اب کے بھی دن بسنت کے یوں ہی گزر گئے

انتظار حسین  جمعـء 3 اپريل 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

ان دنوں جب سویرے منہ اندھیرے ہم باغ جناح کا رخ کرتے ہیں تو اس کے گیٹ کی پیشانی پر لہراتا ایک بھلا سا عنوان ہمیں خوش آمدید کہتا ہے۔ سالانہ پھولوں کی نمائش۔ ہم سرسری اس عنوان کو دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ کل صبح ہمیں اچانک احساس ہوا کہ شاید اس عنوان کی تہہ میں کچھ طنز کا پہلو بھی ہے۔

اس احساس کے ساتھ ہی ہمیں اردو کی ایک مثل یاد آئی۔ ارے عقل کے اندھے تجھے کچھ بسنت کی بھی خبر ہے۔ لیجیے اس سے ایک اور کہاوت یاد آ گئی۔ ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھے۔ ساون کے اندھے سے ہم نے یہ اشارہ لیا کہ ساون کے اندھوں کی مثال بسنت کے اندھے بھی ہوتے ہوں گے بلکہ ہوتے ہیں۔ اصل میں جسے موسم بہار کہتے ہیں اس کے دو ہی رنگ اس سرزمین پر جہاں ہم شاد آباد چلے آتے ہیں نکھر کر آتے ہیں۔ برکھا بہار اور بسنت بہار۔ یا کہئے برکھا رت اور بسنت رت۔

لیجیے تمہید ذرا لمبی ہو گئی۔ اس سے کہیں ہم کسی اور طرف نہ نکل جائیں۔ ہم کہہ یہ رہے تھے کہ یہ جو پھولوں کی نمائش کا ہمیں مژدہ سنایا جاتا ہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ کونسے پھول ہیں جو ان دنوں اپنی بہار دکھا رہے ہیں کیونکہ پھول تو دو ہی رتوں میں آ کر پھولتے ہیں۔ برکھا بہار میں اور بسنت بہار میں۔ ان دونوں رتوں کے پھولوں میں بہت کچھ مشترک بھی ہے۔ اس کے باوجود ان کے رنگ ان کی مہک کچھ الگ الگ بھی ہے۔

ارے نادان یہ بسنت کے گل پھول ہیں جن کی ان دنوں اس باغ میں نمائش ہو رہی ہے۔ اور اگر پھولوں کی اس نمائش کے اعلان میں بسنت کا نام نہیں لیا جاتا تو وہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے۔ بسنت کا کس منہ سے حوالہ دیں۔ بسنت کو تو ہم دفن کر چکے ہیں ؎

ہم اسے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا

کیا ستم ہے کہ اس شہر لاہور میں ہم نے بسنت بہار کو اس شان سے پروان چڑھتے دیکھا کہ بسنت بہار کے نام بسنت میلہ نے زور باندھا اور ایسا زور باندھا کہ آسمان رنگا رنگ پتنگوں سے ڈھک جاتا تھا اور زمین پر یہ نقشہ کہ باغوں اور کھیتوں نے بسنتی بانا پہنا ہوا ہے اور ادھر بسنتی جوڑے اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔

ساتھ میں ڈھول ڈھمکا‘ کھانا پینا۔ اور لیجیے دور دور سے سیاح آنے شروع ہو گئے۔ یہ تو ایک بھرا پرا تیوہار بن گیا۔ بسنت فیسٹول۔ اس سے کتنے کاروبار چمک اٹھے۔ ہوٹلوں کے کاروبار نے کیا خوب فروغ پایا۔ اور پھر پتنگ ڈور کی صنعت۔ بڑے دکانداروں کے ساتھ چھوٹے موٹے دکانداروں کا بھی بھلا ہو گیا۔ ان چھوٹے موٹے دکانداروں کے گاہک کون ہوتے تھے۔ بچے سستا مانجھا سستی پتنگ بچے بھی خوش۔ پتنگ ڈور بیچنے والے بھی خوش۔

مگر ہمارے بیچ ایسی مخلوق بھی تو ہے جو لوگوں کو خوش ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔ انھوں نے کیا خوب اڑائی کہ ارے یہ تو ہندوؤں کا تیوہار ہے۔ کفر کفر کفر۔ مگر بو کاٹا کا شور اتنا تھا کہ کسی نے سنا کسی نے نہیں سنا۔ جس نے سنا اس نے بھی ایک کان سنا دوسرے کان اڑا دیا۔ سو سنی ان سنی بن گئی۔ میلوں ٹھیلوں میں تو پھر یہی ہوتا ہے۔ خوشی کا ابال اتنا ہوتا ہے کہ رنگ میں بھنگ ڈالنے والوں کی دال مشکل سے گلتی ہے۔

تب ایک دوسرا وار ہوا۔ بات یہ ہے کہ ہر کاروبار میں کسی نہ کسی راستے منافع خوری بھی راہ پا لیتی ہے۔ مانجھے کی جگہ تار استعمال ہونے لگا۔ تار نے یہ ستم ڈھایا کہ اڑتی پتنگ کا یہ نیا مانجھا جسے تار کہتے ہیں جس کسی اسکوٹر سوار کے گلے کو چھوتا گزر گیا اس کے گلے پہ جیسے خنجر پھر گیا۔ اس سے اموات ہونے لگیں۔ تب اغیار نے شور مچایا کہ بسنت کا یہ کھیل موت کا کھیل ہے۔ اس پر پابندی لگاؤ۔

ارے یہ تو انتظامی معاملہ تھا۔ جو کاروباری پتنگ بازی کے پردے میں تار کا کاروبار کر رہا ہے۔ تو پھر یہ تو ایسا معاملہ ہے کہ حکومت کو اس پر روک ٹوک کرنی چاہیے تھی۔ پتنگ بازی کے نام پر تار کا کاروبار کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ کرو۔ سزائیں دو۔ جرمانے کرو۔ اگر یہ نہیں کرتے اور پولیس زیادہ سے زیادہ یہ کرتی ہے کہ چھتوں پر جو لڑکے پتنگ اڑا رہے ہیں ان کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔ تار کے کاروباری کو کچھ نہیں کہتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتظامیہ کسی فتور کا شکار ہے۔

جان کر اس کرپشن کو فروغ پانے کا موقعہ دیا جا رہا ہے۔ اور جب یہ موت کا کاروبار خوب زور پکڑ جاتا ہے اور اموات اس کے ساتھ زور پکڑ جاتی ہیں تو لیجیے پتنگ بازی کو ممنوع قرار دینے کا مطالبہ جائز نظر آنے لگتا ہے۔ پتنگ بازی پر پابندی لگ جاتی ہے۔ میلہ کی ساری رونق تو پتنگ بازی کی مرہون منت تھی۔ ہر سپورٹ کا اپنا ایک جادو ہوتا ہے۔ کرکٹ کے جادو سے ہم خوب آشنا ہیں۔ تو پتنگ بازی بھی اپنا ایک جادو رکھتی ہے۔ پتنگ گئی تو یہ جادو بھی گیا۔ اس کے ساتھ بسنت میلہ بھی اپنا جادو کھو بیٹھا۔

تو یوں سمجھئے کہ انتظامیہ والوں کی اپنی مصلحتیں تھیں۔ تار کا کاروبار کرنے والوں کا اپنا چکر تھا۔ بسنت کو ہندوانی تیوہار بتانے والوں کا اپنا ذہنی فتور تھا۔ ان سب نے مل کر بسنت میلہ کا گلہ گھونٹ دیا۔ گویا بسنت کا کفر ہمارے بیچ سے رخصت ہو گیا۔ مگر قدرت کی طرف سے جو ہمیں ایک خوشگوار موسم کا عطیہ ملا تھا اس سے انکار تو خود کفران نعمت ہے۔ یعنی ایک کفر رخصت ہوا۔ اب ہم دوسرے قسم کے کفر میں مبتلا ہیں۔

لیجیے میرؔ کی سنئے۔ ’اب حیات‘ میں یہ واقعہ نقل ہوا ہے کہ ایسے ہی کسی خوشگوار موسم میں میر جی بہت افسردہ نظر آ رہے تھے۔ بار بار ایک مصرعہ دہراتے تھے اور اداس ہو جاتے تھے۔ مصرعہ کیا تھا موسم بہار کا نوحہ تھا۔ ع

اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے

مگر کونسی بہار۔ ہم سے پوچھو تو اس مصرعہ میں ننھی سی ترمیم کر کے ہم اسے یوں پڑھیں گے ع

اب کے بھی دن بسنت کے یوں ہی گزر گئے

تو اب صورت احوال یہ ہے کہ برس کے برس بسنت رت تو آتی ہے۔ سرسوں بھی پھولتی ہے۔ اور گیندا بھی اپنی بہار دکھاتا ہے کھیت اور باغ بسنتی بانا اوڑھتے ہیں مگر وہ جو میرؔ نے کہا تھا کہ ع

بسنتی قبا پر تری مر گیا ہوں
وہ اب نظر نہیں آتی۔ آسمان بھی اجڑا اجڑا نظر آتا ہے۔ مگر شاعر تو کہنے سے باز نہیں آ رہا۔ ناصرؔ کاظمی نے بسنت پر جو کہا ہے اس نسبت سے چند شعر سن لیجیے ؎

کنج کنج نغمہ زن بسنت آ گئی
اب سجے گی انجمن‘ بسنت آ گئی
اڑ رہے ہیں شہر میں پتنگ رنگ رنگ
جگمگا اٹھا گگن‘ بسنت آ گئی
سبز کھیتیوں پہ پھر نکھار آ گیا
لے کے زرد پیرہن‘ بسنت آ گئی
پچھلے سال کے ملال دل سے مٹ گئے
لے کے پھر نئی چبھن بسنت آ گئی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔