یہ تو ہونا ہی تھا

جاوید قاضی  ہفتہ 11 جولائی 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کہنے کو تو سارے اختیارات سندھ حکومت کے حوالے سے قائم علی شاہ کے پاس ہیں، لیکن ’’ہونے‘‘ کو نہیں۔ یہ ہے وہ فرق جو دیکھنے میں تو باریک ہو لیکن بلیک اینڈ وائٹ کی طرح عیاں ہے۔

قانون جب اس عکس کو دیکھتا ہے تو اسے de jure اور de-facto میں تقسیم کرتا ہے۔ قائم علی شاہ ٹھہرے de jure وزیر اعلیٰ یا صوبے کے سربراہ یا Executive پاور۔ یہ نیب، وہ FIA، تو پھر ان سب پر سونے پہ سہاگا، ایک وفاقی وزیر اور بہت سے لوگ اس سارے ماجرے کو ’’نرم شب خوں‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں یعنی “Soft Coup”۔ یعنی ایسا منظر جو سول و آئینی حکومت کو بظاہر دکھائے کہ وہ وجود تو رکھتی ہے مگر ان کی سنتا کوئی کم ہے اور ساتھ ساتھ انتظامیہ اب خاکی وردی کی زیادہ بات مانتی ہے۔

کئی دنوں سے شاہ صاحب آگ بگولا ہیں اور ان کے باس زرداری بھی۔ وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتے ہیں یا کورٹ میں جانے کی دھمکی سے لے کر اس سارے عمل کو غیر آئینی وغیر قانونی کہتے ہیں۔ غرض یہ کہ رینجرز اور قائم علی شاہ کی حکومت کے بیچ میں ہونے والی اس رسہ کشی میں لوگ رینجرز کے ساتھ ہیں اور کیوں نہ ہوں۔

بھتہ خوری بند، ٹارگٹ کلنگ پر تالا، چوری، ڈاکہ زنی، زمینوں پر قبضہ گیری سب بند۔ خودکشی حملے بند، مدرسے چپ، سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔

اور لوگ ہیں جو ذہنی اضطراب سے نکل چکے ہیں، کراچی کی روشنیاں ہیں جو لوٹنے کو ہیں۔ یہ شہر جو 1985 سے اپنے عروج سے جو پھسلا تو پھر پھسلتا ہی گیا۔ ہاں مگر پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کے کردار سے غافل نہ ہوا۔ کراچی میں ہے پاکستان کی واحد بندرگاہ (جب تک گوادر بنے گی) لگ بھگ دو کروڑ کی آبادی کا یہ شہر (شاید ہی برصغیر میں اتنی آبادی کا کوئی اور شہر ہو) کون سا رنگ ہے، قوم ہے، زبان ہے، فرقہ ہے، مذہب ہے جو یہاں نہیں پایا جاتا۔اور جو اب کی بار ’’چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے، نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے‘‘یعنی جو مذہبی رواداری جس تیزی سے اس ملک میں غائب ہونا شروع ہوئی اس میں یہ شہر آخر میں آتا ہے ہاں مگر بری حکمرانی میں اس شہر و اس صوبے کا کوئی ثانی نہ تھا۔

یہ آج کی بات نہیں ہے یہ بات 2002 سے اک نئی لہر کے ساتھ نمودار ہوئی۔ یہ شہر مافیاؤں میں بٹ گیا، کوئی ٹینکر مافیا تو کوئی بلڈر مافیا، تو کوئی بھتہ مافیا، اغوا برائے تاوان مافیا، قاتل بھی وہی تو منصف بھی وہی۔ فریاد بھی وہی تو فریاد داخل کردہ بھی وہی۔ جو راتوں کو پہرے دیتے تھے وہ اکثر ان راتوں کو ڈاکے بھی ڈالتے تھے ہر چیز کمیشن پر تھی۔ ہر شے پہ نیلامی تھی۔ جو جتنا بڑا رہزن وہ اتنا بڑا عزت مآب عالی جا۔ شریف لوگوں نے شہر چھوڑنا شروع کردیا۔سب نے کینیڈا، امریکا، لندن، دبئی کا رخ کیا۔ اربوں ڈالرکے اثاثے اس شہر سے چل پڑے۔ فیکٹریاں سری لنکا و بنگلہ دیش منتقل ہونا شروع ہوئیں۔

اس شہر کی بربادی میں منتظر تھی دبئی کی خوشحالی۔ کل جو کالا دھن سوئس بینکوں میں جمع ہوتا تھا اس نے اب کی بار دبئی کے بینکوں کا رخ کیا۔ عرب ممالک سے جو جنونی و انتہا پرست تھے ان کے پیسے آگے جہادیوں و فتنہ گروپوں تک جانے کے لیے پہلے کراچی آتے تھے اور پھر آگے کا رخ کرتے تھے۔ کون سی دنیا کی نامی گرامی ایجنسی ہے جس کے ایجنٹ آپ کو یہاں نہیں ملیں گے۔ را، موساد، سی آئی اے، ’’KGB‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ کراچی مختلف Proxy جنگوں کی آماجگاہ بن گیا۔

اور یہ قائم علی شاہ سب ٹھیک ہے کا راگ الاپتے رہے۔لیکن کراچی یا سندھ کسی Vacuum میں وجود نہیں رکھتا۔ بلکہ وہ پاکستان کا حصہ ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ سندھ میں ایسے ہو باقی پورا پاکستان بہتر ہو۔ پنجاب میں انصاف کے حوالے سے کیا دودھ کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ وہاں کوئی انتہا پرست چھپا ہوا نہیں۔ وہ ساری سرکاری مشینیں شریف و نیک آفیسرز پر مشتمل ہیں۔ وہاں سرکاری خزانے میں کوئی خیانت نہیں ہوتی۔ ٹھیک ہے سندھ سب سے آگے ہے مگر آگ ہے ہر جگہ برابر لگی ہوئی۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ’’عزیز ہم وطنو‘‘ جب بھی آئے انھی حقیقتوں کو بنیاد بنا کے آئے اور ہوا وہی جو ہر آمریت نے کیا ملک آگے نکالنے کی بجائے اندھیروں میں اور دھکیل دیا۔ جرنیل صاحب جو آئے ان کے گرد درباریوں نے گھیرا تنگ کردیا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آمریتوں کو اپنی Legitimacy کے لیے کوئی جواز دیتا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے اورنگزیب والی چال چلی جس نے اپنے بھائی کی بادشاہت کا حق چھین کر اسے قتل کرکے یہ کہا تھا اسے اسلامی نظام دینا ہے۔ ضیا الحق نے بھٹوکو قتل کر کے بھی یہی کچھ کیا۔ مشرف، ضیا الحق کے پیدا کیے بگاڑ کو ختم کرنے آئے تھے۔

دونوں کی جڑیں عوام میں نہیں تھیں، دونوں کو امریکا کی آشیرباد کی ضرورت تھی۔ ایک نے جہادیوں کو دانہ پانی دے کر تناور درخت بنایا تو دوسرے نے اس کی شاخیں کاٹ کر اسے اور پھیلایا۔ دونوں ادوار میں وہی گھسے پٹے سیاسی خاندان حکومت میں تھے۔ کل وہ امیر المومنین جنرل ضیا الحق کے ساتھ تھے تو وہ لبرل آمر مشرف کے ساتھ تھے۔ اور آج کل پھر امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے دن آنے والے ہیں۔ تو بہت سے ان میں سے میاں صاحب تو زرداری صاحب کے ساتھ ہیں۔

معاملہ آمریتوں کا نہیں، معاملہ جمہوریتوں کا اپنے راستے سے بھٹکنے کا ہے۔ یعنی وہ جمہوریت جو گورننس دینے کے برعکس شرفا کے پاس یرغمال ہوجائے، اور وہ مال بٹورنا شروع کردیں۔ اور جب ایسی صورتحال پیدا ہوجائے کہ اگر کوئی ’’عزیز ہم وطنو‘‘ کہہ کہ اقتدار پر قبضہ کرلے اور لوگ آئینی حکومت کی بحالی کے لیے سڑکوں پر نہ آئیں کیونکہ بھلا ان حکمرانوں نے ان کے لیے کیا بھی کیا؟ مگر بھٹو کے حوالے سے حالات مختلف تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن گیا۔ اور وہ بھی CIA کی خواہش تھی اس کو مٹانا۔ باقی جمہوری ادوار جو آئے وہ مکمل جمہوریت بھی نہ تھے بھٹو دور کی طرح۔ وہ تو آدھی جمہوری تھے۔

58(2)(B)کے سائے تلے رہتے تھے اور سب پر یہ تلوار گری بھی، کسی نے بھی اپنا دور پورا نہ کیا۔ نہ خارجہ پالیسی ان کے ہاتھ میں تھی۔ یہ تو زرداری کا زمانہ تھا جو پانچ سال نکال گیا مگر اپنا وزیر اعظم کورٹ کے ہاتھوں گنوایا۔ memogate اسکینڈل کا سامنا کیا اور خارجہ پالیسی ان کے ہاتھ میں نہ تھی۔

اس صفحے پر بہت ہی واضح انداز میں وہ تفریق کرکے اس حکومت کو بتانے کی کوشش کی کہ وہ جنرل مشرف پر کیس نہ چلائیں کیونکہ بجائے اسے سزا دینے کے وہ اپنا کام ختم کریں گے اور پھر ایک دھرنا میاں صاحب کو ہلا بیٹھا۔ وہ جس مینڈیٹ پر اچھل کود کر رہے تھے اس پر سوالیہ نشان اٹھ گئے اور اب یہ عالم ہے کہ ہر بات پوچھ کر پھر کرتے ہیں اور وہ جو ان کو کہتے ہیںحکمران کرتے جاتے ہیں۔

جولائی کے مہینے میں 21 ویں ترمیم والے فل بینچ والی سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آنا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کورٹ اس ترمیم کو ہونے دے گی اور اس طرح کیا وہ آئین کے Basic Structure کو واضح کریں گے یا پارلیمنٹ کو واپس بھیجیں گے کہ وہ اس ترمیم کو دوبارہ سے دیکھے؟

اسٹیبلشمنٹ کو دھرنے سے پیدا ہوئے بحران میں اقتدار پر قبضہ کرنے کو کہا گیا مگر ایسا نہیں کیا۔ فوج نے پاکستان کی تاریخ کا عظیم معرکہ ضرب عضب کرکے دکھا دیا۔ جمہوریت کی آڑ میں چھپی کرپٹ ترین سندھ حکومت کے پرخچے اڑا دیے مگر سندھ حکومت کو ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بہت ہی متحرک سربراہ ہیں Peter the great کی طرح ان کے پاؤں بھی بے چین ہیں۔ بہت ہی چھوٹے عرصے میں اس ملک کو بہت حد تک certainty اور Stability دینے میں کامیاب گئے ہیں۔

صحیح کہتے ہیں زرداری صاحب کہ ’’ہیں تو صرف تین سالوں کے لیے‘‘۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جو انقلابی تبدیلیاں جنرل راحیل کے زمانے میں آرہی ہیں انھیں بجائے ’’عزیز ہم وطنو‘‘ کے بھنور میں ڈالنے کے ایک مستقل راستہ دیا جانا چاہیے اور سیاست سے مسلح طریقہ کار ختم کرکے انتہا پرستوں کی ان بنیادوں کو بھی ختم کیا جائے جہاں سے وہ جنم لیتے ہیں۔

اگر جنرل کیانی کو تین سال کی توسیع مل سکتی ہے تو جنرل راحیل کو کیوں نہیں اور اگر اس طرح نہیں ہوتا تو پھر کہیں یہ بھی نہ سننا پڑے کہ ’’یہ تو ہونا ہی تھا۔‘‘

de jure اور de-facto کی اس تقسیم کو رہنے دیا جائے اس سے پہلے کہ پھر کہیں نظریہ ضرورت نہ جنم لے اور آج کی ڈیفکٹو طاقت کو ہی de jure نہ قرار دے دے۔

قائم علی شاہ کی بات میں وزن تو ہے مگر بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔