نوجوان نسل کا المیہ

شہلا اعجاز  پير 1 جون 2015
shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس ملک کی نوجوان نسل پر ہوتا ہے کیونکہ یہ جوان خون کسی بھی ادارے کی اہم ضرورت ہوتا ہے، مستقبل میں اہم عہدوں پر فائز ہوکر اسی نسل کو ستون کی مانند مضبوط تیار کرنا ایک اصول ہے، تجربہ اور قابلیت کی دھار انھیں دوسرے سے ممتاز کرتی ہے یہ سب کچھ ایک دھارے کی صورت میں بہتا جاتا ہے، ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔

ہمارے ملک کے سیاسی ادارے اس اہمیت سے بخوبی واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ جذباتی اور پرجوش طبقہ ان کے لیے کس قدر اہم ہے، جسے کسی بھی ٹریک پر ڈال کر اپنی سیاسی کارروائیوں کو مضبوط اور بالاتر بنایا جاسکتا ہے۔ تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں نوجوان نسل ہمیشہ ملکی تحریکوں میں اپنا اہم کردار ادا کرٗتی رہی ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک کے حالات اس قدر پیچیدہ اور دشوار ہوتے گئے ہیں کہ نوجوان نسل نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے ملک سے باہر رخ کرنا شروع کردیا ہے، پہلے یہ محض زیادہ کمائی کرنے کے زمرے میں آتا تھا لیکن اس دور میں یہ ملک کے پیچیدہ اور دشوار حالات کے باعث پیدا ہوا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ہی کسی پاکستانی نیوز چینل سے پاکستانی طالبات کی کہانی برطانیہ میں جو دکھائی گئی تھی اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو رو پڑا تھا، ہماری مشرق کی بیٹیاں کس قدر برے حالات میں پڑھائی کی خاطر عزت سے بے عزتی کی جانب بڑھ جاتی ہیں لیکن ہم آنکھیں چراتے رہتے ہیں، حال ہی میں ایگزیکٹ جیسے ادارے نے پاکستانی تعلیمی ساکھ کی جو مٹی پلید کی ہے اس پر اب اور کیا تبصرہ کریں کہ بے قدری میں بتدریج اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے، ہمارے نوجوان ان تمام نام نہاد اداروں اور باہر جانے والی ایجنسیوں کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں۔ پاکستان میں رہ کر بھاری رقوم دے کر بڑی ڈگریاں حاصل کرنا بھی اب زہر خند ہوچکا ہے اور باہر جاکر زہر پینا بھی اب ایک روش سی بن گئی ہے، اس کا جواب ڈھونڈنے میں شاید بہت سے اندھیرے ٹٹولنے پڑیں۔

’’میں پچھلے دنوں بہت مصروف تھا۔ گھر میں اتنے مسائل تھے، سب سے بڑا مسئلہ پانی کا تھا۔ گھر میں ٹینکر کا پانی آتا ہے کیونکہ واٹربورڈ کے پانی پر تو خدا جانے کیسا قہر نازل ہوا ہے۔ ٹینکر کا پانی پینے کے لیے استعمال نہیں کرسکتے تو پینے کے پانی کے لیے بھی پیسے دے کر خریدو اور لمبی قطار میں لگو۔ بجلی کا حال نہ پوچھو، جاتی زیادہ ہے آتی کم ہے۔ پر پانی اور بجلی کے بل ضرور آتے ہیں اور بجلی کے بل کا تو پوچھو ہی نہ۔ گھر کا کرایہ ادا کروں یا بجلی کا بل۔ باہر کے الگ مسائل۔ خوف سا لگا رہتا ہے اب کوئی دھرنا، جلسہ جلوس یا فائرنگ تو نہیں۔

میں اتنا الجھ گیا ہوں کہ بس میں نے باہر جانے کا فیصلہ کر لیا، بس ان ہی چکروں میں لگا تھا۔ بچی اب اسکول جانے لگی ہے، اس کی فیس الگ۔ وائف بھی اب جاب ڈھونڈ رہی ہے، دعا کرو مل جائے۔ بچی کی کتابوں اور کاپیوں کے لمبے چوڑے اخراجات۔ میں الجھ جاتا ہوں، کیا کروں۔ ڈیڑھ لاکھ خرچ کرچکا ہوں، ایک ایجنسی سے بات چل رہی ہے، ڈیڑھ لاکھ کی ابھی ادائیگی کرنا ہے۔ امید ہے کام بن جائے، دعا کرنا۔‘‘

یہ گفتگو ہمارے ایک عزیز کی تھی جو ایک بڑے نامی گرامی اسپتال میں اچھے بھلے عہدے پر فائز ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہی ان کے بہنوئی اپنی فیملی سمیت کینیڈا شفٹ ہوئے تھے، وہ بھی ایک بڑے اسپتال میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، اپنا ذاتی گھر، معقول تنخواہ، اپنی گاڑی تھی لیکن باہر جانے کا شوق چڑھ آیا، سب کچھ بیچ کر کینیڈا چلے گئے، وہاں چھ مہینے تک ایک اسپتال میں اعزازی طور پر کام کیا لیکن وہاں پھر بھی نوکری کی صورتحال نہ بنی، گوروں کو ایک پاکستانی منتظم نہ بھایا۔ گھبرا کر پاکستان آنے کی سوچنے لگے، ساٹھ ستر لاکھ ساتھ لائے تھے، گھر کا کرایہ بچوں کے اسکول کے اخراجات اور کھانا پینا۔ سب جمع پونجی پار لگ رہی تھی، بیوی وہیں ٹکنے پر بضد تھی کہ یہاں آکر رشتے داروں کے سامنے سبکی ہوتی، ایسے میں ان کے ایک جاننے والے مل گئے، انھوں نے انھیں ٹرالر چلانے کا مشورہ دیا۔

وہ صاحب تو ہتھے سے اکھڑ گئے، ایک باوقار جاب کرنے والا اب کینیڈا میں ٹرالر چلائے گا، وہ یہاں ڈرائیور بننے تو نہ آئے تھے، تب ان ہی صاحب نے سمجھایا کہ کینیڈا میں پہلا ٹرالر ایک پاکستانی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے چلایا تھا، دوسرا ایک موبائل فون سروس کے ریجنل ڈائریکٹر نے جو ہمارے ایک قدآور سیاسی رہنما کے پڑوسی بھی تھے اور پاکستان سے بھاگ کر آئے تھے، صرف یہی نہیں کراچی کا ایک بڑا سرجن بھی ٹرالر چلاتا ہے، بے چارے کو بھتے کی اتنی پرچیاں ملیں کہ اس نے کچھ سوچے سمجھے بنا ہی کینیڈا دوڑ لگادی تھی۔

کینیڈا سے امریکا تک ٹرالر چلتے ہیں جنھیں ویزے کی سہولت بھی باآسانی میسر ہوجاتی ہے، یہ بڑے بڑے لوگ بڑی بڑی ڈگریاں لیے سنہرے خواب آنکھوں میں سجائے اپنی زندگی کے سفر کی شروعات کرتے ہیں اور اپنے ہی ارمانوں کے خون سے لہولہان ہوجاتے ہیں، اپنی قابلیت، تجربہ، ڈگریاں ٹرالر کے بڑے بڑے پہیوں تلے روند دی جاتی ہیں، اس کے عوض انھیں چار سے پانچ ہزار امریکی ڈالر ہفتے کے مل جاتے ہیں، پھر محنت سے کیا شرمانا۔ ویسے یہ قول ہم پاکستانیوں کو ملک سے باہر جاکر یاد آتا ہے۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہمارے جو عزیز اپنے بہنوئی کی تقلید میں کینیڈا جانے کا سوچ رہے ہیں انھیں اپنے ملک میں صرف دو پہیوں کی سواری کا تجربہ ہے لیکن جوش اور جذبے اتنے بلند کہ قوی ہیکل، طویل ٹرالر چلانے کا عزم رکھتے ہیں، صرف وہی نہیں ان کے ایک دوست بھی ان کے ساتھ اسی مشق میں لگے ہیں۔

یہ تصویر کا ایک ایسا کریہہ رخ ہے کہ جسے دیکھنا ہم پسند نہیں کرتے، ہمارا پڑھا لکھا نوجوان اپنے ملکی مسائل، مہنگائی، دہشت گردی، بجلی پانی جیسے مسائل سے دل برداشتہ ہوکر باہر جاکر ڈرائیور بننا، پٹرول پمپوں پر صفائی کرنا، گاڑیوں کے شیشے صاف کرنا، یخ بستہ موسم میں گھروں کے آگے سے برف ہٹانے تک کا کام کرنے پر راضی ہے، جب کہ خواتین کا رخ اس سے کہیں بدتر ہے۔ آخر ہم اپنے قابل، اہل اور تجربہ کار، انجینئرز، ڈاکٹرز، سرجنز، معلم، منتظم اور اسی طرح کے مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والوں کو کب تک کھوتے رہیں گے۔ کیا انھیں وہ عزت، جانی و مالی تحفظ کبھی نصیب ہوگا جس کی تلاش میں وہ باہر کے ملکوں کا رخ کر رہے ہیں؟ ہم بھول رہے ہیں کہ یہ نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں۔ اثاثہ بیچنے والے ترقی نہیں کرتے بلکہ ترقی کرنے والوں کو ٹکر ٹکر تکتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔