تاریخ سے روگردانی نہ کریں

نجمہ عالم  جمعـء 1 مئ 2015
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے فاطمہ نقوی نے جس مسئلے کا ذکر اپنے کالم میں کیا ہے وہ ہمارے بے سمت معاشرے کا بے حد سنجیدہ بلکہ رنجیدہ اور اہم مسئلہ ہے جس نے بے شمار خاندانوں کو متاثر کیا ہوا ہے۔ آج کل لڑکیاں ماشااﷲ تمام شعبہ ہائے زندگی میں بے حد فعال، کامیاب اور با صلاحیت ثابت ہورہی ہیں، تعلیمی سطح پر پہلی دس پوزیشن میں سے عموماً چھ سات طالبات ہی کی ہوتی ہیں۔

ظاہر ہے کہ علم نے ان کو روشن خیال با عمل اور ان کے انداز فکرکو بے حد مثبت اور حقیقت پسند کردیا ہے جب کہ لڑکے ان کے مقابلے پر نہ تعلیم کے حصول پر توجہ دے رہے ہیں اور نہ محنت و جانفشانی پر جس کے باعث بڑی لڑکیوں کے درمیان ذہنی ہم آہنگی میں خلیج حائل ہورہی ہے۔ فی زمانہ اس وجہ سے اول تو اچھے رشتے ملنا ہی دشوار ہوتے جارہے ہیں۔

اب اگر لڑکی کے والدین ڈگری یا اچھی ملازمت دیکھ کر اپنی بیٹی کے لیے کسی لڑکے کا انتخاب کرلیتے ہیں تو بعد میں رسم و رواج کے بہانے اپنی قوت بازو پر بھروسہ نہ ہونے کے باعث اس لڑکی کا خاندان اس کی ڈگری جو محض ڈگری ہی ہوتی ہے علم نہیں اور اس کی بنیاد پر حاصل کردہ ملازمت کو پوری طرح کیش کرنے کی ٹھان لیتے ہیں اور بقول فاطمہ ’’اپنی لمبی چوڑی فرمائشی فہرست اس وقت پیش کرتے ہیں جب لڑکی والوں کے ہاتھ سے وقت نکل چکا ہوتا ہے‘‘ یعنی لڑکی کی شادی کا سارے خاندان اور دیگر لوگوں کو پتہ چل چکا ہوتا ہے کارڈ تقسیم ہوچکے ہوتے ہیں تو ان کے لیے ’’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘ والی صورت  حال ہوجاتی ہے۔

لہٰذا مشکل سے طے کیا ہوا رشتہ ہاتھ سے نکل جانے، معاشرے میں اپنی عزت کا خطرے میں پڑ جانے اور بیٹی کے ارمانوں کی خاطر (لڑکی کو صورتحال بتائے بغیر) وہ یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مگر کچھ باہمت اور جہاندیدہ والدین ایسے بھی ہوتے ہیں جو فرمائشی فہرست کو دیکھ کر ہی اندازہ کرلیتے ہیں کہ ہم زندگی بھر کا روگ پال رہے ہیں ۔

اس فرمائش کو پورا کرنا اتنا مشکل نہیں مگر لوگوں کی نیت کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ خود بیٹی والے ہوتے ہوئے آج یہ ہماری مجبوری سے فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہیں کل جب لڑکی ان کی ہوجائے گی تو کیا یہ اس کو خوش رکھ سکیں گے؟ اور آئندہ مزید فرمائشیں نہیں کرتے رہیں گے؟ لہٰذا یہ رشتہ جوڑ کر ہم اور ہماری بیٹی ہمیشہ خسارے میں رہیں گے، بیٹی کی زندگی جہنم بنانے اور بالآخر طلاق سے بہتر ہے کہ رشتے سے ہی انکارکردیاجائے یہ وہ باہمت لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کی بجائے صرف اﷲ سے ڈرتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کے لیے اﷲ کے سامنے جوابدہ ہیں۔

آپ کو شاید یقین نہیں آئے گا یہ میرے اپنے گھر کا قصہ ہے میری بڑی بہن جو بے حد شوخ، سلیقہ شعار، تعلیم یافتہ تھیں۔ ان کے کئی رشتوں میں سے جس رشتے کو قبول کیا گیا جو بظاہر مطلوبہ معیار پر پورے اترتے تھے جب رشتہ قبول کرلیاگیا تو انھوں نے بات پکی ہونے کی خوشی میں مٹھائی لے کر آنے کا وقت مانگا۔ وقت مقررہ پر وہ ایک کلو مٹھائی کا ڈبہ لے کر آئے اور لڑکے کی بہنوں نے باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ ہمارے جوڑے تو ہزاروں کے ہونے چاہئیں، ہماری والدہ نے اس پر کسی بھی رد عمل کا اظہار نہ کیا۔

ان کے جانے کے بعد جب والد صاحب کے سامنے ذکر ہوا تو والد صاحب نے کہاکہ یہ تو پہلی فرمائش ہے اگر آگے چل کر انھوں نے کوٹھی بنگلے اور گاڑی کی فرمائش کردی تو… یہ فرمائش اتنی بڑی نہ سہی مگر ان کی نیت کا کھوٹ تو ظاہر ہوگیا، لہٰذا بات کو اسی وقت ختم کردو۔ امی اور دوسروں نے بہت سمجھایا کہ رشتہ ہر طرح مناسب ہے مگر والد صاحب نے یہ کہہ کر کہ میری اور بھی بیٹیاں ہیں اگر اس وقت یہ قدم نہ اٹھایا گیا تو آگے مزید مسائل پیش آئیں گے اور انھوں نے خود فون کر کے رشتہ ختم کردیا۔

اگر تمام والدین بروقت اقدام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان بے جا فرمائشوں اور رسومات کی بیخ کنی نہ ہوسکے۔ مگر تمام لوگ ہی خود غرض اور لالچی نہیں ہوتے۔ تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ میری بھانجی کا رشتہ طے ہوا، میری بہن کے حالات بہت اچھے نہ سہی مگر ایسے بھی نہ تھے کہ وہ عام قسم کا جہیز نہ دے سکے۔ لڑکا پڑھا لکھا اور بے حد اچھے عہدے پر فائز تھا بات طے ہونے کے بعد وہ خود لڑکی کی والدہ کے پاس آیا اور کہاکہ آنٹی میں آپ کو بتانے آیا ہوں کہ جہیز کے نام پر میں ایک بھی چیز قبول نہیں کروںگا مجھے صرف آپ کی بیٹی چاہیے۔

اﷲ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اس قابل کیا ہے کہ میں تمام عمر اس کی ذمے داری اٹھاسکتا ہوں، غرض بہت کچھ دلائل دینے پر بھی لڑکے نے اپنا موقف تبدیل نہ کیا۔ شادی پر جو لوگ بچی کے لیے تحائف لائے وہ لڑکی کی والدہ نے یہ کہہ کر دینے چاہے کہ یہ تو لوگوں نے دیے ہیں مگر لڑکے کا یہ کہنا تھا کہ تحائف میری بیوی کو نہیں دیے گئے بلکہ آپ جو لوگوں کو دیتی رہی ہیں اس کا بدلہ ہیں۔ لہٰذا یہ آپ کے ہیں اور وہ کچھ بھی لے کر نہ گیا۔ آج ہمارے خاندان کی تمام شادی شدہ لڑکیوں میں ماشاء اﷲ وہ بچی بے حد خوش و خرم اور کامیاب زندگی بسر کررہی ہے۔

ان دو مثالوں کو پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں لڑکی کے لیے اچھے لڑکے کی ضرورت ہے وہاں لڑکوں کو بھی روشن خیال با صلاحیت تعلیم یافتہ لڑکیوں کی ضرورت ہے جو ان کے گھر اور زندگی کو جنت بنا دیں، پھر آخر لڑکے کیوں اہم اور لڑکیاں کیوں غیر اہم قرار دی جاتی ہیں؟

جہاں تک اس قبیح رسم کے خاتمے کا تعلق ہے یہ کسی قانون،کسی سزا یا جرمانہ عائد کرنے سے نہیں ہوگی اس کے لیے خود لڑکوں کو قدم اٹھانا ہوگا ذرا دیرکو سوچیں ان کی بھی بہنیں اور پھر بیٹیاں ہوں گی تو کیا وہ مکافات عمل سے بچ سکیں گے؟ پھر وہ جو کہتے ہیں کہ ’’عورت کی دشمن خود عورت ہے‘‘ تو اس میں قصور ان ماؤں کا بھی ہے جو اپنے بیٹوں کی اچھی قیمت وصول کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور بیٹوں کے دل و دماغ میں یہ خیال بسا دیتی ہیں کہ یہ سب تمہارا حق ہے مائیں اگر بیٹوں کو خود اپنی ذات اور قوت بازو پر بھروسہ کرنے کے ساتھ روشن خیال، بے غرض اور دوسروں کا خیال رکھنے کا عادی بنائیں تو تمام مسائل کا حل ممکن ہے یعنی ’’علم جو روشن خیالی پر مبنی ہو اس کا حصول ہی تمام مسائل کا حل ہے۔

آخر میں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے یہاں جہیزکو سنت نبویؐ سمجھا جاتا ہے جب کہ مستند روایات کی رو سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اپنی صاحبزادی کو دیا وہ سب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ  سے خرچ کروایا تھا۔ آپ نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس کچھ رقم ہے جس کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ یا رسول اﷲؐ آپ میرے حالات سے واقف ہیں میں نے جو کچھ اپنی محنت سے کمایا کبھی پس انداز نہیں کیا بنیادی ضرورت پوری کرنے کے بعد سب کچھ خیرات کردیا۔

حضورؐ نے فرمایا کہ تم اپنی زرہ فروخت کردو کہ یہ تمہارے لیے غیر ضروری ہے حضرت علی کرم اﷲ کی زرہ بعض روایات کے مطابق سات سو درہم میں فروخت ہوئی جو لاکر نبی کریمؐ کی خدمت میں پیش کردی گئی، رسول اﷲ ؐ نے اس رقم سے اپنی بیٹی کو چمڑے کا گدا جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے، ایک مشک اور ایک مٹی کا کوزہ (پیالہ) ایک نیا جوڑا لباس ایک چکی اور زیور میں کچھ روایات کے مطابق بازو بند اور کچھ کے مطابق کڑے (چاندی کے) عنایت فرمائے، حضرت علیؓ سے فرمایا کہ شادی کے لیے پہلے ایک حجرہ (کمرہ) بناؤ جو تاریخی حقائق کی رو سے مٹی کی دیواروں پر کھجور کے پتوں کی چھت ڈال کر بنایاگیا تھا۔ غرض یہ سب کچھ سو درہم سے کم میں تیار ہوا تھا اور یہ ساری رقم خود حضرت علیؓ کی تھی ، باقی رقم خیرات کردی گئی تھی۔

(عرب میں اور ہمارے یہاں بعض قبائل میں آج بھی یہ رسم موجود ہے کہ شادی کے تمام اخراجات لڑکا برداشت کرتا ہے) ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا کہ حضورؐ نے اپنی بیٹی کو جہیز دیا تھا ایک غلط تاثر ہے۔

جس کی ہمارے علماء دینی رہنما، مقررین اور تاریخ پر نظر رکھنے والے وہ حضرات جو لکھنے کا ہنر بھی جانتے ہیں کو چاہیے کہ بھرپور انداز میں اس تاثر کی نفی کریں ہمارے دینی رہنما اور علما کو تو چاہیے کہ اس قبیح رسم کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں جو بلا وجہ تعصب کی آبیاری اور نفرتوں کی شجر کاری میں مصروف ہیں۔ لوگوں کو سنت نبویؐ کے حقیقی پہلوؤں سے نہ صرف آگاہ کریں بلکہ اس کے برعکس روایات کے خلاف سخت اقدامات بھی کریں تاکہ معاشرہ حقیقی معنوں میں سادگی کی جانب گامزن ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔