غوث علی شاہ کے ساتھ ایک نشست

مقتدا منصور  جمعرات 21 مئ 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

میرے بہت ہی پیارے دوست اور برادرخرد جمشید بخاری نے اس سال فروری میں اسلام آباد دورے کے دوران سرسری طورپرکہا تھا کہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ اور مسلم لیگ(ن) کے سابق صوبائی صدرغوث علی شاہ چند تجزیہ نگاروں کے ساتھ ملاقات کے متمنی ہیں۔ بات آئی گئی ہوگئی۔

اسی دوران یہ خبر آئی کہ غوث علی شاہ،جو ممنون حسین صاحب  کو صدرمملکت بنائے جانے پر اپنی جماعت سے شدید ناراض تھے، بالآخر پارٹی کی صوبائی قیادت سے مستعفی ہوگئے ہیں۔

پھر خبرآئی کہ سندھ کے چار سابق وزرائے اعلیٰ(ارباب غلام رحیم، لیاقت جتوئی، ممتاز علی بھٹو اورغوث علی شاہ) جوعملاً مسلم لیگ(ن) کا حصہ ہیں، پارٹی قیادت سے ناراض ہوکر سندھ کی سطح پر ایک اتحاد قائم کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جہاں سندھ کی سطح پر متبادل قیادت کی ضرورت ہے، وہیں دوسری طرف وفاقی حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کی بھی شدید ضرورت ہے۔ لہٰذا گزشتہ جمعرات کوجب جمشید نے فون پر بتایا کہ شاہ صاحب نے دوستوں کو ظہرانے پر مدعو کیا ہے، تو ان کے خیالات جاننے کی خواہش میں ہم  نے فوراً حامی بھرلی۔ یوں گئے سنیچر کو پریس کلب سے دوگاڑیوں میں ہم ان کے دردولت پر پہنچے۔ پھر گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔

ان سے ہونے والی گفت وشنید سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ سندھ کی سیاست پر سادات کے انتہائی گہرے اثرات ہیں۔ معاملہ سندھ کی بمبئی پریزیڈنسی سے علیحدگی کا ہو یا انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد کا۔ پاکستان کے قیام کے لیے کی جانے والی تحریک کا ہو یا پھرقیام پاکستان کے بعد سندھی عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر انھیں مجتمع کرنے کا، سندھ کے سادات ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ۔

جہاںایک طرف پیر(پگارو)صبغت اللہ شاہ راشدی شہید اور سائیں جی ایم سید نے سندھی عوام میں قومی تشخص اور تفاخرکے احساس کو بیدارکیا ، وہیں سندھ پرحکمرانی کرنے والے سادات نے سندھ کی سیاست میں نئی جہتیں متعارف کرائیں۔انھیں سادات میں ایک نام سید غوث علی شاہ کا ہے جن کا تعلق سندھ کے سیاسی طورپر بیدار اور فعال ضلع خیر پور میرس سے ہے۔ وکالت سے منصفی تک اور پھر سیاست کے خارزار میں متنازع رویوں کے ساتھ چار دہائیوں سے موجود ہیں۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنی جوانی میں انھوں نے ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کیا اورکھل کر مادر ملت فاطمہ جناح کی حمایت کی مگر دوسرے آمر جنرل ضیاء کی آمریت کو سہارا دینے کا سبب بن گئے۔ان پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ انھوں نے سندھ ہائی کورٹ کے جج ہونے کو برقرار رکھتے ہوئے اس وقت کے گورنر سندھ جنرل عباسی کی کابینہ میں وزارت قانون کا قلمدان سنبھالا پھر 1985ء میں مقتدر قوتوں نے صوبائی اسمبلی کا رکن نہ ہونے کے باوجود،سندھ کی وزارت اعلیٰ ان کے سپرد کردی۔ یوں وہ اگلے تین برس (6جون 1985ء تا 6جون 1988ء)تک سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے۔

اس دوران سندھ میں لسانی بنیادوں پر بدترین خونریزی ہوئی۔ سندھی انھیں آمروں کا ساتھی تصور کرتے ہیں۔ اردو بولنے والی کمیونٹی ان کی نیت پر شک کرتی ہے۔ سندھ میں آباد پٹھان انھیں پختونوں کا دشمن سمجھتے ہیں مگر ان تمام شکوک وشبہات کے باوجود ان پر کسی قسم کی کرپشن یا بدعنوانی کا ایک بھی الزام نہیں ہے۔

جب گفتگو شروع ہوئی تو گویا شکوؤں اور شکایات کاایک دفترکھل گیا۔ میاں نواز شریف کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ وہ تواتر کے ساتھ غلط بیانی کرتے ہیں جس کی انھوں نے کئی مثالیں دیں۔ پہلا واقعہ انھوں نے یہ بتایا کہ فروری1997 کے انتخابات میں وہ خیر پور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ مختلف میٹنگوں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ قومی اسمبلی کا انھیں اسپیکر بنایا جا رہا ہے۔عین حلف برداری کے دن انھیں قومی اسمبلی کا حلف لینے سے روک دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ میں سمجھا کہ شاید سندھ کا وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے ہوں گے۔

قومی اسمبلی کا اسپیکر تو الٰہی بخش سومرو کو بناہی دیا لیکن ساتھ ہی سندھ کی وزارت اعلیٰ لیاقت جتوئی کودیدی۔ پھرجب فاروق لغاری نے صدارت سے استعفیٰ دیا تو مجھے بلاکر کہا کہ ہم نے آپ کو صدر بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے لیکن نجانے کیوں میری چھٹی حس ان کی باتوں پر یقین کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ اسی تذبذب میں گھر آگیا ۔

گزشتہ روز شام کو پھر طلب کیا اور اکیلے میں معذرت کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ میری مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ برا مت مانیے گا، ہم  نے آپ کے دوست جسٹس (ر)رفیق تارڑ کو صدر بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میں نے عرض کی کہ صدر، وزیر اعظم دونوں ایک ہی صوبے سے، یہ کیسے ممکن ہے؟ فرمایا آئین میں کہیں درج نہیں ہے کہ صدر اور وزیر اعظم ایک ہی صوبے کے نہ ہوں۔ کہتے میں نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور خاموش ہوگیا۔

پھر لندن میں قیام کے دوران مجھے صدر نہ بنائے جانے پر اکثرتاسف کا اظہارکرتے اورکئی بار گول مول انداز میںآیندہ ایسا نہ کرنے کی بات بھی کی۔جون2013ء میں وزیر اعظم کی حلف برداری کے بعد اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے تقریب کے بعد غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے مجھ سے استفسارکیا کہ آیا میرا مسکن یہ(یعنی ایوان صدر)ہوگا یا سندھ(وزیر اعلیٰ ہاؤس )۔میں نے میاں صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ،یہ زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں۔ مگر میاں صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔

شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے میاں صاحب کی خاطر ضعیف العمری  کے باوجود خاصی صعوبتیں برداشت کیں۔ کئی ماہ تک قید تنہائی میں رہا۔ پھر اپنے گھر پر کئی ماہ تک نظر بند ریا۔ مجھ سے فوجی افسران آکر ملتے اور مجھ سے وعدہ معاف گواہ بننے پر اصرار کرتے، مگر میں نے ہر پیش کش کو ٹھکرا دیا۔

لیکن میرے اخلاص اور قربانیوں کا یہ صلہ دیا گیا کہ میں نے پارٹی کی بہتری کے لیے جو بھی اقدام کیا، اسے کسی نہ کسی بہانے ختم کردیاگیا۔مثلاًسندھ میں مسلم لیگ(ن) کی تنظیم نو کرنے کی کوشش کی تو مجھے روک دیا گیا حالانکہ پارٹی آئین میں صوبائی صدورکو اپنے صوبے کے دیگر عہدیداروں کے انتخاب کا اختیار دیا گیا ہے۔

مگر مجھے ایسا نہیں کرنے دیا گیا، بلکہ من پسندافراد کو سندھ میں مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ جس کی وجہ سے سندھ میں مسلم لیگ(ن) کی ضلع اور تحصیل کی سطح پرتنظیم سازی نہیں ہوپائی۔شاہ صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو قومی سیاست سے زیادہ پنجاب کی سیاست میں دلچسپی ہے اور وہ خود کو پنجاب تک محدود رکھنے کے خواہشمند ہیں۔ان کا کہناتھاکہ مجید نظامی مرحوم جیسا شریف گھرانے کا ہمدرد بھی ان کی ان باتوں کو اچھا نہ سمجھتا تھا ۔

اس دوران کھانا لگ گیا۔ کھانے کے دوران بھی سوال وجواب کا سلسلہ جاری رہا۔ان سے پوچھا گیا کہ آیا جن مقاصد کے حصول کے لیے وہ چاروں(شاہ صاحب، ممتاز بھٹو، ارباب رحیم اور لیاقت جتوئی)میدان میں اترے ہیں، اس میں انھیں کس حد تک کامیابی کا یقین ہے؟دوسرے کیا انھیں پیرصاحب پگارا کی فنکشنل مسلم لیگ اور جنرل پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ سے تعاون کی توقع ہے؟ان کا کہنا تھا کہ وہ اول وآخر مسلم لیگی ہیںاور ان کی خواہش ہے کہ ملک میں ایک ہی مسلم لیگ ہو۔ مسلم لیگ ن کو وہ حقیقی مسلم لیگ نہیں سمجھتے۔ اس لیے انھیں توقع ہے کہ سردار ذوالفقار کھوسہ سمیت تمام ناراض مسلم لیگی ان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیر صاحب پگارا سے ان کے والد مرحوم کے دور سے خوشگوار تعلقات چلے آرہے ہیں،اس لیے ان سے اکثر وبیشتر ملاقاتیں رہتی ہیں۔البتہ پرویز مشرف سے ان کی چند ملاقاتیں مخدوم امین فہیم کی وساطت سے ہوئیں،جو خاصی امید افزاء رہی ہیں۔توقع ہے کہ پرویز مشرف اس وسیع تر اتحاد کا حصہ بن جائیں گے۔اس سوال پر کہ ان کا آیندہ لائحہ عمل کیا ہوگا ۔ان کا کہناتھا کہ وہ جلد ہی عوامی رابطہ مہم شروع کرنے والے ہیں۔ پورے ملک بالخصوص سندھ کو جلد ہی ایک فعال اور متحرک متبادل قیادت کی نوید سنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت اپنی نااہلی کے سبب سندھ کو شدید نقصان پہنچارہی ہے جس کے ازالے کے لیے سندھ دوست سیاسی قوتوں کو آگے بڑھنا ہوگا۔تین گھنٹے سے زیادہ دورانیہ پر محیط یہ ملاقات بالآخر اختتام پذیر ہوئی۔ واپسی پر ہم سوچ رہے تھے کہ موجودہ حالات وواقعات کی روشنی میں سندھ حکومت کا مستقبل ویسے ہی دگرگوں نظر آرہا ہے جب کہ مرکزی حکومت  نے بھی اسٹبلشمنٹ کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

یوں ملک پر عملاً اسٹبلشمنٹ کی حکمرانی قائم ہوچکی ہے۔ایسی صورت حال میںموجودہ حکومت کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔لہٰذا یہ دیکھنا ضروری ہوگیا ہے کہ سندھ کے چار سابق وزرائے اعلیٰ کا یہ ٹولہ عوام کو کس حد تک اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتاہے اورقومی سیاست میںکیا نئے گل کھلاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔