پاکستان اور پانی کا ماضی حال اور مستقبل

پانی جیسے قیمتی ذرائع کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی پالیسی بنائی یا نہیں؟ اگر ہاں تو کیا؟ اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟

پانی محفوظ کرنے روائتی طریقہ ہائے استعمال کرنے کے بجائے بہتر اور ترقی یافتہ طریقوں کو رواج دینا ضروری ہے۔ فوٹو: فائل

NEW DEHLI:
یوں تو یہ کرہ ارض تقریباََ دو تہائی کے قریب پانی پر مشتمل ہے لیکن بد قسمتی سے اس میں سے قابل استعمال پانی کی مقدار دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔ ایک عالمی اندازے کے مطابق تقریباََ 40 فیصد آبادی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں پانی کی کمی کی شدت انتہائی کو پہنچ چکی ہے۔

معاملہ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بہت سے ممالک اور علاقے اسی صورتحال سے دوچار ہیں اور بدقسمتی سے ان ممالک کی فہرست میں پاکستان کے بہت سے علاقے بھی شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت پاکستان میں فی کس 5000 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا لیکن آبادی میں مسلسل اضافے کے بعد پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہونا شروع ہوگئی ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 900 مکعب میٹر پانی کے قریب پہنچ گئی ہے۔ یہ اعشاریے ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جن کو نیم واٹر شارٹ ممالک کہتے ہیں۔

یہ صورتحال آج اچانک سے نمودار ہوکر سامنے نہیں آئی ہے، بلکہ یہ سلسلہ پچھلے 67 سالوں سے جاری ہے اور ہمارے حکمرانوں اور پالیسی ساز اداروں کی کارکردگی پر کھلا سوال ہے کہ انہوں نے پانی جیسے قیمتی ذرائع کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی پالیسی بنائی یا نہیں؟ اگر بنائی تو وہ کیا تھی اور اگر نہیں بنائی تو کیوں نہیں؟

وادی سندھ کی دھرتی میں جہاں دریائے سندھ کے ساتھ چھ بڑے دریا بہتے ہوں اور جس ملک کے ایک بڑے صوبے کا نام انہیں پانچ دریاؤں کی سر زمین پنج آب یعنی پانچ در یاؤں کی سر زمین پر مشتمل ہو اگر اس خطے کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو سمجھ لیجئے کہ اس میں قدرت سے زیاد ہ دوش اپنے ہی حکمرانوں پر عائد ہوتا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے کبھی سنجیدگی سے سوچنا گوارہ تک نہیں کیا۔

دنیا کی تقریباََ دو تہائی آبادی ایسے علاقوں یا ممالک میں رہتی ہے جن کو پانی کی باہمی تقسیم کے لیے ''Trans Boundary'' ٹرانس باؤنڈری معاہدوں کے عمل میں سے گزرنا پڑا۔ برصغیر پاک و ہند کی غیر فطری جغرافیائی تقسیم نے بھی ہمارے سامنے جو سب سے پہلا سوال کھڑا کیا وہ وادی سندھ کے دریائی نظام کے آبی وسائل کی تقسیم کا تھا۔ چنانچہ ایک پیچیدہ اور تناؤ کے ماحول میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جنرل ایوب خان کی سربراہی میں ورلڈ بینک کے تعاون سے سندھ طاس معاہدہ کی صورت میں آبی وسائل کی تقسیم کا فارمولا طے کیا گیا۔ جس کے مطابق تین مشرقی دریاؤں (ستلج، راوی اور بیاس) پانی کے حقوق بھارت کو سونپ دئیے گئے اور تین مغربی دریاؤں (جہلم، چناب اور سندھ) کے پانی کے حقوق پاکستان کے حصے میں آئے۔ اس معاہدہ کے طے پاجانے کے بعد تین مشرقی دریاؤں کے پانی سے سیراب ہونے والے علاقے شدید مشکل میں پھنس گئے۔ چنانچہ عالمی بینک اور دوسرے اداروں کے تعاون سے ستلج ریور ویلی کے زرعی بندوبست اور آبی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مغربی دریاؤں سے پانی مشرقی دریاؤں میں لنک کینال کے ذریعے ڈالا گیا اور اس علاقے کی سماجی، معاشی، زرعی اور دیگر ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر یہ عارضی بندوبست کم پڑتا دکھائی دینے لگا اور بیش قیمت آبی وسیلوں کے ضیاع کا سبب بن رہا ہے۔ چنانچہ اس علاقے میں زرعی آبی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کسانوں نے ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیر زمین پانی کو نکال کر استعمال کرنا شروع کردیا۔ زیر زمین پانی کا بنیادی ماخذ تو یہی بہتے ہوئے دریا اور سطح زمین پر برسنے والی بارشیں ہی ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہتے دریاؤں میں پانی کی کمی اور زیر زمین پانی کے اخراج میں عدم توازن کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے۔



آج دنیا میں 1.4 بلین لوگ ان علاقوں میں رہتے ہیں جہاں لوگ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے زیر زمین پانی کو نکال رہے ہیں اور زیر زمین نکالے جانیوالے پانی کی مقدار کم از کم ریچارج کی مقدار سے بہت زیادہ ہے۔ سندھ طاس معاہدہ میں جو سب سے بڑا سقم پایا جاتا ہے وہ ہے اس کا پانی کی تقسیم کے وقت ماحولیاتی پہلوؤں سے روگردانی کرنا۔ کیونکہ اس معاہدہ کے طے پاتے وقت سہہ فریقی مذاکرات میں سے کسی بھی فریق نے اس پہلو پر بات نہیں کی اور آج صورتحال یہ ہے کہ ان دریاؤں (ستلج اور راوی) کے نچلے حصے کی آبی زندگی اور ایکالوجی (Ecology) شدید خطرے میں ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی معاہدوں اور کنونشن کی روح کے مطابق (Upper Riprian) انڈیا کو پابند کیا جائے کہ وہ ان دریاؤں میں قدرتی ماحول اور حیوانی زندگی کوبحال رکھنے کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار چھوڑے اور پاکستان کی حکومت کو اس حوالے سے پابند کیا جائے کہ اس پانی کو زرعی یا دوسرے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ دریائے ستلج سندھ وادی میں، دریائے سندھ کے بعد دوسرا بڑا دریا تھا جس کا سالانہ ڈسچارج 50 MAF کے قریب تھا۔ 1961ء میں دریائے ستلج کے رم سٹیشن ہیڈ سلیمانکی پر ڈسچارج کی سالانہ اوسط مقدار 30 ہزارکیوسک تھی جو کہ اب کم ہوکر تقریباً 2 ہزار کیوسک کے قریب رہ گئی ہے۔ اسی طرح دریائے راوی میں بھی پانی کی مقدار ہیڈبلوکی کے مقام پر 14 ہزار کیوسک سے کم ہو کر 4، 3 ہزار کیوسک رہ گئی ہے۔ دریائے ستلج اور راوی کے علاقوں میں جہاں زمینی پانی کی سطح خطرناک حد سے نیچ چلی گئی ہے وہاں پانی کی زمینی سطح کو مصنوعی طریقوں سے ریچارج کرکے اوپر لانے کی ضرورت ہے۔ اپنے آبی وسائل کی دستیابی اور اسٹورییج کو بڑھانا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کی فی آدمی اسٹوریج اہلیت دنیا میں انتہائی کم، نیم اور گرم مرطوب ممالک کی فہرست میں صرف ایتھوپیا سے اوپر ہے۔ پاکستان کی فی کس (Percapita) اسٹوریج 150 مکعب میٹر ہے جبکہ امریکہ، انڈیا اور چائنا کی (Percapita) اسٹوریج بالترتیب 6000، 2200 اور 220 مکعب میٹر ہے۔

کالونیل دور میں جب بندوبست اراضی کرتے ہوئے انگریز حکمرانوں نے اس علاقے میں نہری نظام تشکیل دیا تو اس نے وافر مقدار میں دستیاب پانی کو بے دریغ طریقے سے تقسیم کیا اور دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام اس خطے میں ترتیب دیا۔ بد قسمتی سے انگریز کے وقت کا تشکیل کردہ نہری نظام ہی آج اپنی خستہ حالی میں چل رہا ہے جس کے اندر جدت لانا اورا س کو بدلتے ہوئے تقاضوں اور مستقبل کی آبی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہم نے کچھ


اس نہری نظام کی تشکیل نو کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر لانا وقت کی اولین ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسان کو یہ آگاہی دینا بھی ضروری ہے کہ اگر ہم اپنے فرسودہ اور پرانے آبپاشی کے طریقوں کو نہیں بدلیں گے اور پانی کی بچت پر مبنی آبپاشی اسکیموں پر اپنے زرعی بندوبست کو منتقل نہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ ہماری آنیوالی نسلیں پانی کی بوند بوند کو ترسیں۔ پانی کے ضیاع پر مبنی آبپاشی کے طریقے بدل کر جدید آبپاشی کے طریقوں کو اپنانے میں ہی ہماری آنیوالی نسلوں کا مستقبل محفوظ ہوسکتا ہے۔

اپنے آبی وسائل کی دستیابی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت وقت اور پالیسی سازوں کو آبپاشی نظام کے طریقہ تقسیم و ترسیل اور فراہمی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ایک ہمہ جہت اور پائیدار استعمال پر مبنی واٹر پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے کسانوں کو جدید آبپاشی کے طریقوں سے ہم آہنگ کروانا اور کسانوں کو مالی و تکنیکی مدد کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ دار ی ہونا چاہیے ۔

پانی کی بچت اور تحفظ آب کے لیے کام کر نے والے سرکاری و غیر سرکاری اداروں پر یہ ذ مہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کاشتکاروں کی مالی اور تکنیکی مدد کے لیے اپنے وسائل کو بروئے کار لائیں۔ پاکستان میں زراعت کا شعبہ سب سے زیادہ پانی کو استعمال کرنے والا شعبہ ہے۔ زرعی آبپاشی کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے لاکھوں کلومیٹر پر مشتمل نہروں اور کھالوں کا جھال بچھایا گیا ہے۔یوں تو ہمارے ہاں دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نہری نظام موجود ہے لیکن یہ بات انتہائی قابلِ افسوس ہے کہ اس نظام کی استعداد کار انتہائی کم اور ہمارے آبی وسائل کا تقریباََ 70 فیصد چھوٹی بڑی نہروں، کھالوں اور کھیتوں میں دوران آبپاشی ضائع ہوجاتا ہے۔

اس وقت ہمارے نہری پانی کے وسائل تقریباََ 104 ملین ایکڑ فٹ ہیں اور مذکورہ شرح کے حساب سے ہم 83 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کر دیتے ہیں۔ کم و بیش ایسی ہی صورتِ حال زیرِ زمین سے حاصل کئے ہوئے پانی کی ہے۔ مذکورہ اعداد و شمارسے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر ہم ضائع ہونے والے آبی وسائل کا صرف 50 فیصد بھی بچائیں تو ہم موجودہ آبی ذخائر سے کئی گنا پانی محفوظ کرسکتے ہیں اور اسے بہتر استعمال میں لاسکتے ہیں۔ اس لئے یہ اس وقت کی اہم ضرورت ہے کہ متوقع آبی بحران سے نپٹنے کے لئے بروقت اقدامات اور منصوبہ بندی کی جائے۔ اس مقصد کے لئے پانی کے روائتی طریقہ ہائے استعمال کے بجائے بہتر اور ترقی یافتہ طریقوں کو رواج دینا ضروری ہے۔

خشک اور نیم خشک خطہ میں واقع ہونے کی وجہ سے بارشی پانی پاکستان کی زرعی ضروریات کیلئے ناکافی ہے اور زراعت کا انحصار نہری وزیر زمین پانی پر ہے۔

آبپاشی میں استعمال ہونے والے پانی کے ضیاع کی مقدار عموماََ 65 سے 70 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ فصلوں کی فی کلو گرام پیداوار میں استعمال ہونے والے پانی کی مقدار بھی عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔ آبپاشی میں استعمال ہونے والے پانی کی بیشتر مقدار زمین کے رساو، کناروں سے بہاو، کھالوں کی ٹوٹی دیواروں، کھالوں کی بندش، گھاس پھوس اور چوہوں کے سوراخوں کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے۔

بچاو کی تجاویز

  • کھالوں کی مناسب دیکھ بھال

  • بھل صفائی

  • کھالوں کی پختگی

  • دوران آبپاشی پانی کا عموماََ %40 سے %30 تک نقصان کھیت کے غیر موزوں سائز، غیر موزوں ہمواری یا نا مناسب طریقہ آبپاشی کی وجہ سے ہوتا۔


  • زمین کی قسم اور پانی کی مقدارکے مطابق کھیت کا سائز رکھنا

  • کھالیوں میں آبپاشی کرنا

  • بذریعہ لیزر لیولنگ زمین کو ہموار کرنا

  • اعلیٰ استعداد کے طریقہ آبپاشی اپنانا۔


فوارہ آبپاشی نظام

اس طریقہ آبپاشی سے پانی کی استعداد کار بہت زیادہ ہوتی ہے اس سے 4 یا 3 گھنٹہ میں ایک انچ آبپاشی ہوسکتی ہے۔

فوارہ آبپاشی کے فوائد

  • ہمواری زمین کی ضرورت نہیں رہتی

  • بارانی علاقوں میں بارش کے پانی کو مختلف طریقوں سے محفوظ کر کے فصلوں کے زیر استعمال لایا جا سکتا ہے اور یوں پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔


اس مقصد کیلئے درج ذیل طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔

  • مناسب وٹ بندی کرنا۔

  • گہرا ہل چلانا

  • کھالیاں اور نالیاں بنانا

  • بارشی پانی کو اکٹھا کرکے اسٹور کرنا۔


ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ فصلوں میں پانی کی زیادہ مقدار استعمال کرنے سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن ایک خاص مقدار سے زیادہ پانی کا استعمال نقصان کا بھی سبب بنتا ہے جوکہ مندرجہ ذیل ہیں

  • کھاد اور غذائی اجزاء پودوں کی جڑوں سے نیچے چلے جاتے ہیں۔

  • سیم اور تھور کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

  • زمین کے اندر آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے۔

  • پانی ضائع ہوتا ہے اور مجموعی آمدنی کم ہو جاتی ہے۔


پانی کے عمومی ضیاع کا تدارک

  • چکنی مٹی اور پولی تھین شیٹ کے استعمال سے کھالوں میں پانی کا زمینی رساو روکا جاسکتا ہے۔

  • آب بُخارات سے ضائع ہونے والے پانی کو سوکھی گھاس وغیرہ اور اسٹیریو فوم شیٹ سے روکا جاسکتا ہے۔

  • جڑی بوٹی کے کنٹرول اور وتر دابنے سے بھی پانی کی بچت ہوتی ہے۔


[poll id="536"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story