جما عت اسلا می کی خو ش فہمیوں کی سیا ست

اسلم خان  اتوار 12 اپريل 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

جماعت اسلامی کا دائروں میں سیاسی سفر آج بھی جاری ہے۔ تاریخ سے صالحین نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔کراچی کا ضمنی انتخاب اجتماعی دانش کے لیے کڑا امتحان بن گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقے NA-246 پر اپنا حق ثابت کرنے کے لیے بودے دلائل کا انبار لگائے جا رہے ہیں۔ سراج الحق عملیت پسند سیاستدان ہیں۔

ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کو براہ راست مقابلہ کرنے کا موقع دیں گے۔ پیپلزپارٹی اور حکمران مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی کو اپنا تے ہوئے انتخا بی اکھاڑے سے نکل جائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حقائق کی دنیا میں رہنے والے سراج الحق دن میں خواب دیکھنے کے عادی اپنے ساتھیوں کو قائل کر لیں گے؟ لیکن یہ کہاجا رہا ہے کہ 1970کے عام انتخابات میں اس علاقے سے پروفسر غفور احمد نے کامیابی حاصل کی تھی۔

1977ء میں بھی وہی کامیاب ہوئے تھے جب کہ 1985 کے غیر سیاسی انتخابات میں پروفیسر مظفر ہاشمی نے میدان ما ر لیا تھا۔ جس کے بعد کراچی بتدریج ایم کیو ایم کا شہر بنتا چلا گیا۔ 2002ء کے انتخابات میں ہمارے دیرینہ کرم فرما راشد نسیم صرف 32 ہزار ووٹ لے سکے تھے۔ 2008ء میں جماعت اسلامی میدان میں نہیں تھی جب کہ 2013ء میں بائیکاٹ کر دیا گیا جب کہ پی ٹی آئی میدان میں ڈٹی رہی جس کے نتیجے میں ڈاکٹر عار ف علوی رکن قومی اسمبلی ہیں اور پی ٹی آئی کو مجموعی طور پرکراچی شہر سے تمام تر مشکلات اور دشواریوں کے باوجود 8لا کھ ووٹ ملے۔ ان تمام حقائق کے باوجود جما عت اسلامی کی قیادت NA-246کو اپنا روایتی حلقہ قرار دینے پر اصرار کر رہی ہے

انو کھا لاڈلاکھیلن کو ما نگے چا ند رے

اب ہمارے پیارے لیاقت بلوچ کہتے ہیں کہ 12 اپریل کو عائشہ منزل پر تاریخی جلسہ عام کے بعد سراج الحق کے ایک اشارے پر ہماری جیت یقینی ہو جائے گی، اس لیے امید ہے کہ تحریک انصاف اپنے امیدوارکو جماعت اسلامی کے حق میں دستبردار کرالے گی کیونکہ کراچی میں صرف جماعت اسلامی ہی ایم کیو ایم کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ ویسے کراچی میں ضمنی انتخاب کے حوالے سے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں رابطے اور مذاکرات جاری ہیں جب کہ دونوں جماعتیں کراچی میں آئندہ بلدیاتی انتخابات باہمی تعاون سے لڑنے پر متفق ہو چکی ہیں۔

کیا تمام تر حقائق اور حالات وواقعات، جذباتی اور اناپسند صالحین کو جوش کی بجائے ہوش کی راہ اپنانے پر آمادہ کرلیں گے، اس کا فیصلہ 12 اپریل کے جلسہ عام میں ہو جائے گا۔

سیاست کا طالب علم یہ کالم نگار یہ پڑھ کر حیران رہ گیا کہ جماعت اسلامی کی سیاست روزاول سے اسی طرح کے “حقیقت پسندانہ تجزیو ں” پر استوار کی گئی ہے۔ خوش فہیموںکی طویل تاریخ کسی اور نے نہیں جماعت اسلامی کے ممتاز دانشورمرحوم خرم مراد بڑی تفصیل سے بیان کی ہے۔ ان کی یاداشتوں پر مشتمل کتاب ‘لمحات’ خا صے کی چیز ہے۔

خرم مراد، ما یہ نازعالمی شہرت یاٖفتہ انجینئر تھے جنھوں نے محروم مشرقی پاکستان میں آبی ذخائر کی تشکیل وتعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن اور دیگر بنگالی رہنماء ان کے اخلاق و کردار کے ایسے گرویدہ تھے کہ شیخ مجیب الرحمن انھیں ایوب خاں کے خلاف تشکیل پا نے والی متحدہ حزب اختلاف کا مرکزی فنانس سیکریٹری بننے پر مصر رہے۔ انتخابی سیاست کے بارے جماعت اسلامی کے رویوں پر خرم مراد مرحوم نے ایسے انکشافات کیے ہیں کہ قلم توڑ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

“جماعت اسلامی کے پاس تو امیدواروں کی قابل ذکر تعداد بھی موجود نہیں تھی۔ قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے 150 نمانئدے منتخب ہونے تھے، اس میں صرف 20 یا 25 حلقے ایسے تھے، جہاں ہم نام دے سکتے تھے کہ کوئی آدمی ہمارے طرف سے کھڑا ہو سکتا ہے۔ درحقیقت ان 20 یا 25 لوگوں کے نام بھی ایسے تھے، جو ہم نے زبردستی جمع کیے تھے۔

لیکن میں نے دیکھا کہ عوامی لیگ کے پاس ڈیڑھ سونشستوں کے لیے پورے ڈیڑھ سو نمانئدے موجود تھے۔ اس وقت پہلی بار مجھے عوامی لیگ کی بے پناہ سیاسی قوت کا اندازہ ہوا ۔مجھے یہ خیال ہوا کہ جو بھی الیکشن لڑ کر جیتنا چاہتا ہو، اس کو بڑے پیمانے پر اپنا حلقہ اثر بنانا ہی پڑے گا۔ جب کہ ہم مضبوط سیاسی بنیاد کے بغیر تھے۔

ہم نے قومی اسمبلی کے الیکشن میں غلام اعظم صاحب کا نام تجویز کیا تھا۔ یہ ڈھاکہ کے قریب تھانہ ساورکی ایک سیٹ تھی۔ یہ ان کا اپنا گاؤں نہیں تھا۔ ہماری مجوزہ سیٹ پر غلام اعظم صاحب کا ذاتی سطح پر کوئی اثر نہیں تھا۔ ہم کو خود سوچنا چاہیے تھا کہ ہم اگر جیت سکتے ہیں تو صرف جماعت کی بنیاد پر جیت سکتے ہیں مگر اس حلقے میںتو جما عت کا کوئی کا م بھی نہیں تھا۔

بہر حال ہم نے انتخابی کمیٹی میںغلام اعظم صاحب کا نام تجویز کر دیا۔ شیخ مجیب الرحمن اس زمانے میں مجھ سے عزت احترام سے ملتے تھے۔ وہ میرا ہاتھ تھام کر مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے “اگر آپ اپنی تجویز میں سنجید ہ ہیں تو ظاہر ہے کہ غلام اعظم کے مقابلے پر ہم کسی کو کھڑا نہیں کریں گے اگر آپ ان کے لیے یہ سیٹ چاہتے ہیں تو ہم دے دیں گے لیکن میر اخیال کہ آپ ذرا تحقیق کر لیں۔کہ وہاں سے ان کے جیتنے کا امکان کس قدر ہے۔

اس سلسلے میں آپ عطاالرحمن صاحب سے بات کرلیں، جو ہماری طرف سے اس حلقے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ وہ اب الیکشن نہیں لڑ رہے۔ یہ انھی کا حلقہ ہے۔ یہ وہی مجیب الرحمن تھے جو بعد میں بنگلہ دیش کے بانی بنے۔

عطا الرحمن سے وقت لے کر میں ان کے پاس گیا اور بات کی انھوں نے ہر پہلو سے پورے حلقے کا بھرپور تجزیہ کہ مجھے بتایا کہ “غلام اعظم صاحب کو وہاں پر پانچ ٖفیصد بھی ووٹ نہیں ملیں گے “میں نے واپس آکر جماعت میں اپنے ساتھیوں سے بات، کوئی فائد ہ نہیں ہو گا، بلکہ غلام اعظم صاحب کی حثیثت متاثر ہو گی اور خرچ بھی اتنا ہو گا اس لیے مناسب بھی یہی ہے کہ ہم حقیقت پسند بننا چاہیے۔

یہ خوشی کی بات تھی کہ جماعت کے ساتھیوں نے میری بات خوشی دلی سے مان لی۔کسی کے چہرے پر کوئی ناگواری نہ تھی۔ اس لیے میں نے انتخابی کمیٹی میں جا کر بخوشی ان کا نام واپس لے لیا۔

یہاں یہ بات بھی کہوں گا کہ جتنے غیر حقیقت پسندانہ تجزیو ں اور بے جا توقعات پر ہم لوگوں کو کھڑا کرتے رہے ہیں، وہ کوئی ایک دوبار کا تجربہ نہیں ہے۔ 1970ء میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی اور بعد میں بھی یہ ہوتا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔