- زہریلے کنکھجورے گردوں کی بیماری کے علاج میں معاون
- ناسا کا چاند پر جدید ریلوے سسٹم بنانے کا منصوبہ
- ایران کے صحرا میں بنایا گیا ویران شہر
- خشک دودھ کی درآمد پر پابندی، امپورٹ ڈیوٹی بڑھانے کا مطالبہ
- گندم اسکینڈل، کسانوں کا 10 مئی سے ملک گیر احتجاج کا اعلان
- جان بچانے والی 100 سے زائد دواؤں کی قلت پیدا ہوگئی
- اے ڈی بی؛ 100 ارب ڈالر کے اضافی فنڈز کے اجرا کا خیرمقدم
- نیپرا، اوور بلنگ پر افسران کو 3 سال کی سزا کا بل منظور
- ایشیائی اور بحرالکاہل کے ممالک معمر افراد کی فلاح و بہبود میں ناکام
- نیا قرض پروگرام، آئی ایم ایف مشن رواں ماہ پاکستان آئے گا
- پی ایس ایل کو مزید مسابقتی بنایا جائے گا
- تعریف کرنے پر حارث کوہلی کے شکرگزار، عامر سے سیکھنے کے منتظر
- موٹروے ایم نائن کے قریب ٹرالر اور وین میں تصادم، 3 مسافر جاں بحق
- دوستی نہیں ٹیم کا سوچیں
- ملک کو سنگین چیلنجز درپیش...انا پرستی چھوڑ کر مل بیٹھنا ہوگا!
- اسرائیل میں حکومت نے قطری نیوز چینل الجزیرہ کی نشریات بند کردی
- ایس ای سی پی نے پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ کی تنظیم نو کی منظوری دے دی
- مسلم لیگ(ن)، پی پی پی کے درمیان پاور شیئرنگ، بلاول کی بطور وزیرخارجہ واپسی کا امکان
- تربیتی ورکشاپ کا انعقاد، 'تحقیقاتی، ڈیٹا پر مبنی صحافت ماحولیاتی رپورٹنگ کے لئے ناگزیر ہے'
- پی ٹی آئی نے 9 مئی کو احتجاج کا پلان ترتیب دے دیا
نئی اور پرانی دنیا
موٹروے سے اتر کر پشاور جانے والی جی ٹی روڈ کی طرف مڑتے ہی خود بخود میرے ذہن میں برادرم اسلم انصاری کی مشہور نظم ’’گوتم کا آخری وعظ‘‘ کی لائنیں گردش کرنے لگیں شائد اس لیے کہ میری منزل مقصود ٹیکسلا کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی تھی جس کا کیمپس اسی نواح میں ہے جہاں تقریباً اڑھائی ہزار برس قبل بدھ مت کی سب سے بڑی دانش گاہ واقع تھی۔
یہ مقام گیان، دھیان، تعلیم اور سکشا کا ایک ایسا مرکز تھا جس کی طرف اس وقت کی معلوم دنیا کے سوچنے اور فکر کرنے والے ذہن آپ سے آپ کھینچے چلے آتے تھے، اسلم انصاری کی اس نظم میں بھی انسانی زندگی اور اس بسیط کائنات میں اس کے وجود کے فانی پن اور ایک طرح کی بے معنویت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سو اس سفر کی غایت اور اس کی تفصیلات کے ذکر سے پہلے آئیے اس شاندار نظم کی کچھ لائنیں دیکھتے ہیں کہ نظم کی طوالت اور کالم کی محدودیت کے باعث مجھے بادل نخواستہ اسے ایڈٹ کرنا پڑ رہا ہے جب کہ اس کی ایک ایک لائن پڑھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہے
مرے عزیزو، مجھے محبت سے تکنے والو
مجھے عقیدت سے سننے والو
میں بجھ رہا ہوں
مرے عزیزو میں جل چکا ہوں
میں اپنے ہونے کی آخری حد پہ آ گیا ہوں
تو سن رہے ہو مرے عزیزو، میں جارہا ہوں
میں اپنے ہونے کا داغ آخر کو دھو چلا ہوں
کہ جتنا رونا تھا، رو چلا ہوں
مجھے نہ اب انت کی خبر ہے نہ اب کسی چیز پر نظر ہے
میں دکھ اٹھا کر مرے عزیزو
میں دکھ اٹھا کر، حیات کی رمز آخریں کو سمجھ گیا ہوں
تمام دکھ ہے
وجود دکھ ہے وجود کی یہ نمود دکھ ہے
حیات دکھ ہے ممات دکھ ہے
یہ ساری موہوم دبے نشاں کائنات دکھ ہے
شعور کیا ہے؟
اک التزام وجود ہے اور وجود کا التزام دکھ ہے
جدائی تو خیر آپ دکھ ہے، ملاپ دکھ ہے
کہ ملنے والے جدائی کی رات میں ملے ہیں، یہ رات دکھ ہے
یہ زندہ رہنے کا، باقی رہنے کا شوق یہ اہتمام دکھ ہے
سکوت دکھ ہے کہ اس کے کرب عظیم کو کون سہہ سکا ہے!
کلام دکھ ہے کہ کون دنیا میں کہہ سکا ہے جو ماورائے کلام دکھ ہے!
یہ ہونا دکھ ہے، نہ ہونا دکھ ہے، ثبات دکھ ہے، دوام دکھ ہے
مرے عزیزو تمام دکھ ہے
دکھ کے اس فلسفے میں جس فنا پذیری کی طرف بار بار اشارہ کیا گیا ہے اس کا ایک منظر تو ٹیکسلا کے ان کھنڈرات میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جن کی ایک ایک اینٹ استحکام کی دعویدار تھی لیکن یہ تماشا بھی بہت عجیب ہے کہ ہر نئی عمارت اور اس کے بنانے والے اسی گمان میں رہتے ہیں کہ فنا کا ہاتھ ان کو چُھو نہیں پائے گا۔
UET ٹیکسلا کی دور تک پھیلی ہوئی عمارات کے درمیان کھڑا میں بہت دیر تک یہی سوچتا رہا کہ گوتم کے زمانے کا باطنی علم ہو یا آج کی دنیا کا یہ معلومات کا انبار (جسے ہم نے علم کا ہم معنی قرار دے دیا ہے) سب کے سب وقت کے اس منہ زور دریا کی وہ موجیں ہیں جو بالآخر اس سمندر کا رزق بن کر بے نام ہوجاتی ہیں جس میں ہمارا ہونا اور نہ ہونا ایک ہی سکے کے دو رخ بن جاتے ہیں۔
SMS پر کسی کا میسج آیا کہ آج سید ضمیر جعفری کا یوم پیدائش ہے مجھے یاد آیا کہ پچیس تیس برس قبل جب میں پہلی بار اسی یونیورسٹی کے ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے آیا تھا تو جعفری صاحب مرحوم بھی ہمارے ساتھ تھے اور یہیں میں نے ان سے پہلی بار وہ شعر سنا تھا جس کا لطف کبھی کم نہیں ہوا، شعر کچھ یوں تھا ؎
وہ تو خاموش ہیں جہالت سے
لوگ انھیں فلسفی سمجھتے ہیں
مجھے جس گیسٹ روم میں ٹھہرایا گیا اس میں وہاں کے کئی غیر شادی شدہ اساتذہ بھی رہتے ہیں۔ سو مشاعرے کے بعد شام سے رات تک ان سے گفتگو کا ایک طویل سیشن چلا اور یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ انجینئرنگ جیسے خشک اور ادب سے بوجوہ دور شعبے کے لوگ بھی انسانی زندگی کو سوشل سائنسز اور فنون لطیفہ کے حوالوں سے سمجھنے میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں۔ انگریزی کی ایک خاتون پروفیسر کے کچھ سوالات نے بہت مزا دیا کہ ان میں احمد مشتاق کے اسی معروف شعر کی جھلک نمایاں تھی جسے میں اپنے کالموں میں اکثر درج کرتا رہتا ہوں۔
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
گزشتہ روز یعنی 12 مئی کو UET لاہور میں بھی ایک مشاعرہ ہوا۔ یہاں سامعین کی تعداد نہ صرف بہت زیادہ تھی بلکہ ان کا جوش و خروش بھی دیدنی تھا۔ دونوں جگہوں پر سامعین نے نوجوانوں کی مخصوص خوش طبعی اور ہلے گلے کے باوجود جس طرح سے ہر اچھے شعر کو سنا اور سمجھا اور حسب موقع داد سے بھی نوازا وہ ایک بہت دل خوش کن منظر اور تجربہ تھا کہ فی زمانہ ہماری نئی نسل اپنے نظام تعلیم، معاشرتی دباؤ اور تحفظ ذات کے مسائل کے باعث اپنی روایتی اور انسانی اقدار سے جس طرح دور ہوتی جا رہی ہے اس کے تناظر میں یہ محفلیں صحرا میں نخلستان کی طرح تھیں کہ نئی دنیا کتنی بھی نئی کیوں نہ ہوجائے اس کا کچھ حصہ ہمیشہ پرانی دنیا سے مربوط رہتا ہے۔ سو عملی زندگی میں مستقبل کے ان کامیاب پروفیشنلز کے لیے گوتم کے اس دکھ کو سمجھنا بھی بے حد ضروری ہے جس کا کچھ احوال برادرم اسلم انصاری کی مذکورہ بالا نظم میں بیان ہوا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔