اقتدار کے ایوان سے نکلنے کے بعد کہاں ہیں اب؟

ابن اظہر  جمعـء 3 جولائی 2015
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہرعروج کو زوال ہے اور اس کی مثال اُن لوگوں کو دیکھ کر مل سکتی ہے جو ماضی بعید میں اقتدار کے ایوانوں میں براجمان تھے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہرعروج کو زوال ہے اور اس کی مثال اُن لوگوں کو دیکھ کر مل سکتی ہے جو ماضی بعید میں اقتدار کے ایوانوں میں براجمان تھے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہرعروج کو زوال ہے۔ دورِ حاضر میں اس کی مثال اُن لوگوں کو دیکھ کر مل سکتی ہے جو ماضی بعید میں اقتدار کے ایوانوں میں براجمان تھے، لیکن پھر اُن کے جانے کا وقت آیا اور اب اُن کے بارے میں جاننے کے لئے خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ ذیل میں ایسے ہی کچھ معروف ناموں کا ذکر ہے کہ وہ اب کہاں ہیں، کیسے ہیں اور کیا کررہے ہیں۔

محمود احمدی نژاد – سابق ایرانی صدر

ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اقوام متحدہ اور دیگر جگہوں پر پوری گھن گرج کے ساتھ اسرائیل اور یہودیوں پر برستے نظر آتے تھے۔ آٹھ سال تک اقتدار کے ایوان میں رہنے کے بعد محمود احمدی نژاد کو 2013 کے انتخابات میں شکست ہوئی جس کے بعد اُن کے لیے اقتدار کے دروازے بند ہوگئے۔ احمدی نژاد چونکہ سول انجینیرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں اور سیاست میں آنے سے پہلے بھی تدریس سے ہی وابستہ تھے لہذا مدت صدارت ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔ اب وہ روزانہ گھر سے دفتر بس پر عام اساتذہ کی طرح یونیورسٹی جاتے ہیں اور اپنی زندگی سے خاصے مطمئن نظر آتے ہیں۔

شوکت عزیز – سابق وزیراعظم پاکستان

پاکستان کے پندرہویں وزیراعظم جناب شوکت عزیز 2004 سے 2007 تک ملک کے سیاہ اور سفید کے مالک رہے۔ تاہم جب انہوں نے 8 سال قبل وزیراعظم ہاؤس کو خیرآباد کہا تو پھر ملک ایسا چھوڑا کہ گویا عطارد کا چاند ہوگئے، یعنی کے جیسے کبھی تھے ہی نہیں! اب موصوف بیشتر لندن میں پائے جاتے ہیں اور نیویارک، ملایشیا اورعرب ممالک میں کئی بین الاقوامی مالی اداروں کو بھاری فیس کے عوض مشاورت فراہم کرتے ہیں۔

 جارج بش – سابق امریکی صدر

اس صدی کے پہلے 8 سال اس لحاظ سے خوب تھے کہ امریکی صدر جناب جارج بش صاحب کو دیکھ کرلبوں پر خام خواہ مسکراہٹ آجاتی تھی۔ کئی حوالوں سے متنازع بش صدارتی مدت ختم ہونے کے بعد زندگی سے خوب لطف اندوز ہورہے ہیں۔ کبھی تو وہ گھر کے لئے خوشی خوشی سودا سلف لاتے ہیں اور کبھی گالف کھیلتے ہیں یا سو کلومیٹر لمبی سائیکل سواری کرتے ہیں۔ اسی اثنا میں وہ اپنے عہدِ صدارت پر ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں تاہم سب سے دلچسپ  مشغلہ جو وہ اپنائے ہوئے ہیں وہ مصوری ہے۔ اپنے زمانے میں جنگجو صدر کی حیثیت سے پہچانے جانے والے جارج بش اب گھوڑوں اور کتوں کی تصویریں خوب بناتے ہیں۔

ٹونی بلیئر – سابق برطانوی وزیراعظم

لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے ٹونی بلیئر جو 10 سال تک برطانیہ کے وزیر اعظم رہے، اُن کو دیکھ کر اب یوں لگتا ہے کہ شائد اب وہ پہلے سے زیادہ مصروف ہوگئے ہیں۔ اُنہوں نے مختلف تنظیمیں اور سماجی مسائل کے حل کے لئے بہت سے کام شروع کر رکھے ہیں۔ اُن اداروں میں ٹونی بلیئراسپورٹس فاؤنڈیشن، ٹونی بلیئر فیتھ فاؤنڈیشن اور افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کام وغیرہ شامل ہیں.

من موہن سنگھ – سابق بھارتی وزیراعظم

10 سال تک 7 ریس کورس روڈ، دہلی میں بطور بھارتی وزیر اعظم رہائش پذیر رہنے کے بعد جناب من موہن سنگھ نے انتخابات میں شکست کے بعد نریندر مودی کے لئے جگہ خالی کردی۔ تاہم اب وہ نئی دہلی میں واقع ایک عالی شان بنگلے میں منتقل ہوچکے ہیں۔ چالیس سے زیادہ گھنے درختوں میں گھرا ہوا یہ بنگلہ یقیناً سابق بھارتی وزیراعظم کے شایان شان ہے، تاہم انہی درختوں میں سینکڑوں چمگادڑوں کی موجودگی کچھ زیادہ حوصلہ افزا بات معلوم نہیں ہوتی۔ من موہن سنگھ عمر کے جس حصے میں ہیں وہ آرام کا متقاضی ہے اور اُمید ہے جہلم کے قریب گاؤں گاہ میں پیدا ہونے والے من موہن سنگھ یقیناً اپنی ریٹائرمنٹ سے لطف اندوز ہورہے ہونگے۔

حامد کرزئی – سابق صدر افغانستان

یوں تو کرزئی صاحب 10 سال تک افغانستان کے صدر رہے اور موصوف نے اپنی ابتدائی زندگی کا اچھا خاصا حصہ کوئٹہ میں گزارا لیکن پاکستان کے حوالے سے انہوں نے زیادہ تر تنگ دلی کا ہی مظاہرہ کیا۔ پوپلزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے حامد کرزئی نے ماسٹرز کی ڈگری ہندوستان سے حاصل کی اور پھر شاید نظریاتی طور پر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ پچھلے سال ستمبر میں یکے بعد دیگرے دو صدارتی مدتیں پوری کرنے کے بعد حامد کرزئی کبھی کبھار کسی انٹرویو میں افغانستان کے مسائل کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور ماضی میں اُن کی کارکردگی دیکھنے کے بعد ظاہر ہے کوئی بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا۔

نکولس سرکوزی – سابق صدر فرانس

سن 2007 سے 2012 تک فرانس کے صدر رہنے والے نیکولس سرکوزی خوش شکل، خوش لباس ہونے کے ساتھ ساتھ رومانوی طبیعت کے مالک بھی تھے۔ موصوف نے مدت صدارت کے دوسرے سال ہی سابق دوست اور خوبرو ماڈل کارلا برونی سے شادی کرکے خوب شہرت پائی۔ گوکہ وہ دوبارہ صدر منتخب نہ ہوسکے تاہم انہوں نے سیاست بڑی کامیابی سے جاری رکھی اور 2014 میں اپنی پارٹی کے دوبارہ صدر منتخب  ہوئے اور مارچ دو ہزار پندرہ میں ان کی پارٹی نے مقامی  انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ اب اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ مستقبل میں دوبارہ صدارت کے لئے خود کو پیش کردیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔