں موجود ہمارے سعودی سفارت خانے کو بھجوا دے ایسی کئی مثالیں ہیں سعودی حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان کی طاقت کو اپنی طاقت سمجھا ہے اور بجا طور پر سمجھا ہے لیکن ڈر ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان دونوں دوست کسی امریکی سازش کے شکار نہ ہو جائیں۔ ہماری فوج نے وضاحت کر دی ہے کہ ہم نے سعودی عرب میں فوج نہیں بھیجی اورنہ ہی اسلحہ۔ بہر کیف حد سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے اور اس وقت جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے اور ہوتی چلی جا رہی ہے اس میں بہت اعلیٰ درجہ کی فراست اور سیاسی تدبر کی ضرورت ہے۔ ابھی اس سلسلے میں مزید کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دیکھیں حالات کا رنگ کیا نکلتا ہے اور ہمارے حکمران کس تدبر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایک طرف امریکا ہے دوسری طرف سعودی عرب ہے اور ہم ان دونوں کا احترام کرتے ہیں۔ ایک سے ڈرتے ہیں دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔