کیا صورت حال بدلے گی…؟

نجمہ عالم  جمعـء 22 مئ 2015
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

کراچی شہر میں امن و امان کی صورت حال عرصہ دراز سے ناگفتہ بہ ہے۔ سڑکوں، سرکاری و نجی اداروں، بازاروں اور تقریبات کے علاوہ ایئر پورٹ تک دہشت گردی سے براہ راست متاثر ہو چکے ہیں۔ اس دہشت گردی میں کون ملوث ہے اس بارے میں مختلف طبقوں اور اداروں کی مختلف آرا و نقطہ نظر ہیں۔ وجوہات و اسباب پر بھی مختلف نظریات گردش کرتے رہتے ہیں۔

لیکن مختصراً ان تمام تجزیوں اور نقطہ ہائے نظر کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو ایک بات سامنے آتی ہے کہ کراچی میں طالبان، القاعدہ (جن سے اغماض برت کر انھیں خوب پھیلنے پھولنے کا موقع دیا گیا) کئی غیر ملکی خفیہ ایجنسیز سرگرم عمل ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنے اپنے مفادات کے لیے سرگرم ہیں۔ مگر کسی آزاد و خود مختار ملک کے بھی کچھ ادارے اپنے ملک میں امن و امان برقرار رکھنے اور عوام کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے پر مامور ہوتے ہیں جن کے فرائض کی بجا آوری پر زرکثیر خرچ کیا جاتا ہے۔

ان کو فرائض منصبی ادا کرنے کے لیے ان کی ضروریات کے مطابق آلات و ہتھیار اور دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اگرچہ پورے ملک کے حالات اطمینان بخش حد تک پرسکون اور امن و امان کے لحاظ سے مثالی نہیں مگر کراچی جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے جو پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا حامل ہے۔ یہ شہر جو دنیا کی اہم بندرگاہ کے کنارے آباد ہے۔

جہاں روزگار کے بے شمار ذرایع ہیں۔ جس کی آبادی مہینوں نہیں ہفتوں نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے اس روز افزوں آبادی کے تناظر میں بد امنی کے اصل اسباب پر کسی نے کچھ توجہ دی؟ یا ان کے سدباب کے لیے کوئی ہنگامی منصوبہ تشکیل دیا گیا ؟ اور اگر کوئی منصوبہ (کاغذی حد تک) بنا بھی تو اس پر عمل کرنے کا کسی نے کوئی ارادہ کیا؟ ایسا نہ ہونے کی صورت میں یہ شہر لگ بھگ 25 برسوں سے بد امنی و بدانتظامی کا شکار ہے۔

متذکرہ 25 برسوں سے قبل یہ شہر ایک ثقافتی، ادبی اور علمی حیثیت رکھتا تھا۔ پاکستان بھر سے طلبہ یہاں تعلیم حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ یہاں کے تعلیمی اداروں میں دوسرے صوبوں کے لیے نشستیں مخصوص ہوتی  تھیں بلکہ اب بھی ہیں۔ مگر آہستہ آہستہ اس شہر کے تعلیمی اداروں کی رونقیں ماند پڑتی گئیں، معیار تعلیم پر سوالیہ نشان لگنے لگے اور آج صورت حال یہ ہے کہ کراچی کے طلبہ دوسرے صوبوں خصوصاً پنجاب کے تعلیمی اداروں میں داخلہ ٹیسٹ میں کامیابی کو بڑا اعزاز سمجھنے لگے ہیں۔

جامعہ کراچی، این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی، داؤد انجینئرنگ کالج، ڈاؤ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) اور سندھ میڈیکل کالج کا اپنا اپنا مقام اور نام تھا۔ عام تعلیمی اداروں (کالجوں حتیٰ کہ اسکولوں تک میں) میں بھی پرجوش و منظم ہفتہ طلبہ منائے جاتے تھے۔ مشاہیر و اکابرین کے دن بطور خاص منائے جاتے تھے۔ (بلا تفریق، علاقہ اور سیاسی نظریہ) کراچی کی ادبی محفلیں پورے پاکستان میں قدر کی نظر سے دیکھی جاتی تھیں۔

ان میں پیش کردہ ادبی مقالات، مضامین اور شعری کاوشوں پر پورے ملک میں تبصرے و تجزیے کیے جاتے تھے۔ دوسرے صوبوں کے ادبا، شعرا اور مفکرین ان میں بطور خاص مدعو کیے جاتے اور وہ ان میں شرکت کو باعث فخر سمجھتے تھے۔ پھر کیا ہوا اس شہر کو کسی کی نظر بد لگ گئی، امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا تو تمام محافل اجڑ گئیں۔

بہت تفصیل میں جائے بغیر مختصراً یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان گزشتہ چند دہائیوں میں کراچی وہ کراچی ہی نہ رہا بلکہ دنیا بھر میں دہشت گردی اس کی شناخت بن گئی۔ یہ صورت حال دور جدید کی تاریخ میں صرف کراچی ہی میں پیش نہیں آئی بلکہ دنیا کے کئی ممالک کو گزشتہ صدی کے نصف آخر میں بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑا مگر آج ان ممالک کی انتظامیہ یا حکمرانوں نے اس صورت حال پر قابو پا کر مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، وہاں جرائم کی شرح کم سے کم تر ہوتی گئی۔ ایک زمانے میں نیو یارک میں سونا پہن کر نکلنا بے حد مشکل تھا۔ پاکستانی خاندان جو کافی عرصہ قبل امریکا ہجرت کر گئے تھے وہ بتاتے ہیں کہ ان کی خواتین سونے کی چین یا انگوٹھیاں پہن کر نکلتی تھیں تو عموماً ان سے یہ سونا زبردستی چھین لیا جاتا تھا۔

حتیٰ کہ گھر میں بھی زیورات ڈسٹ بن میں دو گاربیج بیگ لگاکر ان کے درمیان رکھا جاتا تھا اوپر والے بیگ میں کچرا ڈالا جاتا تھا جو گاڑی آنے پر بڑی احتیاط کے ساتھ ان کے حوالے کیا جاتا، ٹوکیو، ممبئی اور جرمنی میں بھی ایک زمانے میں یہ جرائم عروج پر تھے بلکہ ممبئی میں تو گزشتہ دہائی تک صورت حال خاصی مخدوش تھی۔

مگر ان تمام شہروں اور ممالک میں پولیس نے اپنی حکمت عملی سے جرائم پر بڑی حد تک بعض جگہ مکمل طور پر قابو پا لیا ہے۔ اس ساری صورت حال سے یہ نتائج حاصل ہوتے ہیں کہ بد امنی، جرائم کے اسباب اور وجوہات کی درست سمت کا تعین کرنا اور پھر ان کے سدباب کا نیک نیتی اور خلوص سے تدارک کرنا ہی در اصل قانون نافذ کرنے پر مامور اداروں کا کام ہے۔ پاکستان بالخصوص کراچی وہ بد نصیب شہر ہے کہ جہاں امن تباہ کرنے کے منصوبے تو بہر حال کامیاب ہو جاتے ہیں مگر امن بحال کرنے والوں کے منصوبے کسی نہ کسی مصلحت کا شکار۔ یہ کیوں ہوتا؟ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے مگر نہیں واقف تو ہمارے ذمے داران۔ کیوں کہ جس ملک یا شہر میں تمام خرابیوں کی جڑ کو چھوڑ کر صرف پتے جھاڑنے پر توجہ دی جاتی ہو اور ہر برائی کے ڈانڈے سدباب کرنے والوں سے جا کر ملتے ہوں، جہاں نیت ہی نہ ہو کہ حالات کو درست کرنا ہے ۔

جہاں بے عملی کا رجحان قابل فخر حد تک ہو وہاں کوئی صورت اصلاح کی بن سکتی ہے؟ جہاں قانون نافذ کرنے والے انتظامی بد حالی کی نشاندہی کریں اور بحیثیت و با رسوخ کسی بھی چھڑی سے بے خوف ہونے کا اعلان کریں جہاں ماضی قریب میں حکومت کا حصہ رہنے والے سر عام دھمکیاں اور قتل کا حکم صادر فرمائیں تو گرفتاری کے بجائے ضمانت میں توسیع کی جائے اور جہاں بے گناہ راہ چلتے اگر ہتھے چڑھ جائیں تو ریمانڈ کی مقررہ مدت میں عدالت میں پیش تک نہ ہو سکیں اور کئی کئی ماہ محافظین کے تشدد کا نشانہ بنتے رہیں۔

جہاں عدالتوں میں بروقت چالان اور ثبوت پیش نہ ہو سکیں اور ان سب کے پیچھے کسی نہ کسی بڑی ہستی کا دس شفقت ہو، جہاں اشتہاری ملزم با آسانی ملک سے فرار ہو کر بالآخر لاپتہ ہو جائیں، ان کی روپوشی اور غائب ہونے میں مالی معاونت کے واضح اور ٹھوس ثبوت ہوتے ہوئے اس سہولت کاری میں ملوث با اثر افراد پر ہاتھ ڈالنا تو دور ان کی کھلم کھلا نشاندہی تک سے گریز کیا جائے تو وہاں آئے دن عوام کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہے گی۔

امن کے قیام کے ذمے دار صرف اپنے ناپسندیدہ افراد پر الزامات عائد کرنے کی حد تک کارکردگی دکھاتے رہیں گے یہ الزامات چاہے کسی سیاست دان پر ہوں، تاجروں پر، غیر ملکی ایجنسیوں پر یا حکومت و انتظامیہ کی ناقص کارکردگی پر، اگر ان میں سے کسی کے بھی بارے میں ٹھوس ثبوت ہیں تو پھر منظم طور پر ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کیوں کیا جاتا ہے؟ اس میں بھی کوئی ہاتھ ملوث ہے؟ شہریوں کا ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے محض جنازے اٹھانا ہی کام رہ گیا ہے، سانحہ صفورا چوک ہو یا اور کوئی سانحہ لگتا ہے کہ تمام سانحات نے اس شہر ناپرسان کو تاک لیا ہے ۔ لہٰذا سادہ و آسان نسخہ ’’صبر‘‘ اور مکافات عمل کا انتظار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔