گھر مزدور خواتین

مہ ناز رحمن  جمعرات 9 جولائی 2015

ہم جس معاشی نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، اس میں مٹھی بھر لوگ اپنے ذاتی منافعے میں اضافے کی خاطر ہماری سماجی زندگی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پرانے زمانے میں سامراجی طاقتوں نے تیسری دنیا کے ممالک کو اپنی نوآبادیاں بنا کے ہمارے قدرتی اور انسانی وسائل کو لوٹا لیکن ماضی قریب میں خاص طور پر ریگن اور تھیچر کے دور سے جو اقتصادی اور سیاسی رجحان دنیا کی حکومتوں پر غالب رہا، اس کا نام نیولبرل ازم ہے۔

واضح رہے کہ نیولبرل ازم اقتصادیات اور سوشل اسٹڈیز کے اس نقطہ نظر کو کہتے ہیں جس میں اقتصادی عوامل کا کنٹرول سرکاری شعبے سے نجی شعبے کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔ دیگر محنت کش طبقات کی طرح عورتیں بھی عالمی سرمایہ داری اور اس کے نئے مرحلے کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں۔ عورتوں کو ایک ایسی بہتر دنیا کی تلاش ہے جہاں ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو ہمیں ایک قدم آگے بڑھ کر عورتوں کے تجربات کی روشنی میں نیولبرل ازم کو دیکھنا ہو گا۔

محنت کشوں خاص طور پر عورتوں کے حوالے سے اگر ہم کراچی کی صنعتی تاریخ کا جائزہ لیں تو کراچی میں ہمیں خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد شروع سے صنعتی کارخانوں میں کام کرتی نظر آتی تھی۔ فارما سوٹیکل کمپنیوں میں پیکنگ گرلز، ماچس فیکٹریوں، فشریز اورگارمنٹس فیکٹریوں میں خواتین کی بڑی تعداد نظر آتی تھی۔ اس وقت تک این جی اوز نہیں بنی تھیں مگر ٹریڈ یونین تحریک کافی مضبوط تھی۔

تبدیلی کے لیے لوگ سیاسی پارٹیوں کی طرف دیکھتے تھے کمیونسٹ پارٹی کے ماسکو نواز اور بیجنگ نواز گروپس زیر زمین سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے اور ٹریڈ یونینز میں بھی کام کرتے تھے۔ یہ ساٹھ اور ستر کے عشرے کی بات ہے۔ اس وقت ہم GENDER یا صنف کی اصطلاح اور تصور سے بھی ناآشنا تھے۔ انقلابی اور ترقی پسند خواتین کی تعداد بہت کم تھی لیکن وہ اپنے ترقی پسند ساتھیوں کے ہمراہ انقلاب کے خواب دیکھتی تھیں اور ’’ایشیا سرخ ہے‘‘ کے نعرے لگاتی تھیں۔ صنعتی کارکنوں کی بات نکلی تو مجھے یاد آیا کہ کمیونسٹ پارٹی زین الدین گروپ کی لالہ رخ انصاری نے محنت کش خواتین کے حالات جاننے کے لیے ایک ماچس فیکٹری اور فشریز میں مزدور کی حیثیت سے کام بھی کیا تھا۔ 1975ء میں اس گروپ نے ’’خواتین محاذ‘‘ بھی بنایا تھا اور ’’آدھی دنیا‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالا تھا۔

بہرحال اب ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں اور سرمایہ داری کی جدید شکل یعنی نیولبرل ازم کی ستم گری کا شکار ہیں۔ کارخانوں میں کام کرنے اور ٹریڈ یونین کے ذریعے مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کی جگہ غیر رسمی شعبے اور محنت کی لچک داری نے لے لی۔ اسے آپ رد انقلاب یا کاؤنٹر ریوولوشن بھی کہہ سکتے ہیں اور اب انفرادی حیثیت میں نسبتاً کمزور محنت کش سامنے آئے جن میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے ’’جو لچک دار محنت کی منڈیوں اور قلیل المعیاد معاہدوں، مستقل عدم تحفظ، سماجی تحفظ سے محرومی کی دنیا‘‘ میں رہ رہی ہیں۔

وہ کارخانے اور ادارے تباہ ہوچکے ہیں جہاں کبھی کام کر کے عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنے کا احساس ہوتا تھا۔ ٹھیکے پر کام لینے یا گھروں میں بیٹھ کرکام کرنے سے محنت کش طبقہ ٹکڑوں میں بٹ گیا ہے اور اسی لیے بہت سے ممالک میں ہمیں مزدوروں کی تحریکیں چلتی نظر نہیں آتیں۔ تیسری دنیا یا جنوب کے ممالک میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ شمال کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے اب اپنے صنعتی کام ان ممالک سے کرانے شروع کردیے ہیں کیونکہ یہاں مزدوری سستی ہے اور غریب ممالک کی حکومتیں بھی ان کی خواہشات کے آگے سر تسلیم خم کرنے کو تیار رہتی ہیں۔

صنعتی پیداوار کے مخصوص فیکٹریوں کی بجائے گھروں میں منتقل ہو جانے سے محنت کش طبقہ مزید انتشار کا شکار ہوا ہے۔ گھروں میں رہ کر ٹھیکے پر کوئی صنعتی کام کرنے والوں کو ہوم بیسڈ ورکرز کہا جاتا ہے اور ان میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں ہوم بیسڈ ورکرز کی تعداد 20 ملین ہے جن میں سے بارہ ملین عورتیں ہیں۔ ان کے لیے ابھی تک کوئی قانون نہیں بنا ہے اور پاکستان نے ابھی تک ILO کنونشن C177 کی توثیق نہیں کی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ساٹھ اور ستر کی دہائی تک بائیں بازو کے کارکن جب مزدوروں کے لیے کام کرتے تھے تو اس وقت صورتحال کچھ اور تھی۔

آج اگر آپ مزدوروں کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو صرف کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے نہیں بلکہ ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے بھی کام کرنا ہو گا جن میں خاصی تعداد خواتین کی ہے۔ ہم صرف طبقاتی تقسیم کی بات کیا کرتے تھے لیکن آج پیداوار اور تبادلے کے طبقاتی اور سماجی تعلقات پر اس علاقے، فرقے، نسل، زبان اور مذہبی فرقہ وارانہ تنظیموں کی سیاست بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ ان کے بارے میں جانے بغیر ہم کراچی جیسے شہر میں طبقاتی تشکیل اور شعورکے عمل کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ اسٹڈی ہمیں ایک سماجی و مکانی عمل کے طور پر کرنا ہو گی۔

گھر مزدوری یا ہوم بیسڈ ورک اقتصادی قلب ماہیت کے عمل کا اہم حصہ بنتا جا رہا ہے۔ اس کی افزائش صنعت کی عالمگیریت، سستی مزدوری اور ذرایع پیداوار کی بہتر کارکردگی کی مسلسل تلاش سے جڑی ہوئی ہے۔ آج کی عالمی منڈی میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ کوئی گارمنٹ یا کوئی الیکٹرانک ڈیوائس جو آپ استعمال کر رہے ہیں، وہ دنیا کے دو یا تین ملکوں کے محنت کشوں کی مشترکہ کاوش ہو۔جنھیں نہ تو ایک دوسرے کے بارے میں کوئی علم ہو گا، نہ یہ کہ جس شے پر وہ کام کر رہے ہیں اس کی فائنل شکل کیا ہو گی۔

گھر مزدوری کسی بھی غیر رسمی معیشت کا خاطر خواہ حصہ ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں گھر مزدوروں کی تعداد تین بلین ہے۔ جنوبی ایشیا میں گھر مزدوروں کی تعداد اور ان میں اکثریت عورتوں کی ہے۔ پاکستان میں محنت کشوں کی 80 فیصد تعداد غیر رسمی شعبے میں کام کر رہی ہے اور ان میں 50 فیصد تعداد عورتوں کی ہے۔ جن میں زیادہ تر گھر مزدوری کرتی ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر مڈل مین ان عورتوں کو کام لا کے دیتے ہیں۔ عام طور پر یہ عورتیں ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ ہوتی ہیں۔

ہوم بیسڈ ورکرز کا اتنی بڑی تعداد میں سامنے آنا ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ یہ ورکرز بائیں بازو یا مارکسی سیاست کی ’’روایتی‘‘ تعریف پر پورا نہیں اترتے پہلے سامراجی طاقتیں ہمیں اپنی نوآبادی بناتی تھیں کیونکہ انھیں ہمارا خام مال درکار تھا لیکن اب یہ منڈیوں کی آزادی اور مینوفیکچرنگ کو ہمارے جیسے ملکوں میں پھیلانے کا دور ہے۔

اب ہمیں ایک نئی بین الاقوامی تقسیم کار کمپنی نظر آتی ہے جس نے محتاجی اور غلامی کی نئی شکلوں کو جنم دیا ہے۔ اب غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہماری پیداوار پر اپنا تسلط جمائے بیٹھی ہیں اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ محنت و مزدوری کا اس طرح سے غیر رسمی اور لچک دار شکل اختیار کرنا نیولبرل کاؤنٹر ریوولوشن یا ردانقلاب کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اب انفرادی حیثیت میں اور نسبتاً کمزور کارکن سامنے آئے ہیں۔ یہ ایک طرح کے ڈسپوز ایبل کارکن ہیں جن میں خاصی تعداد عورتوں کی ہے۔ اب این جی اوز ان کے لیے کام کر رہی ہیں، ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں اور ان گھر مزدور خواتین کی یونینیں بنوانے کی کوشش بھی کر رہی ہیں۔

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔