ہم سب کا پاکستان

فرح ناز  پير 6 اپريل 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

کتنا اچھا لگتا ہے جب ہم کہتے ہیں کہ ہم سب کا پاکستان! ایک اپنائیت کا احساس، ایک سکون کی سانس اور ایک محبت بھری مسکراہٹ۔

ایک ایسا گھر جہاں سکون، امن، محبت اور اپنائیت سب کے لیے ایک جیسی ہو، جہاں ہم سب خوشی خوشی رہیں پیار بھرے گیت گائیں اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جیوے جیوے پاکستان گنگنائیں اور چین سے بے خبر نیند سوئیں، یہ پڑھ کر بنیے نہیں کہ میں کس کی بات کر رہی ہوں۔ ارے جناب میں اپنے وطن پاکستان کی بات کر رہی ہوں اور ’’آج غم ہے تو کیا یہ دن بھی ضرور آئے گا‘‘ حقیقتاً چین وسکون کی باتیں اب ایک خواب ہی لگتی ہے آج کے دور میں پاکستان کا کوئی بھی شہر ہو اب بے چینی کی کیفیت آپ کو ہر جگہ یکساں پائی جائے گی گھر سے لے کر کام کی جگہوں تک اور اب ایک حد تک ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسکول سے لے کر اسپتال تک، کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں آپ بے فکر ہوکر رہیں۔

عجیب تماشا زندگی ہے دوستوں! بچے پیدا ہوتے ہیں کہ ماں نے شکل بھی نہیں دیکھی پتہ چلا بچہ چوری ہوگیا، کمال ہے ناں!ایک جیتا جاگتا بچہ بھرے اسپتال سے چوری ہوجائے اور ماں باپ تڑپتے ہی رہ جائیں۔16 دسمبر 2014 کو کئی خوبصورت شکلوں والے شہزادے اسکول گئے اور پھر زندہ و سلامت گھر واپس ہی نہ آئے، ہنستے مسکراتے، شرارت سے بھرپور بچے۔ ماؤں کے کلیجے پھٹے، آہوں اور سسکیوں سے فضا بوجھل ہوگئی، پاکستان کے ہرگھر میں سے افراد کی آنکھوں سے آنسو بہے، کہ ایسا غم ایسی درندگی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، برسوں ہم اس دلخراش واقعے کو یاد کریں گے کہ یہ ایک ایسا زندہ ظلم ہو جو سالوں اپنے آپ کو زندہ رکھے گا۔

بے قصور، معصوم، زندگی سے بھرپور مسکراہٹوں والے جس سفاکی سے اس دنیا سے رخصت کیے گئے، ہم برسوں یاد رکھیں گے اس ہمارے پاکستان میں۔کہتے ہیں کہ زندگی محبت کرنے کے لیے ہی تھوڑی ہے پتہ نہیں کیسے لوگ اس تھوڑی زندگی میں نفرت کے لیے جگہ بنا لیتے ہیں، یا تو وہ محبت کرنا جانتے نہیں یا ان کو محبت کرنے نہیں دی جاتی یا محبت کی ایسی لافانی تصویر ان کے سامنے پیش کی جاتی ہے کہ ان کی محبتوں کے آگے ہم سب کی محبت کوئی وجود ہی نہیں رکھتی اور ایسی محبت جو اپنے آپ کو ہی جلا کر بھسم کرلیں کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔

گنجان شہروں کی سڑکوں پر موٹرسائیکل سوار آتے ہیں گاڑیاں روکتے ہیں فون، پرس، جیولری جو کچھ بھی ہو دے دو، اگر نہ دی تو ایک گولی آپ کا مقدر اور پیچھے آپ کے اپنے روتے پیٹتے لوگ۔ شہروں میں ہی آتے جاتے لوگوں سے ڈکیتی، اور لوگوں سے بھرے ہوئے بازاروں میں بارود، ایسے دھماکے کہ لوگوں کے جسم کے حصے مختلف جگہوں پر پائے جائیں، نہ درد، نہ شرم کہ انسانی زندگیاں ایک ایسا کھیل تماشا بن کر رہ گئیں ہیں کہ شاید یہ دنیا میں آئی ہی اس لیے تھیں۔

اس تمام تکلیف والے ماحول میں سیاست اپنی جگہ پر پورے آب و تاب سے چمک رہی ہے، سیاست دان اپنی اپنی دکانیں چمکانے میں لگے ہوئے ہیں اور بقول ان کے کہ وہ ملک و قوم کی خدمت میں اپنے رات و دن ایک کیے ہوئے ہیں۔ ایسے ایسے زبردست بیانات کہ اللہ امان! اور تو اور اب تو بات خالی بیانات تک نہیں بلکہ ان بیانات میں اپنی ہی خواتین پر بہتان بھی لگائے جا رہے ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ ہر سیاستدان، عورت کی برابری کی بات کرتا ہے اور ان برابری والی عورتوں پر بہتان بھی لگائے جاتے ہیں، سولہ سنگھار کو برا بھی کہا جاتا ہے اور حقوق دلانے کی بات بھی ہوتی ہے۔ ’’جائیں تو جائیں کہاں‘‘ یہ ہم سب کا پاکستان ہے۔خواتین کا ذکر چلا ہے تو آپ کو بتاتے چلیں کہ 51 فیصد خواتین اپنے ووٹ دینے کا حق رکھتی ہیں، جی ہاں! ووٹ 2013 کا الیکشن والا ووٹ۔ جس کے لیے ابھی تک چیخ و پکار کا موسم گرم ہے کہ 2015 شروع ہوچکا ہے مگر چیخیں ہیں کہ کم ہی ہوکے نہیں دے رہی ہیں اور ان چیخوں کا انجام کیا ہوگا نامعلوم؟

نامعلوم افراد بھی شاید پاکستان کی تاریخ کا انمٹ حصہ بن جائیں گے کہ ان معلوم افراد نے لوگوں کو زندہ جلادیا۔ لوٹ کھسوٹ کیا، گولیوں کی بارش، جلاؤ گھیراؤ، ڈکیتیاں اور پتہ نہیں کیا کیا!کوئی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکا کیونکہ یہ نامعلوم افراد کہاں سے آئے اور کہاں گئے کچھ پتہ نہیں چلتا، ٹک ٹک گھڑی کی آواز مسلسل سنائی دیتی ہے مگر درد سے ڈوبی ہوئی آوازیں ایسا بہرہ کر رہی ہیں کہ اب شاید روٹین کی زندگی ہے یہ۔ بے حسی ایسی طاری ہوتی جا رہی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اتنے بڑے بڑے پیٹ ہوگئے ہیں کہ جو بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں، آنکھوں پر ایسا ہرا چشمہ ہے جو اترتا ہی نہیں، ہر چیز ہری ہری نظر آرہی ہوتی ہے۔

لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ایسی بے حسی تو کبھی نہیں دیکھی جیسی کہ اب ہے۔ وجہ کیا ہے؟ کیا ہم اب انسان ہوتے ہوئے انسان نہیں رہے، کیا ہم صرف شکلوں کے انسان ہیں یا ہمارے خون میں کچھ ایسے جراثیم مل گئے ہیں جو ہمیں اندر سے بھیڑیے بنا رہے ہیں، ہم اب اپنے اپنے شکار کے انتظار میں رہتے ہیں، موقعے کی تلاش رہتی ہے اور جیسے ہی شکار اور موقعہ مل جائے ہم ہلّا بول دیتے ہیں۔ فیشن اور کچھ کھانے کی عادتوں نے شاید ہم میں بے حسی زیادہ ڈال دی ہے ورنہ سردی اور گرمی دونوں کا احساس تو ہوتا ہے۔ جس طرف نظر دوڑائیں عجیب عجیب واقعات نظر آتے ہیں، مارگلہ پر جب جہاز گرا اور جہاز میں سوار تمام لوگ ابدی نیند سوگئے تو وہاں جہاں لوگ اپنے پیاروں کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے وہاں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو سونیوالی چوڑیوں سے بھری کلائیاں کاٹ رہے تھے۔

جو ان لاشوں میں بھی مال و دولت ڈھونڈ رہے تھے، سچ سوچ کر بھی الٹی آنے لگتی ہے یہ کون سی منزل ہے لالچ کی۔مال و دولت کی زیادتی نے اور علم کی کمی نے عقل و سوچ پر پہرے بٹھا دیے ہیں کہ جب تک علم کی روشنی نہیں پھیلے گی اچھائی اور برائی کا فرق کیسے پتہ چلے گا، دلی خواہش ہے کہ موبائل فون اور اس کی ایڈورٹائزمنٹ کی طرح کاش علم و عمل بھی ایسے ہی پھیلے۔بہت زیادہ آسان کرنا ہوگا تعلیم کا حصول ہر ایک کے لیے، بہت زیادہ آسان اور سہل بنانا ہوگا ان تمام تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا کہ بالکل ایسے ہی ترغیب دینی ہوگی تعلیم حاصل کرنے کی جیسے رات کے Cell فون کے پیکیجز فری ہوتے ہیں اور ہر ایک کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ان پیکیجز کا استعمال بہت سستے میں اور آسانی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔

بچے ہوں یا خواتین یا مرد حضرات ہم تمام ہی جب تک کھلے ذہن اور کھلی سوچ کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے ترقی و کامیابی کیسے ملے گی؟ ایک دوسرے کے حق کی نہ صرف بات کرنی ہوگی بلکہ practicallyہمیں ایک دوسرے کے حق کا خیال کرنا ہوگا ایک دوسرے کو آگے بڑھنے کے راستے دینے ہوں گے، جہاں گھٹن ہوگی جہاں سانس رکے گا وہیں کچھ نہ کچھ غلط ہوگا۔ زندگی تمام لوگوں کے لیے سہل اور آسان ہو کہ یورپ کی طرح بنیادی ضرورتوں پر تو لوگوں کو رسائی حاصل ہو۔ بہت ہی زیادہ فرق ہوتا جا رہا ہے معاشرے میں اور معاشرے کی بنی ہوئی کلاسوں میں، یہاں تک کہ تعلیم یافتہ اولاد ان ہی والدین کا مذاق اڑاتی نظر آتی ہے جو ان کو تعلیم یافتہ بنانے میں اپنی ساری زندگی لگا دیتے ہیں۔اندرکی خباثتوں کو ختم کردیجیے تو مسکراتے چہروں پر خود بخود نور آجائے گا اور رنگ گورا کرنیوالی کریموں اور انجکشن سے جان بھی چھوٹ جائے گی۔

چھوٹے سے لے کر بڑے تک اور مسلمان سے لے کر ان تمام مذاہب کے لوگوں تک جو ہمارے دیس میں بستے ہیں حقوق و انصاف کو عام کردیا جائے لوگوں کی پہنچ تک کردیا جائے، خالی باتوں سے کبھی پیٹ نہیں بھرا کرتے، پیٹ بھرنے والی غذائیں، اجناس اور تمام بنیادی ضرورتوں کو جب تک آسان اور سہل نہیں بنایا جاسکے گا یہ دنگا و فساد ایسے ہی گھروں سے لے کر بازاروں تک پھیلتا چلا جائے گا، لوگ سکون و امن کی آس و امید لیے ہوئے ایسی جگہوں میں بس جائیں گے جہاں وہ تمام تر لوازمات کے ساتھ نمبر2 شہری بن کر زندگی گزاریں گے صبح اٹھتے ہوئے اور رات کو سوتے ہوئے اپنے وطن اور گلیوں کو یاد کریں گے اور کبھی ڈبے میں Packہوکر دفن ہونے کے لیے آجائیں گے، یہ ہم سب کا پاکستان ہے اسے ہم سب کا پاکستان رہنے دو۔ اور آخر کار یہ ہم سب کا ہی رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔